عرفان احمد خان۔ جرمنی
عراق اور شام میں جاری خانہ جنگی کے متاثرین سر چھپانے کے لیے کس طرح در بدر پھرتے ہیں اور کس قدر سخت حالات کا سامنا کرتے ہیں اس کے مناظر ہم ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔
ترکی کے ساحل سے ملنے والی تین سالہ بچے کی نعش نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ چار افراد کے خاندان میں زندہ بچ جانے والے خاندان کے سربراہ عبداللہ نے جرمن رپورٹر کو اپنی درد ناک کہانی سناتے ہوئے بتایا کہ وہ کرد علاقے رکن آل دین کا رہنے والا ہے جہاں وہ زیتون کے درختوں کے ایک چھوٹے باغ کا مالک تھا۔
وہ پہلے دمشق میں باربر کا کام کرتا تھا ۔ حالات خراب ہونے پر وہ اپنی فیملی کو لے کر کوبانی شہر آگیا جب یہاں بھی جان کو خطرہ درپیش ہوا تو فیملی کو چھوڑ کر استنبول میں ٹیکسٹائل فیکٹری میں روزانہ بارہ گھنٹے مزدوری کرکے خاندان کی کفالت کرتا رہا۔میری رہائش فیکٹری کے تہہ خانہ کے ایک ایسے کمرے میں تھی جسے رات کو باہر سے مقفل کر دیا جاتا۔ تین سال میں نے یہاں اسی طرح گزار دیے۔
2014 میں جب داعش نے کوبانی شہر پر قبضہ کر لیا عورتوں اور بچوں کو کیمپوں میں بھجوادیا گیا ۔ میری بیگم ریحانہ اپنے دوبچوں الان اور غالب کے ساتھ داعش کے کیمپ میں مقید تھی۔ میں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر انہیں کیمپ سے نکال کر استنبول لے آیا لایاجہاں تعمیراتی کمپنی میں ملازم ہو کر روزانہ 200 بوری سیمنٹ اٹھاتا۔
میرے دونوں بچوں کو جلد کی بیماری تھی جس پر 210 لیرا کی کریم استعمال کرنی پڑتی۔ 400لیرا کا سیم زدہ کمرہ میرے بچوں کے لیے مضر صحت تھا ۔میری بہن جو 25 سال سے کینیڈا میں مقیم ہے اس کی مدد سے ہم نے یورپ کا سفر اختیار کرنے کی ٹھانی لیکن بلغاریہ کے بارڈر پر پکڑے گئے اور پوری فیملی کو ڈی پورٹ ہونے پر ترکی میں جیل میں رہنا پڑا۔
جیل سے رہائی کے بعد ہم ازمیر گئے جہاں کی سڑکوں پرہر وقت ایجنٹ شکار کی تلاش میں پھرتے ہیں ہم نے چھ ہزار ڈالر دے کر یونان جانے کی کوشش کی۔ ہم رات کے پچھلے پہر چھ میٹر لمبی اور دو میٹر چوڑی کشتی پر تیرہ دوسرے مسافروں کے ساتھ یکم ستمبر کو یونان کے ایک جزیرہ کے لیے روانہ ہوئے۔
روانگی کے وقت بظاہر سمندر پرسکون تھا لیکن پانچ منٹ بعد ہم تیز ہواؤں میں ہچکولے کھانے لگے ۔ کیپٹن نے واپس ساحل کی طرف جانے کی بہت کوشش کی لیکن ہر چیز پر انسانی اختیار ختم ہو چکا تھا۔ ایجنٹ اور انسانی سمگلر ہمیں کشتی والے کے سپرد کرکے غائب ہو چکے تھے۔ مجھے بار بار اپنی بیگم ریحانہ کی آواز سنائی دیتی ’’ابو غالب بچوں کا خیال رکھنا ‘‘۔
لیکن وہاں سب کچھ ہواؤں کے رحم و کرم پر تھا۔ میں تیراکی کے سہارے ساحل تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جہاں پولیس نے مجھے جیل میں ڈال دیا ۔دو دن بعد مجھے اطلاع دی گئی کہ میری فیملی کی لاشیں مل گئی ہیں جن کو لے کر میں نے واپس اپنے آبائی شہر کا سفر شروع کیا ۔ میں تین لاشیں لے کر گاؤں پہنچا تو پورے گاؤں میں کہرام برپا ہو گیا۔ تدفین میں ہزاروں لوگ شریک ہوئے۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون تھے اور کہاں سے آئے تھے ۔ میرے گاؤں کی آبادی تو ایک ہزار بھی نہیں۔
گاؤں تباہ حال ہے میر ا مکان بھی اس تباہی کی نذر ہو چکا ہے، یہاں نہ دودھ ہے نہ پانی اور نہ ہی خوراک۔ لیکن میں اب اس گاؤں کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جاؤں گاکیونکہ میں مر چکا ہوں ۔
لوگ کسی دن مجھے بھی اسی زمین میں دفن کر دیں گے ۔