مسلمان اور جدید دنیا

سید نصیر شاہ

Abul-Ala-Maududi

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اگرچہ علامہ نیاز فتح پوری کی صحبت سے فیض یاب ہوچکے تھے لیکن ان سے روشن خیالی، مجتہدانہ بصیرت اور وسعت فکر ونظر نہیں سیکھ سکے تھے ان کی وسعت مطالعہ بھی عام مولویانہ کتابوں تک محدود رہی تھی اور اپنی الگ جماعت بنانے کے بعد تو ان کا مطالعہ محدود تر ہوگیا تھا۔ اب ان کی سوچ آزاد نہیں رہی تھی اب ان کا اولیں مقصد یہی تھا کہ کسی نہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے ساتھ ملالئے جائیں اور ایسا اُسی وقت ہوسکتا تھا جب وہ عوام کی بھیڑ میں شامل رہیں اور وہی باتیں کریں جو عام مولوی کرتے ہیں اور جنہیں سننے کے لوگ عادی ہیں ان کے پاس جان دار قلم تھا اور وہ تحریر وانشاء کے فن میں بڑی مہارت رکھتے تھے۔

عام علماء کے پاس یہ صلاحیت پوری طرح موجود نہیں تھی یہ لوگ تقریر میں سحرالبیانی تو رکھتے تھے مگر تحریر میں وہ کمال حاصل نہیں تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی تقریر کی طرح ان کی تحریر بھی جلال وجمال کا دل فریب مرقع ہوتی تھی لیکن وہ عربی اور فارسی کے پر شوکت الفاظ کا بکثرت استعمال کرتے اس لئے ان کی تحریر صاحب فضل وکمال علماء کو تو مسحور کرلیتی لیکن عوام الناس اُسے اچھی طرح نہیں سمجھ سکتے تھے پھر یہ کہ وہ اس میدان میں اپنے درخشاں نقوش پا چھوڑ کر اور طرف متوجہ ہوگئے تھے اب وہ مذہب کے مقابلہ میں سیاست میں زیادہ سرگرم تھے گویا مذہبی سیاست کاری کا میدان تحریر کے سلسلہ میں بالکل خالی تھا اور یہاں مولانا مودودی کھل کر اپنے جوہردکھا سکتے تھے اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ان کے دعویٰ کے مطابق مذہب ان کی سیاست کا امام تھا۔ اس طرح انہوں نے خود بھی قلابازیاں کھائیں اور مذہب کو بھی قلابازیاں دیتے رہے۔

ایک زمانہ میں جب انہوں نے اپنی سیاسی جماعت نہیں بنائی تھی ان کا اسلام یہ کہہ رہا تھا ’’یہ قوم تو پہلے ہی ایک جمعیت ہے اس جمعیت کے اندر کوئی الگ جمعیت الگ نام سے بنانا اور مسلمان اور مسلمان کے درمیان کسی وردی یا کسی ظاہری علامت یا کسی خاص نام یا کسی خاص مسلک سے فرق وامتیاز پیدا کرنا دراصل مسلمانوں کو مضبوط کرنا نہیں ہے بلکہ ان کو اور کمزور کرنا ہے یہ تنظیم نہیں تفرقہ پردازی اور گروہ بندی ہے لوگوں نے آنکھیں بند کر کے جمعیت سازی کے یہ طریقے اہل مغرب سے لے لئے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں کہ جو چیزیں دوسروں کے مزاج کو موافق آتی ہیں وہ اسلام کے مزاج کو موافق نہیں آتیں‘‘۔(1)۔

مگر یہ1938ء کا اسلام تھا اور مولانا مودودی کے تیروں کا ہدف’’جمعیت العلمائے ہند، مسلم لیگ،مجلس احرار اورجمعیت خاکسار‘‘ تھیں بعد میں مولانا نے خود اپنی الگ جماعت’’جماعت اسلامی‘‘ کے نام سے1941ء میں قائم کرلی۔1938 والا اسلام1941ء میں بدل گیا تھا۔ مسلم لیگ قیام پاکستان کیلئے کوشش کررہی تھی تو مولانا مودودی قیام پاکستان اور مسلم لیگ کے سخت مخالف تھے۔ اب پاکستان بن گیا تھا اور یہ ملک جمہوری جدوجہد اور انتخابات کے تحت وجود میں آیا تھا۔ مولانا مودودی نے دیکھا کہ ان کی اپنی مذہبی سیاسی پارٹی انتخابات میں حصہ لے کر کوئی سیٹ حاصل نہیں کرسکتی اگر وہ انتخابات میں حصہ لے گی تو اس کا بھرم کھل جائے گا۔ کاغذی طور پر اس نے اپنا جو دیوپیکروجود بنایا ہوا ہے ختم ہوجائے گا اور غبارہ ٹھس سے بے نشاں ہوجائے گا چنانچہ مودودی صاحب نے الیکشن کو ہدف تنقید بناتے ہوئے فرمایا۔

