نودبندگ بلوچ
چند سال پہلے کی بات ہے کراچی جانا ہوا تو وہاں ایک دیرینہ شناسا پٹھان دوست سے ملنے کا اتفاق ہوا ، کہیں کھانے کیلئے بیٹھے ۔ اسکا لاہور سے آیا ہوا کوئی پنجابی مہمان بھی ہمرا ہ تھا ۔ میرے پٹھان دوست نے میرا تعارف اسکے ساتھ کرایا اور بتایا میں بلوچستان سے ہوں تو اس نے بڑے اشتیاق سے مجھ سے دریافت کی ’’ پا جی ، آپ بلوچی ہو ، میں نے سنا ہے انڈیا وہاں بڑا گند کررہا ہے ‘‘ اسکا یہ حسبِ توقع سوال سن کر میں نے بلوچستان پر قبضے اور آزادی کی تحریک کے بارے میں مختصراً بتانا شروع کیا تو اس نے میرے باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بیچ میں کاٹ کر دوسرا سوال داغ دیا ’’ پاکستان اللہ کا بنایا ہوا ملک ہے ، اس میں کیا کمی ہے کہ بلوچی آزادی چاہتے ہیں، اگر بلوچیوں کو انکا حق نہیں ملا ہے تو اسکا ذمہ دار انکے سردار ہیں ‘‘۔
یہ باتیں سننے کا مجھ سمیت ہر بلوچ اب عادی ہوچکا ہے ، میں نے جواب میں طنزاً اسے صرف اتنا کہا کہ ’’بھائی جان ، بس آپ ایسا کرو کوئٹہ اور گوادر کو نکال کر مجھے بلوچستان کے دو شہروں کے نام بتادو پھر ہم بلوچ آزادی مانگنا چھوڑ دیں گے ‘‘ ۔ اس نے میرا جواب تو نہیں دیا ہاں دوسرا سوال داغ دیا ’’ اچھا جی ، یہ کوئٹہ بلوچستان میں ہے ہاں ؟‘‘۔ایک دفعہ تو پاکستان کی کسی پڑھی لکھی خاتون کے منہ سے مجھے یہ بھی سننے کی سعادت ملی ’’ یہ بلوچستان کوئٹہ سے کس طرف پڑتا ہے ؟‘‘لیکن میں نے سمجھانا چھوڑ دیا۔
کیونکہ ہمارا تعلق یہی ہے ، میں صدیوں سے تم سے تمہارے مسئلوں سے اور تمہارے زمین سے بیگانہ رہا ہوں اور تم مجھ سے بیگانہ رہے ہو۔ یہی بیگانگی کا رشتہ ہی ہمارا حقیقی رشتہ ہے اور جب تک یہ رشتہ رہے گا تب تک آپ مجھے طاقت و بربریت سے بس اپنے نقشے کے لکیروں کے حدود میں قید رکھ سکتے ہو ، اس سے آگے کوئی رشتہ استوار نہیں کرسکتے اور طاقت جتنا بھی عظیم ہو اسے تو ڈیھ جانا ہی ہے۔
میں ان لوگوں کو کیا سمجھاؤں جنہیں آج تک یہ نہیں پتہ کہ سنہ 47 میں پاکستان آزاد نہیں ہوا تھا بلکہ ہندوستان تقسیم ہوا تھا، میں اسے کیا سمجھاؤں جسے درسی کتابوں میں کبھی یہ نہیں بتایا گیا کہ 27 مارچ 1948 سے پہلے بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی ، وہ لوگ جو آج تک لاکھوں بنگالیوں کے قتل اور دس لاکھ بنگالی خواتین کے ساتھ پاکستانی فوج کے زنا بالجبر کو جھوٹ اور ہندوستان کی چال سمجھتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو کیا سمجھاؤں جنہیں لگتا ہے کہ انکا ملک پاکستان اب تک ہندوستان سے چار جنگیں جیت چکا ہے اور وہ یوم دفاع مناتے ہیں ۔
عام پاکستانیوں کو چھوڑ ان کاتعلیم یافتہ طبقہ تک کا عقل و شعور لغو درسی کتابوں کے ذریعے دماغ میں بھرے ہوئے بھوسے اور فوج کا بیانیہ ذہنوں میں اتارتے ہوئے میڈیا پرو پیگنڈے کی جگالی کرنے سے آگے نہیں جاتا ۔ جب بات بلوچستان کی آجائے جہالت و بیگانگی کی حد یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ’’ کامن سینس ‘‘ بھی اپنا زنا بالجبر انکے ہاتھوں ہوتے دیکھتا ہے ، یعنی ان کی تاریخ و معلومات کے تناظر میں پیچھے چلتے جائیں تو 47 سے پہلے کا بلوچستان صفحہ ہستی پر موجود ہی نہیں ہوتا ۔
