ریاض۔12 ستمبر: سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ حکومت سعودی عرب کی جانب سے ملک شام میں مصیبت زدگان کی خاموش خدمات انجام دی جارہی ہے ۔ حکومت ایسی امدادی مساعی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹا کرتی ۔
عہدیدار نے بتایا کہ یہ الزام بے بنیاد ہے کہ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کوپناہ نہیں دے رہا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شام میں خانہ جنگی کے بعد سے اب تک 25 لاکھ شامی شہریوں کو سعودی عرب میں پناہ دی گئی ہے۔’العربیہ ‘ کے مطابق سعودی عرب کی وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شام سے آنے والے بے سہارا شہریوں کے ساتھ دینی اور انسانی بنیادوں پر برابری کا سلوک کیا جاتا ہے۔
سعودی حکومت نے شامی شہریوں کیلئے پناہ گزین یا مہاجرین کی اصطلاح استعمال کی ہے اور نہ انھیں پناہ گزینوں کے طور پر نمٹاجاتا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں سعودی عرب پر شامی پناہ گزینوں کیلئے اپنے دروازے بند کرنے کے باربار الزامات کے پس منظر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سعودی عرب پچھلے چار سال کے دوران 25لاکھ شامی شہریوں کا استقبال کرچکا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شام میں جاری بغاوت اور خانہ جنگی کے بعد پہلے مرحلے میں شہریوں نے سعودی عرب کی طرف نقل مکانی شروع کی تھی۔ غیر علانیہ طورپر سعودی عرب میں اب تک پچیس لاکھ کے قریب شامی شہری پہنچ چکے ہیں۔ سعودی حکومت نے انہیں فوج کی نگرانی میں قائم کیمپوں یا پناہ گزینوں کے مراکز میں نہیں رکھا بلکہ انہیں ہر قسم کی آزادی فراہم کی گئی ہے۔
۔ 2012ء کے بعد سعودی عرب میں شام سے آنے والے طلبہ وطالبات کو اپنی جامعات میں تعلیم کے حصول کا بھی مفت حق دیاگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف تین سال کے عرصے میں ایک لاکھ شامی طلبہ سعودی عرب کی جامعات میں زیرتعلیم ہیں۔ ان طلبہ کو سعودی عرب کے مقامی شہریوں کی طرح صحت، تعلیم اور دیگر سماجی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔
سعودی عرب میں آنے والی شامی پناہ گزینوں کی آباد کاری کیساتھ ساتھ حکومت سعودی عرب نے شام کے اندر پھنسے شہریوںلبنان اور اردن سمیت یورپی ملکوں کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کو بھی ہر ممکن مدد فراہم کی ہے۔ سعودی عرب شامی پناہ گزینوں کی بہبود کیلئے خلیجی ممالک میں سب سے زیادہ نقد امداد فراہم کرتا ہے۔
سرکاری عہدیدار نے ذرائع ابلاغ کے گمراہ کن پروپیگنڈے کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ جتنی مدد سعودی عرب کی جانب سے شامی شہریوں کے لیے کی گئی ہے، کسی دوسرے ملک نے نہیں کی۔
بشکریہ: روزنامہ سیاست حیدرآباد انڈیا
One Comment