’’ہماری اجتماعی زندگی کو اور قومی سیاست کو جن چیزوں نے سب سے بڑھ کر گندا کیا ہے ان میں سے ایک امیدواری اور پارٹی ٹکٹ کا طریقہ ہے۔ اسی بناء پر جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اس ناپاک طریق انتخاب کی جڑکاٹ دی جائے جماعت اسلامی نہ اپنے پارٹی ٹکٹ پر امیدوار کھڑے کرے گی نہ اپنے ارکان کو آزاد امیدوار کی حیثیت سے کھڑا ہونے کی اجازت دے گی نہ کسی ایسے شخص کی تائید کرے گی جو خود امیدوار ہو اور اپنے لئے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے خواہ انفرادی طور پر یاکسی پارٹی کے ٹکٹ پر۔ یہی نہیں بلکہ جماعت اپنی انتخابی جدوجہد میں خاص طور پر یہ بات عوام کے ذہن نشین کرے گی کہ امیدوار بن کر اٹھنا اور اپنے حق میں ووٹ مانگنا آدمی کے غیر صالح اور نااہل ہونے کی پہلی اور کھلی علامت ہے ایسا آدمی جب کبھی اور جہاں کہیں سامنے آئے لوگوں کو فوراً سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ایک خطرناک شخص ہے اس کو ووٹ دینا اپنے حق میں کانٹے بونا ہے‘‘( 2)۔

مودودی صاحب نے اپنے اس فیصلہ کی بنیاد اُن احادیث پر رکھی تھی جن میں بتایا گیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو شخص خودہی کسی عہدہ کا طالب ہو وہ خیانت کارہوتا ہے‘‘ اور’’ہم کسی ایسے شخص کو عہد ہ نہیں دیتے جو خود اس عہد ہ کا طلب گارہو۔ مگر جیسا کہ ابھی آپ کو معلوم ہوگا یہ ان کی وقت کو جانچ کر فیصلہ کرنے والی پالیسی تھی اور اپنی سوچ پر اسلام کا ٹھپہ لگا دینا ان کا لوگوں پر اپنا دین داری کا دبدبہ قائم رکھنے کا طریق کار ہے۔ لیکن بہت جلد انہیں اپنے فیصلہ میں ترمیم کرنا پڑی ۔اب انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جماعت اسلامی اپنے امیدوار تو کھڑے نہیں کرے گی لیکن اگر نسبتاً’’صالح‘‘ اور’’اسلامی نظام‘‘ کے حامی’’امیدوار‘‘ اگر دوسری پارٹیوں میں نظر آئے تو انہیں ووٹ دئیے جائیں گے اور ان کی کامیابی کے لئے زور بھی لگایا جائے گا۔

چنانچہ مولانا نے فرمایا ’’جماعت اسلامی نے1950-51ء کے انتخابات کے موقع پر ایک پالیسی کا اعلان کیا تھا اور وہ تھی کہ امیدواری چونکہ اسلام میں ناجائز ہے اس لئے ہم نہ خود امیدوار بن کر کھڑے ہوں گے اور نہ کسی امیدوار کو وٹ دیں گے بعد میں تجربات سے ہم کو معلوم ہوا کہ ہم ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ ہر ضمنی اور عام انتخابات میں پورے ملک کی ہر نشست کیلئے اپنے معیار مطلوب کے مطابق موزوں امیدوار کھڑے کرسکیں اس بناء پر ہم نے سابقہ پالیسی میں یہ تغیر کرلیا کہ ہم خود تو امیدوار بن کر کھڑے ہونے سے بدستور مجتنب رہیں گے لیکن فاسد عناصر کو آگے بڑھانے کے لئے جن امیدواروں کی تائید ناگزیر محسوس ہوگی انہیں ووٹ دیں گے بھی اور دلوائیں گے بھی‘‘(3)۔