ان کا کامن سینس اتنا تک کام نہیں کرتا کہ جنہیں مٹھی بھر دہشت گرد کہہ کر اس کی فوج اسکے شعور کو اپنے پروپیگنڈے سے سُن کررہی ہوتی ہے ، وہی مٹھی بھر لوگ کبھی ختم ہی کیوں نہیں ہوتے اور وہ کچھ نہیں کریں بس اپنے اسی فوج کے دوسرے بیانات کو نکال کر دیکھیں جن میں سب سے پہلے وہ بلوچ آزادی پسندوں کی تعداد 10 ہزار بتاتے ہیں ، حقیقی اعداد و شمار سے قطع نظر پھر خود ہی اعتراف کرتے ہیں کہ چار ہزار لاپتہ ہیں ، اور آپریشنوں میں ان کے ’’ دہشت گرد ‘‘ مارنے والے اور گرفتار کرنے والے اعداد و شمار تو دس ہزار سے کئی گنا زیادہ پہنچ جاتی ہے اور ہزاروں کو تو فوج کے دعوؤں کے مطابق ابھی سرینڈر کروایا ہے لیکن پھر بھی اسے پاکستان کا ایک جھنڈا لہرانے کیلئے پوری بٹالین کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟۔
بلوچستان کے بارے میں تو میں ان عام پاکستانیوں کو الزام ہی نہیں دے سکتا ، انکے تو روشن خیال لبرل دانشوروں کا دانش بھی پاکستانی فوج کے پیش کیے گئے بیانیے اور بنائی گئی تاریخ سے آگے نہیں بڑھا ۔ وہی دانشور جو اس فوج کے کرتوتوں پر کتابیں تک لکھ لیتے ہیں لیکن جب بات بلوچستان پر آتی ہے تو ان کی دانش جی ایچ کیو سے پھوٹنے والے علم کے چشمے سے ہی سیراب ہونے پر اکتفاء کرتی ہے۔ اس دانشوری کا خوبصورت اظہار چند ماہ پہلے بڑے اچھے طریقے سے ہوا ،جب ایک بحث میں کودتے ہوئے میرے صد احترام بلوچ دانشوران دلیلوں اور حوالوں کے گھوڑے دوڑا دوڑا کر تھک گئے لیکن ان لبرل دانشوروں کی سوئی کو فوجی بیانیے پر اٹکوا کر انہیں ٹس سے مس نا کرسکے۔
یہ بحث دیکھ مجھ جیسے جاہل کے ذہن میں دانش سے خالی سادہ خیالات آتے رہے ، بولنے کو دِل کرتا رہا لیکن ایک طرف دانش کے بپھرتے موجوں میں اترنے کی اوقات نہیں ہوئی تو دوسری طرف یہ بھی احساس ہوا کہ نا صرف میں انہیں سمجھانا نہیں چاہتا بلکہ وہ بھی کبھی سمجھنا نہیں چاہتے ، تب مجھے احساس ہوا کہ ہمیشہ سے ایسا ہی ہو ا ہے میں انہیں اس لیئے نہیں سمجھانا چاہتا تھا کیونکہ وہ کبھی سمجھنا نہیں چاہتے اور وہ سمجھنا اس لیئے نہیں چاہتے کیونکہ اگر جس دن وہ اس بات کو سمجھ گئے تو پھر ان کی جھوٹی تاریخ کاکھڑا ریت کا محل ڈیھ کر ایک ننگی حقیقت کو آشکار کردے گااور پھر اسے بلوچ کے ساتھ اپنے بنائے گئے جبری رشتے کو مان کر قابض و مقبوضہ ، حاکم و محکوم ، ظالم و مظلوم کے تضاد کو تسلیم کرنا پڑے گا، اس تضاد کا تسلیم ہی اس کی بقا ء پر سوال کھڑا کردے گا ۔
