رازق سربازی
چیونگم سے زبان جتنی لذت اندوزی کرتی ہے، شادی اس سے بھی کم وقت میں اپنا اثر کھوبیھٹتی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ چیونگم کو آپ کچھ وقت میں پھینک سکتے ہیں اور شادی کو، ایک آنکھ ہنستے،دوسری آنکھ سے روتے ، ساری عمر چباتے جائیں۔
انڈین مووی “ بی اے پاس ” اس کی سند ہے۔
دہلی کی ریلوے کالونی کی دنیا کے پس منظر سے بنُا افسانہ “ دا ریلوے آنٹی ” اس فلم کی بنیاد بنا۔ کہیں افسانہ، کہیں فلم ، دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتا دکھائی دیتے ہیں۔
بی اے پاس کی دلچسپ کہانی سے ایک مکالمہ
“ شادی کے لائسنس سے دہلی کی سوسائٹی میں جو کچھ ملتا ہے ، وہ سب اچھا لگتا ہے۔ ساریکا، مکیش سے کہتی ہے۔ ”
کوئی تسلیم کرلے یا نہیں۔ اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ اکثر کیسز میں ، ہم نے ، عورت کو اپنا جسم بیچتے دیکھ کر طوائف کی اصطلاح ایجاد کرلی ہے، بعض حالات میں مرد بھی طوائف بن جاتے ہیں، اپنا جسم پیسے کی خاطر کسی عورت کو بیچ کر۔
بی اے پاس ایک ایسی ہی کہانی ہے۔
بظاہر لگتا ہے سیکس اس فلم میں سب کچھ ہے لیکن شاید ایسا نہیں، سیکس اس غصے کا اظہار ہے جو پھٹ پڑنے کو ہے۔ فلم میں سیکس عورت کا ، کرپٹ مگر سماجی طور پر بلند مرتبت شوہر سے نفرت کا ذریعہ ہے۔ اس کی نفرت کی سیکس کے راستے نکاسی ہوتی ہے۔
جسم فروش عورتوں کے پاس، بلبلِ ہزار داستان کی طرح، بے شمار کہانیاں ہیں لیکن ایسے مرد بھی سر راہ ملتے ہیں جو اپنے جسم کا دھندہ کرتے ہیں۔
جس کسی مرد نے کبھی،ناگزیر حالات میں، پیسے لے کر، طواأف بن کر کسی عورت کا بستر گرم کیا ہو، وہ جانتا ہوگا اپنے جسم سے کسی ناپسندیدہ جسم کو لذت و سرور پہنچانا روح کو کیسا آزار پہنچانے والا دھندہ ہے۔ ان ساعتوں میں موت سمیت ہر قدم دلکش لگتا ہے۔ دل کرتا ہے کاش میں اس بھیڑ کا حصہ بن جاتا، جو چھوٹی، چھوٹی خوشیوں کیلئے اپنے زور مرہ معمولات میں سرگرم ہے یا کاش میں مرکر دفن ہوجاتا لیکن کسی ناپسندیدہ جسم کیساتھ ہم آغوش ہونا نہیں پڑتا۔
فلم میں سیکس پورے منظرنامے پر پھیلا ہوا جگہ جگہ دستیاب ہے۔ کوئی پی ایچ ڈی کا طالب علم ہے تو خرچہ نکالنے کیلئے رات کو سڑکوں پر خواجہ سرا بن کر خود کو بیچتا ہے۔
اشوک کھنہ جو ساریکا کا بیوروکریٹ شوہر ہے، وہ غیر فطری ہم بستری کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے ، ادھر ادھُر منہ مارتا ہے ۔ وہ اپنی پُرکشش بیوی ساریکا ( شِلپا شوکلا ) کی جانب مائل نہیں۔
ساریکا اپنے شوہر کی توجہ حاصل کرنے کیلئے،شروع کے دنوں میں، ان سے لڑتی تھی۔ شوہر سے نامراد ہوکر ان سے، اپنے شوہر سے، ان کی نفرت سیکس کے راستے نکاسی کا راستہ تلاش کرلیتی ہے۔
فلم میں ایک کردار “ بیجی ” ہے۔ جو اشوک کھنہ کی عمر رسیدہ ماں ہے۔ وہ ساریکا کی نجی زندگی کے رازوں سے واقف ہے اور اسے ڈائن کہتی ہے۔ گویا شیخ سعدی کی روح دہلی کی ریلوے کالونی میں بھی گھوم رہی ہو۔
“ صد لعنت بر زنِ نیک ۔۔۔۔۔ بدِ کہ شمار نیست ” شیخ سعدی
ساریکا زنِ بدکار نیست۔
ساریکا ؛ کسی سابق خارجہ امور کے افسر کی بیٹی ہے جس نے دنیا دیکھ رکھی ہے۔ اس نے اپنے اندر کے بچے کو کبھی مرنے نہیں دیا۔ جس کمرے کو وہ ڈرائنگ روم کے طور پر سجاتی ہے، وہاں وہ اپنی گڑیوں کو شوکیس میں سجاکر رکھتی ہے۔ یہ ان کی شخصیت کا دوسرا رخ ظاہر کرتی ہے کہ وہ بظاہر عیاش طبع ہے لیکن یہ اس کی شخصیت کا مکمل عکس نہیں ، وہ اپنے قسم کی ایک ہمدرد شخصیت ہے جو مکیش ( شاداب کمال ) کی مدد کرتی ہے تو اپنے انداز میں، اس کا سوسائٹی کی بہت ساری خواتین سے رابطہ ہے جو کسی نہ کسی سطح پر اپنے شوہروں سے مطمئن نہیں۔ وہ ان خواتین کی بھوک مٹانے کیلئے “ باعزت طریقہ ” سے ان کا مکیش سے رابطہ کراتی ہے۔
مکیش،خود کو بیچنے سے جب ناخوش ہوجاتا ہے، ساریکا اسے منالیتی ہے کہ “ سوشل سروس سمجھ کے کر ”
جونی ( تابوت ساز ) جو تمام ٹھگیوں سے واقف ہے لیکن اپنی دنیا میں خوش۔
بورڈنگ ہاؤس جہاں، مکیش کی بہنیں رہتی ہیں ، عیاشی کی ایک رسد گاہ ہے۔
مکیش کے تمام راستے جب بند ہوجاتے ہیں، وہ خود کو مردوں کے پاس ، خواجہ سرا بن کر، بیچنا شروع کرتا ہے۔
گویا جہاں ہم رہتے ہیں؛ وہ ایک دلدل ہے۔ طاقت و ہوس کے بیچ کون پِستا ہے۔
فلم کی ہدایت کاری کامیاب اور ڈائیلاگ جاندار ہیں۔
اسٹارز: شِلپا شُکلا ، شاداب کمال، دبندو بھٹاچاریہ، راجیش شرما، گیتا شرما
فلم کے پیش کنندہ: اجے بھل ہیں۔