یہ فیصلہ پہلے فیصلہ کے بالکل برعکس تھا سیدھی بات تھی وقت نے انہیں سمجھادیا تھا کہ اب حالات کچھ موافق ہیں اس لئے الیکشن سے دورنہ رہو مگر مولانا سیاست کی ناک میں مذہب کی نکیل ڈالنا ضروری سمجھتے تھے اور جب مذہب کھلم کھلا ان سے متضاد فیصلہ دے رہا ہوتا تھا تو ان کی مجبوری تھی کہ جو پالیسی اختیار کریں اس پر کسی نہ کسی حیلہ سے اسلام کا ٹھپہ ماردیں اس لئے آپ نے فرمایا۔

’’ہر معقول آدمی بیک نظر محسوس کرلے گا کہ ہماری یہ نئی پالیسی ٹھیک ٹھیک دینی نظام کے مطابق ہے اور اس میں دراصل کوئی اصول شکنی نہیں کی گئی‘‘(4)۔

پھر جب دو چار سیٹوں پر اپنی کامیابی یقینی نظر آنے لگی تو جماعت دھڑلے سے اپنے امیدوار کھڑے کرنے لگی اسی پر جماعت کے چوٹی کے قائدین نے اختلاف کیا اور قیادت ثانیہ کے حامل مولانا امین احسن اصلاحی، مولانا عبدالغفار حسن، مولانا عبدالجبار غازی اور مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف جماعت اسلامی سے الگ ہوگئے اور مولانا امین احسن اصلاحی نے کہا۔
’’
میں نے ایک گم کردہ راہ قافلہ کا ساتھ چھوڑ دیا ہے اور اب صحراء میں ایک کیکر کے سہارے تنہاکھڑا ہوں‘‘

بہرحال پچھلا اسلام بالائے طاق رکھ دیا گیا اسلام کی بارگاہ سے نئے فیصلے حاصل کرلئے گئے اور اب امیدوار بن کر الیکشن لڑنا جائز ٹھہرگیا اور جماعت اسلامی خود امیدوار کھڑے کرنے پر اتر آئی سوال پیدا ہوا کہ جہاں جماعت کے اپنے امیدوارنہیں ہوں وہاں ان کے ووٹر کیا کریں جواب دیا گیا۔
’’
جس امیدوار کا چلن اور کردار ماضی میں بے داغ ہورہا ہو اور جو اسلامی نظام کے لئے کام بھی کرے اس کی حمایت کی جائے‘‘(5)،

یہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا دور تھا ہم’’یادیں یادگاریں‘‘ کی ایک قسط میں بتاچکے ہیں کہ ایوب خان کے مارشل لاء کے ابتدائی دور میں جماعت اسلامی جنرل صاحب کی حامی تھی بعد میں اس کے خلاف ہوگئی اسی مخالفت کے دور میں جنرل صاحب کی کنونشن لیگ وجود میں آئی تھی۔ اب مولانا سے سوال ہوا کہ اگر کنونشن لیگ کا کوئی امیدوار جماعت اسلامی کے معیار مطلوب پر پورا اترتا ہو تو کیا اس کی حمایت کی جائے گی؟ جواب دیا گیا ’’اگر کنونشن مسلم لیگ کسی فرشتے کو بھی امیدوار کھڑا کرے تو جماعت اس کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ ہمیں اس کے اصولوں سے اتفاق نہیں‘‘(6)۔

ساتھ ہی یہ فرمایا گیا۔
’’
اگر ایک ہندو جمہوری نظام کی حمایت کرتا ہے تو اسے میری تائید حاصل ہوگی اس لئے کہ اس نے یہ اصول تو تسلیم کرلیا ہے کہ ملک کا نظام اکثریت کے نظریہ کے مطابق ہونا چاہئے‘‘(7)۔

بڑی اچھی بات ہے اتنی’’جمہوریت پسندی‘‘ قابل تعریف ہے مگر جماعت اسلامی اپنے منشور میں تو یہ لکھ آئی تھی ’’جماعت اسلامی گمراہ اور آزمائے ہوئے غلط کار لوگوں کے مقابلہ میں ان لوگوں کو انتخاب کے لئے قوم کے سامنے لانا چاہتی ہے جو دین دار بھی ہوں اور دیانت دار بھی اور اس کے ساتھ ملک چلانے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں‘‘(8)۔

