برطانوی اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق نوجوان شامی لڑکیاں جو شام کی تین سالہ خانہ جنگی کی بدولت ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہی، امیر سعودی ان کا
جنسی استحصال کررہے ہیں۔
برطانوی اخبار انڈی پینڈنٹ کے اپنی اتوار کی اشاعت میں لکھا ہے شام میں کئی سال سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہونے والی کم عمر اور نوجوان لڑکیاں امیر عرب شہریوں کے جنسی استحصال کا نشانہ بن رہی ہیں۔
اخبار کے مطابق اردن میں بھی پناہ لینی والی لڑکیوں کا بھی جنسی استحصال کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بے گھر ہونے والے شامی خاندانوں کی نوجوان لڑکیوں کو چند ہزار ڈالر کے عوض شادی کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق زبردستی کی شادیوں کی ایک وجہ مالی حالات کی خرابی ہے اور امیر سعودی ان سے شادی کر رہے ہیں مگر ان شادیوں کا دورانیہ چند دن تک ہی ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سترہ سالہ ناوراور اس کی سولہ سالہ بہن سوزا کی شادی ایک عمر رسیدہ سعودی سے ہوئی لیکن بیس دن بعد وہ شخص غائب ہو گیا۔
ہم نے کئی ایسے دلالوں کے بارے میں سنا ہے جو شامی لڑکیوں کا امیرافراد مقامی و غیر مقامی سے رشتے کراتے ہیں اور یہ شادیاں انتہائی کم مدت کے لیے ہوتی ہیں۔ کچھ شادیاں تو صرف 24گھنٹوں کے لیے ہوتی ہیں ۔
اردن کے درالحکومت عمان میں کام کرنے والی تنظیم انٹر نیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کی ترجمان امیرا محمد کے مطابق ’’دراصل یہ شادیاں جنسی استحصال کو قانونی بنانے کے لیے کی جاتی ہیں‘‘ ۔
امیرا محمد کے مطابق پناہ گزین لڑکیوں کے سااتھ اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
پناہ گزین اس طرح کی صورتحال میں گھر چکے ہیں انہیں رقم کے عوض کچھ بھی کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے ۔ عرب سوسائٹی میں یا تو عور ت گھر پر رہے اور” اگر وہ گھر سے باہر نکلے تو اسے اپنے عزت لٹانی پڑتی ہے ‘‘ امیرا محمد نے کہا۔
شام میں پچھلے تین سال سے خانہ جنگی جاری ہے جس میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور کئی ملین بے گھر ہو چکے ہیں۔حال ہی میں پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد یورپ خاص کر جرمنی میں پناہ لے رہی ہے ۔ مگر اسے المیہ ہی کہا جا سکتا ہے، آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی مسلمان ممالک میں لڑکیوں کا جنسی استحصال ہو رہا ہے مگر ان پناہ گزین لڑکیوں کو یورپ جسے مسلم امہ ہر وقت برائیوں کا ذمہ دار قرار دیتی ہے، میں تحفظ حاصل ہے۔
http://en.alalam.ir/news/1573808 بشکریہ:
One Comment