لیاقت علی ایڈووکیٹ
’ہم بھی وہاں موجود تھے‘ لیفٹیننٹ جنرل عبدالمجید ملک کی داستان حیات ہے ۔کتاب کے آغاز ہی میں جنرل صاحب نے اعتراف کیا ہے کہ ’ تصنیف و تالیف میراشعبہ نہیں ہے اور نہ ہی میں اپنی کسی تحریر کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ اس کو محض اپنے معیار کے بل بوتے پر کوئی ادبی یا تاریخی مقام حاصل ہو سکے ‘ لیکن اس کے باوجود ’ کوشش کی ہے کہ سادگی اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس کتاب کو پاکستان کی تاریخ کی ایک دستاویز کے طور پر محفوظ کروں تاکہ عوام اُن اہم حالات اور واقعات کی حقیقت سے روشناس ہو سکیں جو میری آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوئے ‘۔
تقریبا ایک صدی ( جنرل اس وقت 96سال کے ہیں)پر محیط ان کی زندگی میں بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے جن میں دونوں عا لمی جنگیں،ہندوستان کی برطانیہ سے آزادی ،قیام پاکستان ،1948 میں کشمیر کی جنگ ، 1958کا مارشل لاء اور ایوبی دور حکومت ، معاہدہ شملہ ،1965اور1971 کی پاک بھارت جنگیں، بنگلہ دیش کا قیام ،جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لاء ،بھٹو کی پھانسی ، جمہوری حکومتوں کی پے درپے بر طر فی اور اس کے علاوہ بے شمار واقعات جنرل مجید ملک کی یاد داشت کا حصہ ہیں ۔
ان واقعات میں ’کہیں وہ مبصر رہے اور کہیں وہ ان واقعات میں سے چند ایک کے کر دار تھے اور کچھ واقعات میں ان کی حیثیت ایک گواہ کی تھی‘ ۔ جنرل مجید ملک کا دعویٰ ہے کہ’ ماسوائے ان کے پاکستان کی تاریخ میں فو ج کا کوئی ایسا ریٹائرڈ جرنیل نہیں ہے جس کا اپنا ایک مخصوص حلقہ انتخاب ہو اور جس نے پاک آرمی سے سبک دوشی کے بعد مسلسل پانچ انتخابات میں رکن قومی اسمبلی کے طور پر کامیابی حاصل کی ہو‘ ۔
جنرل مجید ملک چکوال جو ان دنوں ضلع جہلم کی ایک تحصیل تھی کے ایک دورافتادہ گاؤں ’جند ساو‘ کے ایک کسان گھرانے میں 1919میں پیدا ہوئے ۔ان کے والد برٹش انڈین آرمی میں حوالدار میجر تھے جو اس وقت کے مطابق کسی مقامی فوجی کے لئے ایک‘ اعلیٰ‘ رینک خیال کیا جاتا تھا ۔ان دنوں غیر مسلم خاندانوں کے ساتھ مسلمانوں کے سماجی تعلقات نہایت خوشگوار ہوتے تھے ۔ کسی قسم کا تعصب یا تنگ نظری ان تعلقات میں حائل نہیں ہو سکتی تھی ۔
باہمی محبت اور دوستی کے رشتے کس قدر گہرے تھے جنرل مجید ملک اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے گاؤں کے ہندو دوکاندار دمودر داس کے بیٹے بلرام نے بھی تقسیم کے بعد بھارت کی فو ج میں کمیشن حاصل کیا اور جنرل کے عہدے تک پہنچا ۔اُس نے کشمیر ریڈیو پر اپنے ایک انٹرویو میں بڑے فخر سے کہا کہ ’ پاکستان آرمی میں میرے ایک انکل بھی جنرل کے عہدے پر فائز ہیں جن کا نام جنرل عبد المجید ہے۔‘ جنر ل عبدا لمجید ملک کہتے ہیں کہ ہندو، سکھ اور مسلمان ان تینوں کے مابین جو افہام و تفہیم تھی اس کی صورت حال موجودہ ان احوال سے بہتر تھی جو اب مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس زمانے میں نہ اتنے عالم تھے اور نہ ہی اتنی کتابیں۔