آج جب دانش کی بپھرتی لہریں شانت ہوچکی ہیں تب مجھ جیسے جاہل میں کچھ کہنے کی سکت پیدا ہوئی ہے ، میں انہیں سمجھانا نہیں چاہتا بلکہ اس دوران اپنے ذہن میں آئے خیالات کو قرطاس پر اتارنا چاہتا ہوں ۔ بس اپنے خیالات کو دانش کے پیرہن میں ڈھانپے بغیر جہالت کے برہنہ حالت میں سادگی سے بتانا چاہتا ہوں ۔میں بس خود سے پوچھنا اور خود سے کہنا چاہتا ہوں ۔
بلوچستان آزاد کیوں ہو؟ طویل دلائل و تاریخی حوالوں سے بچنے اور اپنی بات کو سادگی سے بیان کرنے کیلئے میں آپ کی ہر بتائی تاریخ اور ہر کہی دلیل فرض کرنے کیلئے تسلیم کرتا ہوں ۔ میں ایک لمحے کیلئے مانتا ہوں کہ بلوچستان ازل سے پاکستان کا حصہ رہا ہے، 27 مارچ 1948 کو جنرل ڈگلس گریسی اور جناح کے کہنے پر بریگیڈئر اکبر کی قیادت میں پاکستانی فوج نے قلات پر کوئی حملہ نہیں کیا ، ایک لمحے کیلئے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ تاریخ میں کبھی کوئی بلوچ ریاست ہی نہیں رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔
پر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ ایک ریاست کیا ہوتی ؟ ریاست نا ہمیشہ سے رہی ہے اور نا ہمیشہ رہے گی یہ طویل انسانی تاریخ میں بیچ کا ایک پڑاو ہے جو انسانی ضروریات کے تحت وجود میں آئی، بالکل اسی طرح جس طرح انسان کے فطری ضروریات نے اسے ایک ساتھ رہنے ، خاندان بنانے ، قبیلے تشکیل دینے پر مجبور کیا پھر وقت کے ساتھ یہ سادہ سے اجتماع مزید ترقی کرتے ہوئے ریاست تک جا پہنچے اور اب ریاست کے بعد انسان کی کِن ضروریات کے تحت ترقی پاکر یہ ریاست ختم ہوکر کس اعلیٰ اجتماعی حالت پر منتج ہوگی کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن اتنا تو ضرور کہہ سکتے ہیں کہ ترقی کا پہیہ کبھی نہیں رکے گا اور یہ ریاست اپنا وجود کھو کر اجتماع کے کسی اور درجے تک ضرور پہنچے گی ۔
ریاست ہمیشہ سے لوگوں کی ضرورت رہی ہے ، لوگ ریاست کی ضرورت نہیں اور ضروریات کبھی بھی بدل سکتی ہیں۔اسی لیے ریاست کوئی مقدس یا لافانی شے نہیں کہ جس کے وجود قائم رکھنے کیلئے لوگوں کو قربان کیا جائے ۔دور موجود کی جدید ریاستوں پر نظر ڈالیں کہ ایک ریاست اور لوگوں کا آپس میں کیا رشتہ ہوتا ہے ۔ عوام اور ریاست باہمی ضروریات کے تحت ایک سماجی بندھن ( سوشل کنٹریکٹ ) میں بندھے ہوتے ہیں۔ جن میں کچھ فرائض اور ذمہ داریاں ریاست پر عائد ہوتی ہیں اور اسی طرح کچھ فرائض و ذمہ داریاں عوام پر عائد ہوجاتی ہیں ۔ اس سماجی بندھن میں ریاست عوام کو تحفظ ، روزگار ، زندگی کی بنیادی ضروریات وغیرہ مہیا کرنے کا پابند ہوتا ہے اس کے بدلے میں پھر عوام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پھر اس ریاست کے آئین کو تسلیم کرے ، ٹیکس ادا کرے ، اسکا وفادار رہے وغیرہ ۔
