سید نصیر شاہ
اقبال اور جمہوریت
اقبال نے اپنے اشعار میں بعض ایسے افراد کا نام لیا ہے جن سے ان کے تعصبات یا عقیدتیں وابستہ رہیں کہیں انہوں نے ان افراد سے اپنی وابستگی کا سبب بیان کیا ہے کہیں یونہی ان سے عقیدت کا اظہار کر دیا ہے یہی صورت حال ان افراد کے ساتھ بھی رہی جن کے متعلق ان کی رائے مخالفانہ تھی۔
شارحین اقبال نے یقیناًاس موضوع پر کام کیا ہو گا میں اس کام پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں نے شارحین کی مدد سے اقبال کو کبھی نہیں پڑھا ویسے بھی میرا اندازنظر عام شارحین سے جدا رہا ہے یہ حضرات اقبال کی عقیدتوں اور اس کی نفرتوں میں خود کو بھی ضم کئے رکھتے ہیں اور ذاتی رائے یا تو رکھتے نہیں یا اس کا اظہارنہیں کرتے۔
شاید تشریح وتبیین کے تقاضے بھی یہی ہوں جن افراد کا اقبال نے احترام سے نام لیا اور احترام وتکریم کا سبب بیان نہیں کیا ۔یہ حضرات عام طور پر اس فرد کے عام تعارف پر اکتفا کر لیتے ہیں ۔میں نے اس مضمون میں ذرامختلف انداز اپنایا ہے مگر سر دست تین چار افراد ہی کو لیا ہے۔ ایک مقالہ اسی بات کا ہی متحمل ہو سکتا تھا۔ان تمہیدی سطور کے بعد اصل مضمون کی طرف آئیے۔
مازنی
بانگ درا میں اقبال کی جو غزلیں ہیں ان میں سے بعض اشعار مجھے بہت پسند ہیں میرے ان ہی پسندیدہ اشعار میں سے ایک یہ سادہ سا شعر بھی ہے
ہرے رہو وطن مازنی کے میدانو، جہاز پر سے تمہیں ہم سلام کرتے ہیں
میں نے جب بھی یہ شعر پڑھا ہے میں تصور میں اس منظر میں گم ہو گیا ہوں اقبال بحری جہاز کے عرشہ پر کھڑا دیکھ رہا ہے اٹلی کے سبزہ زار اس کی آنکھوں کے سامنے سے گزر نے لگتے ہیں سبزہ زار ویسے بھی ایک شاعر کو متاثر کرتے ہیں اور دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ ان زمینوں کی ہریالیاں قائم رہیں۔
مگر اقبال کے پاس ان سرسبز میدانوں کے لئے ایک اور وجہ احترام موجود ہے اور وہ یہ کہ یہ میدان اس اٹلی کے ہیں جو مازنی کا وطن ہے۔ اور جب یہ خیال آتا ہے اقبال کے ہاتھ سلام عقیدت کے لیے اٹھ جاتے ہیں۔
مگر یہ مازنی کون تھا؟ مازنی اٹلی کا مشہور مفکر اور سیاسیات کا سکالر تھا بعض لوگ اس کا شمار یورپ کے صف اول کے مدبرین میں کرتے ہیں۔مگر اقبال اس کا کیوں احترام کرتا تھا؟جب آپ اس موضوع پر سو چیں گے تو آپ کی نظر اقبال کے سیاسی نظریات پر جائیگی آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی نظریات میں اقبال بڑی حدتک جمہوریت مخالف نظریات رکھتا تھا۔اس کی وجہ بھی آپ جانتے ہو نگے جمہوریت کا مطلب ہے اکثریت کی حکومت۔
اقبال غیر منقسم ہندوستان کا ایک مسلمان شاعر تھا جو سیاست کو مذہب کے حوالہ سے دیکھتا تھا اور قومیت کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر کرنے کا علمبردار تھا ہندوستان میں اکثریت ہندوؤں کی تھی۔ اقبال نے بھی کبھی وطینت اور متحدہ قومیت کے راگ الاپے تھے اور ’’خاک وطن‘‘ کے ہرذرے کو دیوتا‘‘ سمجھا تھا مگر بہت جلد اس پر سر سید کا جدا گانہ قومیت والا نظر یہ غالب آگیا تھا اور وہ ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ کی وکالت کرنے لگا تھا۔