اصل میں دوسری’’مذہبی سیاسی‘‘ جماعتوں کی طرح جماعت اسلامی بھی ڈکٹیٹر شپ کی حامی ہے جمہوریت کو ہضم کرنا اس کے لئے مشکل ہے۔ اس لئے وہ مجلس شوریٰ یا اسمبلی کے ہوتے ہوئے بھی امیریا صدر کو ’’ویٹو‘‘ کا حق دیتی ہے اس کے نزدیک’’اسلام‘‘ کا تقاضا یہی ہے مولانا مودودی لکھتے ہیں۔’’جب امیر کو چن لیا جائے تو اس کو سیاہ وسفید کے اختیارات ہوں گے امیر کو مشورہ کے ساتھ کام کرنا ہوگا، عموماً مجلس کے فیصلے کثرت رائے سے ہوں گے مگر اسلام تعداد کی کثرت کو حق کا معیار تسلیم نہیں کرتا۔ اسلام کے نزدیک نا ممکن ہے کہ ایک اکیلے شخص کی رائے پوری مجلس کے مقابلے میں برحق ہواور اگر ایسا ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ حق کو اس لئے چھوڑ دیا جائے کہ اس کی تائید میں ایک جم غفیر نہیں ہے۔ لہٰذا امیر کو حق ہے کہ اکثریت کے ساتھ اتفاق کرے یا اقلیت کے ساتھ۔ اور امیر کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ پوری مجلس سے اختلاف کرکے اپنی رائے پر فیصلہ کرے‘‘(9)۔

اپنی اسی بات کو مختصراً یوں دہراتے ہیں
’’
امیر مملکت مجلس شوریٰ(پارلیمان) کی اکثریت کے مقابلہ میں ویٹو کا حق استعمال کرسکے گا‘‘(10)۔

جماعت اسلامی نے پاکستان کے آئین کے سلسلہ میں جو رہنما اصول بیان کئے تھے اس میں دفعہ26کے تحت لکھا گیا۔’’امیر کو مجلس شوریٰ کی اکثریت کے مقابلہ میں ویٹو کا حق حاصل ہوگا‘‘(11)۔

جدید دنیا کے سیاسی مسائل میں مولانا مودودی کی کچھ قلابازیوں کا یہ اجمالی ذکر ہے۔ رہی مولانا کی جمہوریت پسندی تو وہ صدارتی جمہوریت یاپارلیمانی جمہوریت کے مروجہ طریقوں کے مخالف تھے۔ انہوں نے اپنی ایک جمہوریت ایجاد کی تھی جسے وہ اپنی وضع کردہ اصطلاح کے مطابق’’الٰہی جمہوریت Theo- Democracyکہتے تھے‘‘(12)۔

اس میں علماء کی بالادستی ہے پارلیمنٹ کوئی قانون پاس کرے اور علماء کی کونسل کہہ دے کہ یہ خلاف مذہب ہے تو قانون رد ہوجائے گا۔ علماء چند ایک کے سوااگرچہ قیام پاکستان کے مخالف تھے لیکن پاکستان بن جانے کے بعد انہیں اپنا اقتدار مسلط کرنے کا یقین ہوگیا تھا۔ انہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان سے’’قرارد اد مقاصد‘‘ پاس کرائی اور پھر 1956ء ،1962ء اور1973ء میں جو دستور بنائے گئے ان پر’’قرارداد مقاصد‘‘ حاوی رہی اور ہر دستور میں لکھنا پڑا قانون سازی پارلیمنٹ کرے گی لیکن اسلام کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔ ظاہر ہے اسلام کی تعبیر وہی ہوگی جو علماء کے خیالات کے مطابق ہو دوسرے لوگ کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔

’’یہودی بزرگوں کے پروٹو کولز‘‘ کی بازگشت آپ نے سنی ہوگی یورپ میں ان کا خاصا چرچا رہا ان کی حقیقت کیا ہے؟ اس وقت ان پر بحث مقصود نہیں(13)۔

ان پروٹوکولز میں سے ایک پروٹو کول میں کہا گیا ہے’’ہندوؤں کے وشنودیوتا کی طرح ہماری تنظیم کے ہزاروں چہرے ہوں گے۔ ہر چہرہ کی زبان کا موضوع الگ ہوگا۔ ہمہر شعبہ علم میں کتابوں کے ڈھیر لگادیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ مولانا مودودی نے بڑی ہوش مندی سے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا میں اپنے آدمی گھسیٹرے، کوئی میدان خالی نہ چھوڑا۔ اس طرح ان کی فوج وجود میں آگئی اور پروپیگنڈے کے زور سے منوایا گیا کہ مولانا بہت بڑے مفکر اسلام ہیں۔ ان جیسا آدمی صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔ مولانا نے بڑی محنت سے لٹریچر تیار کیا اور کتابوں کے ڈھیر لگاتے گئے۔ یہ عام مولویوں کے خیالات کی ترجمان کتابیں ہیں ۔ان میں فکر کی کوئی روشنی نہیں صرف اندازِ نگارش اور اسلوب تحریر کی ندرت ہے جو انگریزی خوان نوجوانوں کو خصوصاً ان کی طرف متوجہ کرلیتی ہے۔ یہاں ہم اس مفکر اسلام کی سوچ کے ایک دو نمونے زیر بحث لاتے ہیں ان ہی سے مولانا کی عصری بصیرت کا پتہ چل جائے گا۔

