گمنام قاتل

غالب کمال

Mumtaz-Qadri

مورخہ 29 فروری 2016 کو سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی، جس سے ملک کے مختلف حصوں میں اس کے حامیوں نے اسے شہید کا خطاب دیا اور اس کی تعریف کے گن گائے جا رہے ہیں، بظاہر ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے ممتاز قادری کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، مگر تاریخ سے حاصل ہونے والا سبق اس بات کی مکمل نفی کرتا ہے۔

تاریخ میں بہت سے عظیم اشخاص قتل ہوئے مگر آج ان عظیم شخصیات کو تو تاریخ یاد رکھے ہوئے ہے جبکہ ان کے شدت پسند و جاہل قاتلوں کو تاریخ نے اپنے اوراق سے اس طرح کاٹ پھینکا ہے کہ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں بچا، عین ایسا ہی سلوک تاریخ ممتاز قادری کے ساتھ بھی کرنے والی ہے۔ تاریخ کی ایسی ہی مثالوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔

کوئی400 ق م یونان کے شہر ایتھنز میں ایک بوڑھے شخص کو زہر کا پیالہ پلایا گیا، اس پر الزام تھا کہ وہ ایتھنز کے نوجوانوں کو بغاوت پر اکسا رہا ہے، ان کو روایت پرستی سے دور لے جا رہا ہے، اس شخص کا نام سقراط تھا، بالآخر اس پر مقدمہ چلایا گیا، اور اس کو زہر کا پیالہ پلا کا مار دیا گیا۔ آج 2400 سال گزرنے کے بعد بھی ہم اس کے نظریات سے واقف ہیں، اس کا نام جانتے ہیں، مگر اس کے قاتلوں کے نام تاریخ میں گم ہو گئے ۔

ایسا ہر گز نہیں کہ اس کو موت تک پہنچانے والے اپنے وقت کے گمنام لوگ تھے، بلکہ یہ انتہائی مقتدر اور مشہور و معروف اشخاص تھے۔ یہ لوگ سقراط کو موت تک پہنچانے کے بعد یقیناً کچھ وقت تک مشہور رہے ہوں گے ۔ مگر تاریخ بڑی ظالم چیز ہے یہ وقتی تعصب کی کمر توڑ دیتی ہے، یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اشخاص و واقعات کی ایسی چھان پھٹک کرتی ہے کہ کینہ پرور قاتل ہمیشہ گمنام ہو جاتے ہیں اور وقت کی طوالت قتل ہونے والی اعلیٰ شخصیت کو ممتاز کر دیتی ہے، اسی باعث آج سقراط کا نام زندہ ہے مگر اس کے قاتلوں کے نام کوئی نہیں جانتا۔ وہ تاریخ کی ستم ظریفی کا شکار ہو گئے ہیں۔

سن 1600ء میں جیورڈانو برونوپر چلنے والا مقدمہ اپنے اختتامی مراحل میں تھا، برونو پر مقدس مسیحی کتب کو جھٹلانے کا الزام تھا، برونو کیتھولک چرچ کے اس وقت کے ان نظریات جن کے مطابق زمین کائنات کا مرکز تھی کے برعکس زمین کو سورج کے گرد محو گردش مانتا تھا، اور ستاروں کو سورج کی ہی طرح سمجھنے کے ساتھ ساتھ ان کے گرد کئی زمین جیسی دنیاؤں کی موجودگی کی تبلیغ کرتا تھا۔

کلیساء کے مشہور و معروف عہدیداروں نے اس پاگل شخص کو مذہبی گستاخی کے الزام میں زندہ جلوا کر مار دیا۔ مگر تاریخ برونو کو بھولی نہیں، آج سائنسی تاریخ پر لکھی گئی ہر کتاب میں اس کا نام سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے، جبکہ اس کے قاتلوں کے نام کوئی نہیں لیتا۔ یعنی تاریخ کے انصاف نے جاہلوں پر ایک روشن خیال شخص کو فوقیت دی اور اس کی شہرت دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ جیورڈانو برونو کو سائنسی تحریک کے شہید اول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

سن 1886ء جان ولکز بوتھ نے امریکا کے صدر ابراھام لنکن کو گولی مار دی، ابراھیم لنکن امریکا کی سیاہ فام اقلیت کو غلامی سے نکالنے کے ذمہ دار تھے، امریکی خانہ جنگی کے اختتام کے بعد ابراھام لنکن نے سیاہ فام امریکیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق تقریریں بھی کرنی شروع کر دی تھی۔ یہ بات بوتھ کو ایک آنکھ نہ بھائی اسی باعث اس نے ابراھام لنکن کا قتل کر دیا۔ مگر آج تاریخ ابراھام لنکن کو محسن انسانیت اور کمزور کے لئے آواز اٹھانے والے ایک بہادر شخص کے طور پر یاد کرتی ہے مگر بوتھ کو ایک جاہل قاتل سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی، یہی تاریخ کی ستم ظریفی ہے۔