اگر وہ نظریہ جمہوریت کی تائید کرتا تو اس کے خیال میں وہ پورے کا پورا ہندوستان ہندوؤں کے حوالہ کرنے پر تیار ہوجاتا جو اس کے لیے ناممکن تھا ۔اُسے اکثریت کا اور اکثریت کی حکومت کا خوف جمہوریت کی مخالفت پر اکسارہا تھا جس وقت اس نے یہ غزل لکھی ہوگی یقیناًجمہوریت سے اسے زیادہ نفرت نہیں ہو گی لیکن بعد میں یہ نفرت پختہ ہو تی گئی چنانچہ اس نے کھل کر کہا
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں، بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لانہیں کرتے
بلکہ وقت کے ساتھ بڑھتی ہوتی یہ نفرت اس انتہا کو چھونے گلی کہ اس نے صاف کہہ دیا
گریزاز طرزِ جمہوری غلام پختہ کارے شو، کہ از مغزدوصد خرفکر انسانی نمی آید
ترجمہ: جمہوریت سے بھاگ اور پختہ کا ر غلام بن جا یعنی ڈکٹیٹرشپ قبول کر لے کیونکہ دوسوگدھوں کے دماغوں سے بھی ایک انسا ن کے برابر کی سوچ برآمدنہیں ہو سکتی۔
جمہوریت پر یہ تنقید اس کے نزدیک علمی وعقلی تنقید تھی اس وقت ہم اس کے علمی وعقلی جواب کی بحث میں نہیں الجھنا چاہتے نہ ہم اس تفصیل میں جا سکتے ہیں کہ اقبال کا نظریہ درست تھا یا غلط بہر حال اقبال کی تنقید مدلل تھی کہ آخر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باشعور شخص کی رائے اور ایک عام جاہل اور سیاسی شعور سے عاری شخص کی رائے برابر کیسے ہو سکتی ہے؟
بعض لوگ بلکہ اکثر شارحین اقبال کہتے ہیں کہ اقبال جمہوریت کا قائل بھی ہو گیا تھا وہ اپنے خیال کی تائید میں اقبال کا یہ شعر پیش کرتے ہیں
سلطانی، جمہور کا آتا ہے زمانہ، جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
وہ ’’ سلطانی جمہور‘‘ سے جمہوریت مراد لے لیتے ہیں اور پھر ثابت کرنے لگتے ہیں کہ اقبال جمہوریت کا حامی ہو گیا تھا اور پھر اقبال کے کلام میں ’’تضادات‘‘ کے وسیع موضوع میں جمہوریت کے متعلق اس کے نظر یات کو بھی شامل کردیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں یہاں ’’سلطانی جمہور‘‘ سے مراد کچھ اور ہے۔ اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ اقبال معاشی مساوات کی حدتک سوشلزم کو درست سمجھتا تھا یہ نظم ’’ اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو‘‘ ان ہی تاثرات کی نقیب ہے یہاں سلطانی جمہور سے مراد وہی جمہوریت ہے جسے مارکسزم لینن ازم میں پرولتار ی ڈکٹیٹر شپ کہا گیا ہے۔
ویسے عام جمہوریت کے لیے بھی اقبال نے یہ ترکیب استعمال کی ہے وہ اپنی مشہور نظم’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں ایک مشیر ابلیس کے منہ سے کہلواتے ہیں۔ ’’خیر ہے سلطانیء جمہور کا غوغاکہ شر‘‘ لیکن جس نظم کی ہم بات کر رہے ہیں اس کے سیاق وسباق سے واضح ہوتا ہے کہ’’سلطانی جمہور‘‘ وہاں پرولتاری ڈکٹیٹر شپ کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے وہاں’’سلطانی جمہور‘‘ کی تحسین کی گئی ہے اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے حق میں اقبال اچھی رائے نہیں رکھتے ۔
اس بحث میں ہم مزید تفاصیل میں نہیں جا سکتے کیونکہ ہمارا موضوع اور ہے بہر حال جمہوریت کو اقبال اسلئے بھی رد کرتے ہیں کہ وہاں بندوں کو گناہ جاتا ہے تولا نہیں جا تا۔ اقبال کو جمہوریت سے ایک اور بڑا اختلاف بھی ہے اور وہ یہ کہ جمہوریت یا ڈیموکریسی میں اقتدار اعلیٰ عوام کے پاس ہوتا ہے جبکہ اقبال اور دیگر مسلمان مفکرین سیاست کے نزدیک اقتدار اعلیٰ کا مالک خدا ہے اور یہ بنیادی اختلاف ہے۔