اس کنٹریکٹ کے دونوں گروہوں یعنی ریاست یا عوام میں سے کوئی ایک گروہ اپنی ذمہ داریاں پورا نہیں کرے تو پھر دوسرا گروہ بھی اپنے ذمہ داریاں پورا کرنے کا پابند نہیں ۔ بالفرض، اگر ریاست آپکے تحفظ کو یقینی نہیں بناتی پھر آپ بھی اسکے آئین کو ماننے کا پابند نہیں ہو۔اسی طرح اگر لوگوں کی وہ ضروریات جن کی وجہ سے ریاست تشکیل پائی کسی ریاست میں پوری نہیں ہوتیں تو پھر اپنی ضروریات کے تحت وہ ایک نئے سماجی بندھن کے تحت ایک نئی ریاست کی تشکیل کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں کیونکہ ریاست کا مقصد ہی لوگوں کی ضروریات پورا کرنا ہے ۔یہی انسان کا وہ بنیادی حق ہے جسے تمام انسانی حقوق کے ادارے اور اقوام متحدہ بھی تسلیم کرتا ہے۔
اب میں پہلے آزاد تھا یا نہیں ، آپ نے مجھ پر جبری قبضہ کیا یا نہیں ، بلوچستان کبھی وجود رکھتا تھا یا نہیں ان سب سے قطع نظر یہ آج کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زمین کا ایک ٹکڑا بلوچستان ہے ، جس پر لوگوں کا ایک اجتماع بلوچ کے نام سے رہتا ہے ،جو دنیا کی ہر تشریح پر پرکھنے پر ایک قوم یعنی اجتماع کا اعلیٰ شکل کی صورت میں ہی پہچانے جائیں گے ۔ اور یہ بلوچ قوم اجتماعی طور پر آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا۔
بلوچ آپ کے ساتھ کیوں رہنا نہیں چاہتا ؟ بات بالکل سادہ ہے کیونکہ ریاست پاکستان نے بلوچ کے ساتھ جو بندھن تشکیل دیا ہے وہ جبری اور بلوچ کے مرضی کے خلاف ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا میں 27 مارچ 1948 سے پہلے کے بلوچستان اور ماضی سے جڑے ہمارے دعوؤں پر بات نہیں کروں گا۔ اسکے باوجود بھی پاکستان کے قبضے کے اندر رہتے ہوئے بلوچ کی حالت زار یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ بلوچ آپ کے ساتھ کیوں نا رہے ۔ امیر ترین خطے کے مالک ہونے کے باوجود بلوچوں میں شرح غربت ، شرح تعلیم ، صحت ، روزگار، تحفظِ نفس ، پانی و بجلی کی سہولت ، نمائیندگی وغیرہ کو پاکستان کے دوسرے حصوں سے تقابل کرکے دیکھیں تو سمجھ آجائے گی ۔
بلوچ اس لیے پاکستان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا کیونکہ تاریخ کے کسی بھی دور سے اور کسی بھی بیرونی قوم سے کئی گنا زیادہ بلوچ آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں جس نے پاکستان اور بلوچستان کے بیچ کے خلیج کو لہو سے بھر دیا ہے ، اس خلیج کو پُر کرنے کا مینڈیٹ اب چاہے کوئی بھی بلوچ ہو یا کتنا ہی بڑا بلوچ لیڈر ہو نہیں رکھتا، بلوچ اس لیے آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا کیونکہ آپ کے ساتھ رہ کر بلوچ اپنی زمین پر اجنبی بنتا جارہا ہے ، آپ کے ساتھ رہ کر بلوچ کبھی اپنے قسمت کا فیصلہ خود نہیں کرسکتا ، آپ کے ساتھ رہتے ہوئے بلوچ اپنی وہ پہچان ، زبان ، تہذیب کھو رہا ہے جو اسکا قیمتی ترین اثاثہ ہے ،کیونکہ 65 سال گذرنے کے باوجود آپ ہر ایک بلوچ کیلئے ایک قابض سے زیادہ کچھ نہیں بن سکے ۔نا بلوچ نے آپکو تسلیم کیا اور نا آپ کبھی خود کو تسلیم کروا سکے ۔ بلوچ اس لیے آپکے ساتھ رہنا نہیں چاہتا کیونکہ وہ آپ کے بنا رہتے ہو زیادہ بہتر طریقے سے رہ سکتا ہے ۔