سنہ 1939 میں میٹرک کا امتحان دینے کے بعد وہ فو ج میں سپاہی ( کلرک) بھرتی ہوگئے۔ لاہور میں چھ ماہ کی ٹریننگ مکمل کرنے بعد انھیں پنجاب رجمنٹ میں انہیں بنوں سے آگے رزمک بھیج دیا گیا ۔ پنجاب رجمنٹ میں تعیناتی کے دوران ا ن کی گہری دوستی ریکروٹ کلر ک راجہ لہراسپ سے بنی جو گوجر خان کے رہنے والے تھے اور سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے والد تھے ۔ آیندہ چار سال سپاہی کی حیثیت سے جنرل عبد المجید ہندوستان اور ہندوستان سے باہر مختلف ممالک میں فو جی خدمات انجام دیتے رہے ۔جولائی 1939میں انھیں انڈین آرمی سلیکشن بورڈ نے فو ج میں کمیشن دینے کے لئے منتخب کر لیا اور یوں وہ سپاہی سے کمیشنڈ آفیسر بن گئے ۔ برما کے محاذ پر ان کی ملاقات کیپٹن جیلانی سے ہوئی جو بعد میں جنرل اور گورنر پنجاب بنے اور مختلف اوقات میں جنرل عبدالمجید کے کام آتے رہے۔
جب پاکستان بنا تو جنرل مجید ملک فوج میں بطور میجر خدمات انجام دے رہے تھے ۔ان دنوں لاہور گیر یژن کے کمانڈر جنرل نذیر احمد جن کا تعلق احمدی فرقے سے تھا ،کو ایسے ذمہ دار اور دیانت دار فوجی آفیسر کی ضرورت تھی جو قادیان سے ( احمدیوں کا ) سامان پاکستان منتقل کرے ۔چنانچہ یہ ڈیوٹی میجر ملک کو سونپی گئی ۔ وہ کہتے ہیں کہ جب میں قادیان پہنچا تو دیکھا کہ وہ لوگ( احمدی ) بہت متحد اور منظم ہیں ۔ ہم نے بیس پچیس گاڑیوں میں وہاں سے سامان اور افراد کو لاہور منتقل کیا ۔ مرزا ناصر اس وقت میری عمر کا تھا اور قادیان ہی میں مقیم تھا جو بعد میں اس فرقے کا پیشوا بنا ‘۔
قیام پاکستان کے بعد ایبٹ آباد کی کاکول اکیڈیمی کے قیام میں جنرل عبدالمجید ملک نے اہم رول ادا کیا ۔’ ان دنوں وہاں کوئی قابل ذکر عمارت موجود نہیں تھی ۔کسی بھی تعلیمی اور تربیتی ادارے کے لئے ضروری سامان مفقود تھا ۔ایک دن ہمیں راولپنڈی میں موجود ہندووں کی ممتاز درسگاہ ڈی اے وی کالج کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہاں کافی تعلیمی اور تدریسی سامان موجود ہے۔میں دیگر دو افسران کے ہمراہ ایک گاڑی میں راولپنڈی پہنچا اور ہم نے ڈی اے وی کالج سے وہ’ مال غنیمت ‘ حاصل کیا ‘۔
1952میں جنرل عبد المجید ملک پنجا ب رجمنٹ کی ایک یونٹ کے ہمراہ مشرقی پاکستان چلے گئے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ’ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں مغربی پاکستان کے لوگوں کا کافی قصور رہا ۔مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے عوام کے رہن سہن ، خوراک ، لباس اور زبان میں کافی فرق تھا۔آج اس دور کا تجزیہ کرکے میں بر ملا یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت بھی مشرقی اور مغربی پاکستان میں کوئی بھی ہم آہنگی نہیں تھی ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ مقامی لوگ ہمیں ایک طرح کی قابض فوج خیال کرتے تھے اور دوسری بات یہ کہ ہمارے ذہن کے کسی گوشے میں بھی بہر حال ایک طرح کا احساس برتری موجود تھا ۔