انسان کا احترام جدید دنیا کا بہت بڑا موضوع ہے۔ تاریخ کے اندھے اور اندھیرے ادوارمیں ایک پورا دور’’غلام داری‘‘ کا گزرا ہے۔ جنگیں ہوتیں مغلوب اور شکست خوردہ قوم کے افراد پکڑلیے جاتے، مردوں کو غلام بنالیا جاتا اور عورتیں لونڈیاں بنالی جاتیں۔ ان انسانوں کی بھیڑبکری کی طرح باقاعدہ منڈیاں لگتیں اور ان کی خرید وفروخت ہوتی لونڈیوں کو آقا شہوت رانی کے لئے استعمال کرسکتے، نکاح وغیرہ کی ضرورت نہ ہوتی ،معاشرہ میںیہ رواج عام تھا انسان کی اس سے بڑی تذلیل اور کیا ہوسکتی تھی۔

اسلام کی تعلیمات منظر عام پر آئیں تو عرب معاشرہ بھی غلاموں سے پٹاپڑاتھا قرآن میں غلام اور لونڈیوں کا ذکر فعل ماضی میں ہوا ہے یہ نہیں کہ مستقبل میں تم غلام کس طرح بناؤ گے۔ قرآن نے اپنے جو قوانین جنگ بیان کیے ہیں ان میں یہ ہے کہ’’جب تم جنگ میں غالب آجاؤ تو مغلوب فوج کے افراد کو قید کرلو پھر انہوں احسان دھرکر یا فدیہ لے کر رہا کر دو یہ کہیں نہیں آیا کہ انہیں غلام بنالو ۔معاشرہ میں پہلے سے جو غلام چلے آتے تھے ان کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایات کی گئیں اور کئی باتوں میں غلاموں کو آزاد کرنے کا حکم دیا گیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جنگیں ہوئیں ان میں کہیں جنگی قیدیوں کو غلام بنالئے جانے کا ذکر نہیں۔ آپؐ کے بعد پھر یہ رواج چل پڑا۔ اسی طرح غلام بنائے جانے لگے اور انکی منڈیاں سجنے لگیں۔یہ رواج ساری دنیا میں تھا۔ امریکہ میں غلام پکڑلانا اور انہیں فروخت کر دینا عام کاروبار تھا۔ بات صرف جنگی قیدیوں تک محدود نہیں تھی۔ یوں بھی لوگ پکڑلیے جاتے اور انہیں غلام کے طور پر بیچ دیا جاتا۔ پھر ابراہام لنکن بطور صدرامریکہ انسان کی اس تذلیل پر چیخ اٹھا اس نے کہا
“As I dont want to be a slave, i dont to be a master.
بعد میں یواین او کے چارٹر میں غلامی پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا۔ رفتہ رفتہ تمام آزاد ممالک کے دستور میں انسانی حقوق کے سلسلہ میں وضاحت کی گئی کہ کوئی انسان غلام نہیں بنایا جائے۔ پاکستان کے دستور کی دفعہ نمبر11میں بھی یہ صراحت کی گئی ہے۔

غلامی اپنی اصل شکل میں اب ساری دنیا سے ناپید ہوچکی ہے لیکن مسلمان علماء اب بھی اسے نہ صرف جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کی ممانعت کو خلاف اسلام قرار دیتے ہیں کیونکہ جو’’اسلامی فقہ‘‘ ان کے نصاب میں شامل ہے اور جسے پڑھ کر یہ علماء کہلاتے ہیں اس کا ایک بڑا حصہ غلاموں اور لونڈیوں کے مسائل پر مشتمل ہے۔ مولانا مودودی اس معاملہ میں بھی عام مولویوں کے ہم نوارہے ہیں۔ وہ غلامی کے جواز پر باقاعدہ قرآن وحدیث سے دلائل فراہم کرتے ہیں۔ جن چند لوگوں نے غلامی کو اسلام میں ناجائز قرار دیا ہے ان کے دلائل وہی ہیں جو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ان لوگوں میں سرفہرست سرسید احمد خان، اسلم جیرا جپوری اور غلام احمد پرویز ہیں۔ مولانا مودودی انہیں ’’تجدد پسند،دین میں تحریف کرنے والے اورمغرب سے مرعوب ذہنیت رکھنے والے‘‘ قرار دیتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے غلامی کے جواز پر جو پہلا مضمون اپنے ماہنامہ’’ترجمان القران‘‘ میں لکھا تھا وہ ان کی کتاب ’’تفہیمات‘‘ حصہ دوم میں شامل ہے یہ تو ایک مضمون تھا کہا جاسکتا ہے وہ ان کی ابتدائی تحریر تھا لیکن انہوں نے اپنی عمر کے پختہ حصہ میں لکھی جانے والی اپنی تفسیر تفہیم القرآن میں بھی جابجا اپنا وہی موقف دہرایا ہے۔ چند اقتباسات دیکھئے مولانا مودودی لکھتے ہیں