آپ کہتے ہیں کہ بلوچ الگ ہوگیا تو ان پر سردار حکومت کریں گے ، تباہ ہوجائیں گے ، منتشر ہوجائیں گے اس بابت میں کوئی وضاحت نہیں لکھنا چاہتا، لیکن میں ایک سادہ سی بات ضرور سوچتا ہوں کہ یہ میرا گھر ہے اور میرے لوگ ہیں میں جیسا بھی رہوں ، آباد ہوجاوں یا برباد آپ کون ہوتے ہو مجھے بتانے والے کے میرے لیے کیا صحیح ہے کیا غلط ؟آپ کون ہوتے ہو مجھے تہذیب سکھانے والے خوشحالی دینے والے ؟۔یہ کیسی زبردستی ہے کہ ریاست اپنے فرض پورا نا کرے مجھے تحفظِ جان تک حاصل نا ہو اور پھر بھی میں اس کی وفاداری کا پابند رہوں؟ ۔ آپ کون ہوتے ہو مجھے زبردستی پابند کرنے والے ؟
جب میں پوچھتا ہوں کہ آپ کون ہو ؟ اور میں آپ کے اس کون ہونے کے صرف اخلاقی و قانونی جواز پر چیلنج کرتا ہوں تو پھر اسی ’’ کون ‘‘ کے جواب پر آتے ہی آپکا روشن خیالی ، لبرل ازم ، عدم تشدد ، بھائی چارہ ، بلوچ بھائی کا فلسفہ فوت ہوجاتا ہے اور حقیقت خود کو برہنہ حالت میں آشکار کردیتی ہے ۔ اب اخلاقی حد بندیوں میں آپ ایک الگ قوم ہو میری ہمسائے قوم ہو اور میں الگ قوم ہوں اگر میں کہوں کہ مجھے آپ سے تعلق نہیں ہے میں اپنے طور رہنا چاہتا ہوں تو اگر آپ روشن خیالی ،ترقی پسندی یا کم از کم حقیقت پسندی تک کی بات کرتے ہو تو آپ کے بحث و دلائل سب کچھ یہیں اختتام پذیر ہونا چاہئے اور بطور انسان و بطور ایک جدا گانہ قوم میرا حق تسلیم کرنا چاہیے۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ حقیقت میں آپ کون ہو ؟ آپ طاقت ہو ، آپ ایک بڑی فوج ہو، آپ کے پاس مجھ سے زیادہ بندوقیں اور توپیں ہیں اس لیے میں اب تک جو بھی باتیں کررہا تھا وہ سب بیکار ہیں اور آپ جیسا چاہے میرے ساتھ ویسا کرسکتے ہیں ۔ مجھے ترقی دے سکتے ہیں، مجھے مار سکتے ہیں، مجھے مار مار کر اپنا وفادار بنا سکتے ہیں اور یہی ہمارے بیچ قائم سماجی بندھن ہے۔
یہ جبری بندھن تب تک رہے گا جب تک آپ کے پاس یہ قوت ہے ۔ تم تاریخ کی جو بھی تاویلیں پیش کرو ، تم حقائق کو جو بھی رنگ دو ، تم جو بھی فلسفے پیش کرو ۔ بات شروع بندوق کی نوک پر ہوئی تھی اور آج ہر بلوچ یہ سمجھ چکا ہے بات ختم بھی بندوق کی نوک پر ہی ہوگی۔ تمہارا قائم کیا ہوا یہ جبری بندھن ، تمہارے بیان کردہ یہ پوری جھوٹی تاریخ، یہ حقائق ، یہ فلسفہ سب تب تک صحیح ہیں جب تک کہ بلوچ کے پاس اتنے ہی بندوقیں نہیں آتیں جتنی تمہارے پاس ہیں ۔ لیکن یہ کبھی نہیں بھولنا کہ ہم کبھی نہیں بھولیں گے ، ہم تین نسلوں سے نہیں بھولے ہم کئی اور نسلیں بھی نہیں بھولیں گے کہ تم کون ہو ، ہم بولتے ، لکھتے اور لڑتے رہیں گے شکست کھائیں گے پھر اٹھیں گے پھر لڑیں گے یہ سب تب تک چلتا رہے جب تک میری طاقت آپ سے زیادہ نہیں ہوتی ۔
جب تک ہم طاقت کے اس نہج تک نہیں پہنچتے آپ کی لغویات سچ اور میرا سچ جھوٹ ہے ، میرا سچ تب سچ بن جائے گا جب طاقت میرے ہاتھ میں ہوگی اور تب تک آپ سمجھنا نہیں چاہیں گے، اس لیے میں آپ کو سمجھانا نہیں چاہتا ۔
♠