مارچ 1971میں فوج نے بنگالیوں کے خلاف جو ملٹر ی آپریشن کیا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’جس رات مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن شروع ہوا میں ڈائرکٹر ملٹری آپریشن کی حیثیت سے ڈھاکہ کا دورہ کر رہا تھا ۔پاک فوج کی طرف سے بنگالیوں کے خلاف روا کھے گئے جن حالات اور مظالم کا کتابوں میں تذکرہ ملتا ہے ان میں کچھ سچائی ضرور ہے ۔میں نے چند مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ۔میں نے ہیلی کاپٹر سے دیکھا کہ کئی بستیاں جل رہی ہیں اور فوجی دستے آگے بڑھ رہے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھا کہ جب شام کو فو جی افسران مل کر بیٹھتے تو اپنے ان اقدامات پر کس طرح فخر کرتے ‘۔بنگلہ دیش فتح کرنے والے جنرل جگجیت سنگھ اورڑہ پنجاب رجمنٹ میں ان کے سنیئر تھے۔ ’کالا گجراں ضلع جہلم سے تعلق رکھنے کے باعث ہم دونوں میں گہرا رابط تھا ‘۔
جنرل عبد المجید ملک کہتے ہیں کہ 1958کے مارشل لا کا نفاذ کوئی وقتی اور جذبا تی فیصلہ نہیں تھا ۔جولائی 1958 میں ان کی جی ایچ کیو میں پوسٹنگ در اصل اس مارشل لا کے نفاذ کی منصوبہ بندی کا حصہ تھی ۔ انھیں بریگیڈیئر عتیق الرحمان جو ان دنوں چیف آف جنرل سٹاف تھے اور بر یگیڈیر سید محی الدین نے مارشل لا ء کے نفاذ کی اس پلاننگ میں شامل کئے جانے کے بارے میں بتایا ۔ستمبر 1958میں مارشل لا ء کے نفاذ کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا تھا ۔یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لا ء تھا اس لئے اس کی ٹھوس پلاننگ کی بہت ضرورت تھی جس کے لئے سب سے موزوں مقام جی ایچ کیو ہی تھا ۔جہاں پلاننگ کے سارے لوازمات موجود تھے ۔ اس سلسلے میں جی ایچ کیو میں مجھے اس پلاننگ کے سٹاف آفیسر کی حیثیت سے مامور کیا گیا تھا ۔
جنرل ملک کے نزدیک ایوب خان کھلے دل کا ایک وجیہہ شخص تھا جس میں بظاہر منافقت بالکل موجود نہیں تھی ۔ اس کے دل اور زبان میں کوئی فاصلہ اور تفاوت نظر نہیں آتی تھی ۔سکندر مرزا اور ایوب خان گہرے دوست تھے ۔ سکندر مرزا نے ایوب خان کو کمانڈر انچیف بننے میں مدد کی تھی ۔دراصل ایوب خان پر پنجاب باونڈری کمیشن کے سلسلے میں یہ الزام تھا کہ انھوں نے پاکستان کی صحیح طریقے سے نمائندگی نہیں کی تھی۔ جب کمانڈر انچیف کے لئے ان کا ریکارڈ پیش کیا گیا تو شنید یہ ہے کہ سکندر مرزا نے صرف وہی ریکارڈ وزیر اعظم کو پیش کیا جس سے ایوب خان کی بطور کمانڈر انچیف تقرری میں معاونت ہوسکتی تھی ۔
ؓصدر بھٹو سے ان کی پہلی ملاقات لاہو ربارڈر پر ہوئی جہاں صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ پاک بھارت سر حد پر موجود فوجیوں سے ملاقات کے لئے آئے تھے ۔ اس دورے سے واپسی پر بھٹو نے جنرل مجید ملک کو کہا کہ وہ انھیں دوبارہ ملنا چاہیں گے ۔بعد ازاں بھٹو سے ان کی ایک دوبار مختلف اوقا ت میں ملاقاتیں ہوئیں اور بھٹو نے ہر بار ان کے بارے میں اظہار پسندیدگی کیا ۔جنرل مجید ملک کو اپنے فوجی کیرئیر میں مایوسی اس وقت ہوئی جب دسمبر 1975 میں بھٹو نے ان سے جونیئر جنرل ضیا ء الحق کو آرمی چیف نامزد کر دیا ۔ ان دنوں جنرل عبدالمجید کور کمانڈر پشاور کے فرائض سر انجام دے رہے تھے ۔
بھٹو کے اس فیصلے کے سے متاثر ہونے والے چھ میں سے دو جنرلوں اکبر خان اور عبد المجید ملک اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے تھے لیکن جنرل کا موقف ہے کہ یہ استعفیٰ کسی ناراضی یا جذباتی رد عمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ استعفیٰ فوج کی اعلیٰ روایات کے عین مطابق تھا ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھٹو نے انھیں مراکش میں پاکستان کا سفیر مقرر کر دیا اور جنرل سفارت کا پروانہ تقرری لے کر مراکش روانہ ہوگئے اور آئندہ آٹھ سال((1976-84 سفارت کار کے طور پر مصروف کار رہے ۔
