چاند پینٹ کر رہا ہوں

ثنا بلوچ

maxresdefault

وجاہت مسعود کے جواب میں جو انہوں نے میرے سوال کے جواب میں لکھا کالم کا عنواں تھا چاند پینٹ کر ہا ہوںاچھا ہوا آپ نے سب کے لیے دروازہ کھول دیا ہندوستان کے ان دانشوروں کے لیے بھی جو کشمیر کے لیے تاریخ کی بحث کو لا حاصل قرار دیں۔ اسرائیل سے لے کر امریکہ ہر چھوٹے بڑے سامراج کے دانشوروں کے لیےبھی اب راستہ آساں کردیا کہ تاریخی مباحث کو چھوڑ کر آگے کی طرف بڑھیں۔

چونکہ سامراجی قوتیں اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے کیونکہ بد قسمتی سے ان دانشوروں کا تعلق بھی گر انہی سرزمیں سے ہو .کتنا غلط تھا سارترکہ الجزائرکے مسئلے کو فرانسیسی عینک سے دیکھنے کے بجاے تاریخی اور انسانی تناظر میں دیکھا !کتنی غلطی پر تھا البرٹ کامیو جس نے یہ کہا کہ وطن پرستی اپنی جگہ لیکن انصاف سے مجھے پیار ہے۔

کاش کہ چے گویرا کو بھی یہی بات سمجھ آجاتی یا گاندھی اب معاملات کو ہندوستاں کی نظر سے دیکھتا مگر افسوس گولی ہی کو ترجیح دی۔میں یہاں فقط آپ سے مخاطب نہیں ہر اس انساں سے مخاطب ہوں جو سچائی کو فقط اس لیے پس پشت ڈال دیں کہ چونکہ اک حقیقت سامنے آ چکی ہے اب بحث کالاحاصل ہے پھر تو بائبل بھی تو اک حقیقت بن چکی تھی، گلیلیو خوامخواہ اسے جھٹلانے میں تلا ہوا تھا۔

کچھ انسان ہوتے ہیں جو نہ مشرق کے ہوتے اور نہ ہی مغرب کے وہ لوگ تاریخ ریاست یا مذہب کو اجارہ دار نہیں سمجھتے وہ کسی قبضہ گیریت کو دو قومی نظریہ یا اقبال کے خواب میں لپیٹ کے پیش نہیں کرتے وہ مکرو فریب کو جمہوریت کا لبادہ نہیں پہناتےوہ تاریخ کو ریاستی جواز دے کربحث لا حاصل قرار نہیں دیتے۔ اگر وہ مذہب کے ٹھیکداروں پر گرجتے برستے ہیں تو خود بھی کبھی ریاست کی خاطر تا ریخ سے صرف نظر نہیں کرتے۔

اب میں آتا ہوں آپ کے کالم کے مندرجات کی طرف یہ کہنا کہ ابقومی آزادیوں کا زمانہ گزر چکامطلب یہ زمانہ 1947 تک تھا اب گزر چکا یا 1970 کے بعد گزر چکا یا مشرقی تیمور کے بعد شاید گزر چکا ہو ہمیں آپ کی یہ بات شاہد سمجھ آ گئی۔ براہ کرم یہی بات کشمیریوں کو بھی سمجھا دیں اور ہو سکے تو فلسطینیو ں کو بھی کہ قومی ثقافتی اور تاریخی رشتوں کو پس پشت ڈال کر سامراج کے سر خم تسلیم کرے کیو نکہ ظلم کو اب جواز مل گیا ہے۔

آپ کے خیال میں تیسری آپشن کا نہ ہونا خود جمہوریت کش فیصلہ نہیں ہے۔باقی قلات کا معاملہ دوسری ریاستوں سے بالکل مختلف تھا وہ برطانیہ کے ساتھ معاہدات کے ساتھ جڑا ہوا تھا اور برصغیر کا کبھی حصہ نہیں رہا تھا اور جو تقاریر اور فیصلے ایوان میں ہوے وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اب ان کونہ ماننا کم ازکم فقط یہ کہہ کر کہ ریاستی جواز باقی نہیں رہے گاا میری دانست سے بالا تر ہے.مجھے خوشی ہے کہ آپ چاند کو پینٹ کررہے ہیں بس خیال رکھیے گا کہ رنگ صرف ریاستی نہ ہو بلکہ سچائی اور انسانیت کا رنگ ہو وگرنہ چاند بھی سبز نظر آئے گا وہ بھی بوٹ سمیت….شکریہ

One Comment