30 جنوری 1948 مہاتما گاندھی ایک پوجا میں شرکت کے لئے جا رہے تھے، مگر ناتھو گوڈسے نے موقع پا کر تین گولیاں مہاتما گاندھی کے سینے میں اتار دیں، ناتھو ایک انتہا پسند ہندو تحریک کا رکن تھا، اس تحریک کا موقف یہ تھا کہ گاندھی نے پاکستان کی حمایت کی ہے۔ اسی باعث ناتھو نے گاندھی کو قتل کر دیا تھا۔ گاندھی ساری زندگی ہی عدم تشدد پر یقین رکھتے آئے تھے اور انہوں ہی نے متحدہ ہندوستان کے خزانے سے پاکستان کو اس کا حق دلانے میں مدد کی تھی۔ نیز اپنے قتل سے چند ماہ قبل اس ارادے کا اعلان کر دیا تھا کہ وہ اپنی بقیہ زندگی پاکستان میں گزاریں گے اسی باعث انتہا پسند ہندو ان سے نالاں تھے اور ان کو قتل کروایا تھا۔ مگر تاریخ نے ان انتہا پسندوں کے نام ایک بار پھر بھلا دئیے اور ساری دنیا آج گاندھی کو مہاتما گاندھی کے نام سے یاد کرتی ہے، گاندھی کے قاتل کو سوائے گاندھی کے قاتل کی حیثیت کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔

دنیا میں بہت سی شخصیات ایسی گزری ہیں جنہوں نے مستقبل کی بات کی، اس وقت لوگوں نے ان کی مخالفت بھی کی، ان لوگوں کو قتل کیا ، مگر ان لوگوں کی موت ان لوگوں کے مقصد کی موت نہ تھی۔ ایسا ہی مقصد ”شہید انسانیت“ سلمان تاثیر کا بھی تھا، انہوں نے پاکستان کی غریب ترین اقلیت سے تعلق رکھنے والی ایک عورت سے ہمدردی کی، یعنی ایک ایسی عورت سے ہمدردی جس کی حالت امریکہ کے غلام سیاہ فاموں سے مختلف نہ تھی۔ یہ عورت کال کوٹھڑی میں پڑی تھی اور موت اس کے سر پر منڈلا رہی تھی، مگر مذھبی اکابرین کو سلمان تاثیر کی یہ حرکت ایک آنکھ نہ بھائی اور ناتھو رام کی طرح ایک جاہل یعنی ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

سلمان تاثیر نے بھی ابراھام لنکن کی طرح کمزور کی مدد کرنے کی کوشش کی ، انہوں نے بھی گاندھی کی طرح انصاف کی بات کر کے اپنی جان گنوائی، انہوں نے بھی برونو کی طرح جاہل مذھبی شدت پسندوں کو ایک ایسی بات سمجھانے کی کوشش کی تھی جو وہ سننا بھی نہیں چاہتے تھے۔ سلمان تاثیر کی موت پر بہت سے جاہلوں نے مٹھائیاں بانٹیں، گستاخِ رسول جہنم واصل ہوا کے نعرے لگائے، مگر سلمان تاثیر کی موت اپنا اثر آنے والے وقت میں دکھائے گی، اس کے قاتل ممتاز قادی کا حشر جان ولکز بوتھ، ناتھو رام گوڈسے اور برونو اور سقراط کے قاتلوں سے مختلف نہ ہو گا، یہ جاہل مطلق بھی تاریخ اور وقت کی کڑی جانچ کے معیار پر پورا نہ اتر پائے گا اور تاریخ اس کو صرف اور صرف ایک سر پھرے دہشت گرد کے طور پر ہی یاد رکھے گی۔

بے شک آج ممتاز قادری بھی برونو اور سقراط کے قاتلوں کی طرح وقتی شہرت حاصل کرے گا، مگر اپنی طوالت میں تاریخ اس کو ایسی اندھیر گمنامی کا تحفہ دے گی کہ تاریخ کی حقیقی کتب میں شائد ایک نقطہ بھی اس کے حصے نہ آئے، جبکہ سلمان تاثیر پاکستان میں روشن خیالی کی تحریک کے شہید اول کے طور پر یاد رکھے جائیں گے عین اسی طرح جس طرح جیورڈانو برونو کو سائنسی تحریک کے شہید اول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اور پاکستان کی اعتدال پسند اور لبرل تاریخ پر لکھی جانے والی تاریخ کی ہر کتاب میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔

One Comment