’’جو عورتیں جنگ میں گرفتار ہوں حکومت کو اختیار ہے چاہے ان کو رہا کردے چاہے ان سے فدیہ لے چاہے ان کا تبادلہ مسلمان قیدیوں سے کرے جو دشمن کے ہاتھ میں ہوں اور چاہے انہیں سپاہیوں میں تقسیم کردے‘‘(14)۔

مولانا ان عورتوں کو اس طرح لونڈیاں بنادینے کو اس مسئلہ کا بہترین حل سمجھتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اگر دوسری قومیں بھی اس طرح قید ہونے والی مسلمان عورتوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کریں تو مسلمانوں پر کیا گزرے گی مولانا فرماتے ہیں۔’’جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے لئے(جب کہ ان کا بتادلہ ہونہ فدیہ وصول کیا جاسکے)اس سے بہتر حل اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو عورت حکومت کی طرف سے جس شخص کی ملکیت میں دے دی جائے اس شخص کو اس کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے کا قانونی حق دے دیا جائے‘‘ (15)۔

ان غلاموں اور لونڈیوں کی منڈیاں بھی لگیں گی’’اسلام‘‘ نے اس انسانی خرید وفروخت کی اجازت بھی دی ہے مولانا لکھتے ہیں۔
’’
اس قسم کے لونڈی اور غلاموں کو بیچنے کی اجازت دراصل اس معنی میں ہے کہ ایک شخص کوان سے فدیہ وصول نہ ہونے تک ان سے خدمت لینے کا جو حق حاصل ہے اس کو معاوضہ لے کر دوسرے شخص کی طرف منتقل کردیتا ہے اگر کسی شخص کیلئے یہ گنجائش نہ چھوڑی جاتی کہ جس قیدی مردیا عورت سے وہ عہدہ برآنہ ہوسکے اس کے حقوق ملکیت کسی دوسرے کی طرف منتقل کردے تو یہ لوگ جس کے بھی حوالے کئے جاتے اس کے حق میں بلائے جان بن جاتے‘‘(16)۔

خرید وفروخت کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ یہ فدیہ ادا نہ کرنے کے عوض خدمت لینے کا حق ہے جو بیچا جاتا ہے اور یہ بھی کہ اگر بیچنے کا حق نہ ہوتا تو یہ لوگ وبال جان بن جاتے۔ عجیب منطق ہے فدیہ تو ایک متعین رقم ہوتی اگر یہ ادا نہ کرنے کے بدلے خدمت لینے(اور اس خدمت میں عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق بھی شامل ہے) کا حق فروخت ہورہا ہے تو ایسا کیوں نہ کیاگیا کہ ان غلاموں لونڈیوں کی اجرت مقرر کی جاتی اور جب فدیہ کی متعین رقم پوری ہوجاتی تو یہ غریب آزاد ہوجاتے مگر یہ تو عمر بھر خدمت کرتے اور بکتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے مفکر اسلام کو ان باتوں کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ اپنی سوچ عام کرتے چلے جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ لونڈیوں کی تعداد کی کوئی قید نہیں جتنی عورتوں سے چاہو اپنی ہوس کاری کا شکار بناتے چلے جاؤ فرماتے ہیں۔

’’لونڈیوں سے تمتع کیلئے تعداد کی قید اس لئے نہیں لگائی گئی کہ ان عورتوں کا کوئی تعین ممکن نہیں ہے جو کسی جنگ میں گرفتار ہوکر آسکتی ہیں۔ بالفرض اگر ایسی عورتوں کی بڑی تعداد جمع ہوجائے تو معاشرہ میں انہیں کھپانے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے جب کہ لونڈیوں سے تمتع کا تعین پہلے سے کردیا گیا ہو‘‘(17)۔