جمہوریت میں اگر اکثریت اتفاق کر لیتی ہے کہ مثلاً شراب کا استعمال جائز ہے تو اس کے جواز کا قانون بن جائیگا لیکن اقبال اور اس کے ہمنوادیگر مسلمان مفکرین اس صورت میں اکثریت کی رائے کو ٹھکرا دیتے ہیں پاکستان میں جوآئین رائج ہے اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کوئی قانون کتاب وسنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا حیرت ہے کہ اس وضاحت کے ہوتے ہوئے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ آئین جمہوری ہے اور علما حضرات کہتے پھرتے ہیں ’’جمہوریت بحال کرو‘‘ اقبال نے تو صاف کہہ دیا تھا۔
’’اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے نہ ملوکیت نہ ارسٹا کریسی ہے نہ تھیا کریسی بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام کے محاسن سے متصف ہے اور قبائح سے منزہ‘‘(’’ملفوظات اقبال‘‘ مرتبہ محمود نظامی مطبوعہ امرت الیکٹرک پریس لاہور طبع اول ص172)۔
گویا اقبال جمہوریت کے خلاف یہ دلیل بھی رکھتا تھا کہ اس میں اقتدار علیٰ خدا کی بجائے عوام کے پاس آجاتا ہے اٹلی کا مدبر سیاست مازنی بھی جمہوریت کے خلاف ایسی ہی باتیں کہتا ہے یہاں ہم اس کا صرف ایک اقتباس درج کرتے ہیں اس سے بات واضح ہو جائیگی مازنی لکھتا ہے
“اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عام رائے دہندگی کا اصول بہت اچھی چیز ہے یہی وہ قانونی طریق کار ہے جس سے ایک قوم تباہی کے مسلسل خطرات سے محفوظ رہ کر اپنی حکومت کا وجود خود قائم رکھ سکتی ہے لیکن ایک ایسی قوم میں جس میں وحدت عقائد نہ ہو اقلیت کو زیر تسلط رکھے۔ ہم یا تو خدا کے بندے بن سکتے ہیں یا انسان کے وہ ایک انسان ہو (ملوکیت یا ڈکٹیٹرشپ) یا ایک سے زیادہ (جمہوریت ) دونوں صورتوں میں بات ایک ہی ہے اگر انسانوں کے اوپر کوئی اقتدار اعلیٰ نہ ہو تو پھر کونسی ایسی چیز رہ جاتی ہے جو ہمیں طاقتورا فراد کے غلبہ وتسلط سے محفوظ رکھ سکے۔اگر ہمارے پاس کوئی ایسا مقدس اور ناقابل تغیر قانون نہ ہو جو انسانوں کا وضع کر دہ نہ ہو تو ہمارے پاس وہ کونسی میزان رہ جاتی ہے جس سے ہم یہ پرکھ سکیں کہ فلاں کام یا فیصلہ عدل پر مبنی ہے یا نہیں۔ خدا کے سوا جس طرح کی حکومت بھی قائم ہو اس میں نتائج کی حقیقت ایک ہی رہتی ہے خواہ اس کا نام’’ بوناپارٹ‘‘ رکھ لیں خواہ’’انقلاب‘‘۔اگر خدا کو درمیان سے ہٹا دیں تو ہر حکمران اپنے عہد سطوت میں جابرو مستبد بن جائیگا۔یادر کھئے جب حکومت خدا کی نگرانی کے بغیر چلائی جائے اور کاروبارِ حکمرانی چلانے میں خدا کے قانون سے صرف نظر کر لیا جائے تو کوئی حق مسلم نہیں ہوتا حکومت تو ہے ہی اسی لئے کہ منشائے خداوندی کی ترویج وتنقید کرے اگر وہ اپنے اس فریضہ کی سرانجام دہی میں قاصررہتی ہے تو تمہارا حق ہی نہیں فریضہ ہے کہ اسے بدل ڈالو ایسی حکومت کے بر سر اقتدار رہنے کا کوئی جواز نہیں۔
Qtd,by Griffith in Interpertters of Man p.46
یہ ہیں وہ نظریات جن کے باعث مازنی سے اقبال کو عقیدت تھی اور وہ مازنی کے وطن کے میدانوں کو ہرا رہنے کی دعائیں دیتے ہوئے انہیں سلام کر رہا تھا۔ (جاری ہے)۔