1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں انھوں نے چکوال سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا اور بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ۔ جنرل ضیا ء الحق سے ان کے تعلقات کیونکہ خو ش گوار نہیں تھے اس لئے انھوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر کے الیکشن میں جنرل ضیا ء الحق کے نامزد کر دہ امیدوار سیال کوٹ کے خواجہ صفدر کی بجائے فخر امام کو منتخب کرانے میں رول ادا کیا اور جب جونیجو نے انھیں اپنی کابینہ کے لئے منتخب کیا تو جنر ل ضیاء الحق نے یہ کہہ کر ان کا نام فہرست سے کاٹ دیا کہ انھیں اگلی دفعہ وزیر بنا یا جائے گا ۔
جنرل ضیا ء الحق کی اگست 1988میں موت کے بعد جنرل عبد المجید ملک سیاسی طور پر میاں نواز شریف اور مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے۔ ’اس فیصلے میں اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل جیلانی جو برما کی لڑائی میں میرے ساتھ تھے ان کا بنیادی کردار تھا‘ ۔جب آئی جے آئی بنائی گئی تو جنرل اس کے قیام میں پیش پیش تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ جو رقوم الیکشن کے لئے تقسیم کی گئیں ’ اس کا مجھے علم نہیں ۔ البتہ میرے ایک دوست حاجی گل شیر خان جو کہ فاٹا سے قومی اسمبلی کے ممبر تھے اور جن سے میر ا گہر ا تعلق تھا ، تو کچھ رقم میرے ذریعے حاجی گل شیر خان کو دی گئی ‘۔
جنرل عبدالمجید فوجی جنرلز کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے لیکن سیاست دانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ الفاظ کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جنرل یحییٰ خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی ’ شخصیت اس طرح تھی کہ وہ بڑے ذہین ، کھلے دل کے ، اعتماد کرنے والے شخص تھے لیکن اس کے بر عکس سیاست دان بے نظیر کے بارے میں جنرل عبدالمجید ملک کا کہنا ہے کہ ’ وہ ملکی ترقی میں کوئی بڑا کار نامہ سر انجام نہ دے سکیں اور ان کے دور میں پاکستان کے مختلف صوبوں کے مابین ہم آہنگی کی بجائے کشیدگی میں اضافہ ہوا ‘۔ وہ فوج اور بے نظیر کے مابین اختلافات کا باعث بے نظیر کو ٹھہراتے اور فوجی ٹیک اورز کو جواز فراہم کرتے ہیں ۔
جنرل عبد المجید ملک کی یہ آٹو بائیو گرافی اپنے مواد کے اعتبار سے اسی طرح کی روایتی دستاویز ہے جیسی آج کل ہمارے سابق جرنیل، بیورو کریٹس اور سفارت کار لکھ رہے ہیں جن میں اپنے مخالفین کے لئے لعن طعن اور اپنے کیر ئیر کے مختلف مراحل میں کئے گئے ہر ایکشن کو جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ کتاب میں جنرل نے کہیں بھی فوج کے غیر جمہوری طرز عمل اور اپنے آئینی دائرے کار سے تجاوز سے اظہار لا تعلق نہیں کیا بلکہ دھیمے انداز میں اس کی تائید و توثیق ہی کی ہے ۔
♣
نام کتاب:ہم بھی وہاں موجود تھے
مصنف : لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبد المجید ملک
صفحات :328
قیمت: 1200روپے
ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز،26لوئرمال لاہور
One Comment