مولانا غیر مسلموں کی بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے اور موت کے بعد بھی ان سے خدمت لیتے ہیں۔ مولانا مرحوم اپنے درس قرآن وحدیث کے بعد لوگوں کے سوالات کا جواب دیا کرتے تھے ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کفار کی بچیاں جو کم سنی میں مرجاتی ہیں دوزخ میں جائیں گی یا جنت میں ؟ جواب میں آپ نے فرمایا’’میں یقین کے ساتھ نہیں کہ سکتا البتہ میرا خیال ہے کہ جنت میں جو حوریں ہوں گی وہ یہی کفار کی لڑکیاں ہوں گی‘‘(18)۔

یہ حوریں ہوں گی تو بیویاں کدھرجائیں گی اس کا جواب بھی جماعت اسلامی کے ڈھالے ہوئے مفکر اسلام نے دے رکھا ہے فرماتے ہیں۔’’یہ حوریں بیویوں کے علاوہ ہوں گی بیویاں مردوں کے ساتھ محلات میں رہیں گی لیکن جب وہ پکنک منانے کے لئے باہر جائیں گے تو ان کی سیرگاہوں میں جگہ جگہ خیمے لگے ہوں گے جن میں حوریں لطف ولذت کا سامان فراہم کریں گی‘(19)۔

جماعت اسلامی کے پروردہ اور مولانامودودی کے تربیت یافتہ اور ایک نئی اسلامی جماعت کے امیر ڈاکٹر اسرار احمد صاحب سے جب غلامی کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا’’قرآن میں اس کے خاتمہ کی کوئی آیت نہیں لیکن اسلام کے نزدیک غلام بناناشرک ہے لیکن لونڈیوں کے معاملہ میں تمتع کی اجازت ہے۔ نکاح ضروری نہیں بلکہ اگر آزاد کرکے نکاح کریں تو زیادہ بہتر ہوگا‘‘(20)۔

یہ عبارت دوبارہ پڑھئے اور خودسوچتے رہئے کہ ڈاکٹر صاحب کیا کہہ رہے ہیں ہمیں کچھ سمجھ نہیں آیا۔
بہرحال آپ نے مولانا مودودی کے افکار ملاحظہ فرمائے ۔ یہ وہی باتیں ہیں جو آج بھی عام مولوی ہر ملک میں کہہ رہے ہیں۔ البتہ انداز بیان جدید ہے۔ اس مسئلہ میں عام علماء کے خیالات بیاں کرنے میں ہم اپنا اور آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ البتہ قاہرہ کی مشہور یونیورسٹی ’’جامعہ ازہر‘‘ میں’’علمائے اسلام‘‘ کی کانفرنس کی مختصر روئداد بتانا چاہتے ہیں۔ یہ کانفرنس مارچ1964میں منعقد ہوئی تھی اس میں انتالیس اسلامی ممالک کے نامور علماء شریک ہوئے تھے۔ اس کا ایجنڈا یہ تھا کہ اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کے متعلق غوروفکر کیا جائے۔ یہ مختصر روئداد’’ترجمان اسلام‘‘ لاہور میں شائع ہوئی تھی اس کانفرنس میں جو مسائل زیر بحث آئے ان میں سے ایک مسئلہ ’’غلامی‘‘ بھی تھا اس کانفرنس میں پاکستان سے مولانا مفتی محمود ممبرقومی اسمبلی، مولانا غلام غوث ہزاروی، ممبر صوبائی اسمبلی اور مولانا محمد یوسف بنوری امیر جمعیتہ العلمائے اسلام شریک ہوئے تھے’’مسئلہ غلامی‘‘ کے سلسلہ میں’’ترجمان اسلام‘‘ میں لکھا گیا۔

’’شیخ ابوزہرہ نے استرقاق(غلام بنانا) کی مخالفت کی چنانچہ سوڈان کے’’شیخ اسلام‘‘ نے اس پر ان کا مواخذہ کیا۔ شیخ ابوزہرہ جیسے ماہر کا اس مسئلہ میں یہ کہنا کہ’’قرآن میں غلام اور باندیوں کا ذکر ہے لیکن انہیں غلام بنانے کا حکم کہیں نہیں‘‘ ضرورباعث حیرت ہے۔ شیخ ابوزہرہ جوکہ اسلامی تاریخ کے زبردست ماہر اور ائمہ اربعہ پر پوری دسترس رکھنے والے تسلیم کئے جاتے ہیں کاش وہ ان غزوات اور جنگوں پر پھر ایک بار نگاہ ڈال لیتے جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد صحابہ کے زمانہ میں غیر مسلم قیدیوں کو غلام بنایا گیا اور انہیں موجودہ اقوام کی طرح قتل نہیں کیا گیا۔ مسئلہ غلامی میں مغرب کے مستشر قین نے انتہائی وغبارآمیزرویہ اختیار کیا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ بعض مشرقی علماء بھی ان عیسائی اور یہودی مستشرقین کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اسلام کے مسئلہ غلامی کو شرم کا مسئلہ سمجھنے لگے ہیں‘‘(21)۔

گویا ہمارے علمائے اسلام کے نزدیک انسانوں کو غلام بنانا ان کی خریدوفروخت کرنا اور لونڈیوں کو بغیر نکاح جنسی تسکین کے لئے استعمال کرتے رہنا شرم کا نہیں فخرکامقام ہے اور آج جو تمام ممالک کے دساتیرمیں غلامی کی ممانعت کی بات لکھی ہوئی ہے وہ خلاف اسلام ہے’’نیازمانہ‘‘ کے مضمون نگار عابد محمود نے کیا پتے کی بات کہی ہے۔

’’دستور پاکستان کا آرٹیکل227 ملکی قانون کی یہ بنیادفراہم کرتا ہے کہ کوئی قانون بھی تعلیمات اسلام کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ جب کہ آرٹیکل 11غلامی کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا غلامی سے متعلقہ شق پہلی شق کا ابطال نہیں کرتی اور کیا اس سے قرآن حدیث اور فقہ کا غلاموں اور لونڈیوں سے متعلقہ حصہ غیر متعلقہ نہیں ہوجاتا‘‘(22)۔

یادرہے کہ1973ء کے اس آئین پر مولانا مفتی محمود اور مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کے اراکین پارلیمنٹ نے دستخط کئے تھے۔ حالانکہ مفتی محمود صاحب’’جمعیتہ العلمائے اسلام‘‘ کے صدرتھے اور ان ہی کی جمعیتہ العلمائے اسلام کے رکن اسمبلی نے مولانا نعمت اللہ نے مجلس دستور ساز سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔

’’غلامی کو منسوخ کرنا خلاف اسلام ہے جو شخص ایک سے زیادہ بیویوں کی استطاعت نہیں رکھتا تو ایسا انتظام کیا جائے کہ کم ازکم ایک لونڈی رکھ سکے‘‘(23)۔
**
کتابیات۔۔۔۔۔۔۔
۔1۔(پیغام حق فروری1938ء ص83)۔
۔2۔بحوالہ’’جماعت اسلامی کی انتخابی جدوجہد‘‘ المنبر‘‘ فیصل آباد(لائل پور) 7ستمبر1963ء
۔3۔’’ترجمان القران‘‘ بابت مئی1958ء ص123
۔4۔ایضاً
۔5۔روزنامہ’’امروز‘‘ لاہور20اگست1964ء
۔6اور 7۔ایضاً
۔8۔’’منشور جماعت اسلامی‘‘ ص13
۔9۔’’اسلام کا نظریہ سیاسی‘‘ص45-46
۔10۔ماہنامہ’’ترجمان القران‘‘ جون1948ص23
۔11۔’’دودستوری خاکے‘‘ ص28
۔12۔’اسلامی ریاست‘‘ از مولانا مودودی
۔13۔ان پروٹوکولز حقیقت پر بحث میں نے اپنے ایک مضمون’’مطالعہ میں احتیاط‘‘ میں کی ہے۔
۔14۔’’تفہیم القران‘‘ جلد2مطبوعہ1957ء ص340
۔15 ، 16 اور 17 ۔ایضاً ص323،ایضاً ص323،ایضاً ص324
۔18۔ ہفت روزہ’’ایشیاء‘‘ لاہور14جون1969ء نیز’’تفہیم القران‘‘ ج4ص287
۔19۔’’تفہیم القران‘‘ لاہور12فروری1983ء
۔20۔روزنامہ’’جنگ‘‘ لاہور12فروری1983ء
۔21 ۔’’ ہفت روزہ ترجمان اسلام‘‘ لاہور یکم مئی1964
۔22۔ماہنامہ’’نیازمانہ‘‘ لاہور جنوری2011ء ص28
۔23۔روزنامہ’’پاکستان ٹائمز‘‘ یکم مارچ1973ء

4 Comments