کیا مارکسی شخصیت پرست ہوتے ہیں؟

anbارشد نذیر

اگرچہ وجاہت مسعود صاحب سے میری ملاقات نہیں ہے لیکن ان کے پاس جو قلم کا حوالہ ہے وہ اتنا مضبوط ہے کہ کسی بھی سنجیدہ قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اپنا تعارف خود پیدا کر لیتا ہے ۔ میں بھی اُن کو علم و دانش کے حوالے سے جانتا ہوں۔ اُن کی علمی ، فکری اور صحافتی کاوشوں کا قائل بھی ہوں اور دل سے معترف بھی۔

مارکس کے حوالے سے انہوں نے اپنے کالم میں چند فکری سوالات اٹھائے ہیں جو اپنی سرشت میں نئے تو بالکل نہیں ہیں کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی ایک دانشور مارکس پر اس طرح کے اعتراضات اٹھاتے رہے ہیں۔ اس لئےلازم آتا ہے کہ ان کا فکری اور مدلل جواب بھی دیا جائے۔ مارکس کے حوالے سے ان کی تحریر پر کچھ اپنے انداز سے لکھ رہا ہوں اور انتہائی ادب سے اُن کے نکتہ نظر کا مدلل جواب دینے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔ امید ہے قارئین مارکس پر لگائے جانے والے الزامات کو اس انداز سے بھی دیکھیں گے۔

مارکس کے نظریے کو جھُٹلانے کے لئے جتنے بڑے علمی قد کاٹھ کی ضرورت ہے جب لوگ اتنی بلندی تک نہیں پہنچ سکتے تو وہ عجیب و غریب قسم کے نقائص نکال کر اس کا قد چھوٹا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مارکس پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ذرائع پیداوار ہی مقصدیت کا تعین کرتے ہیں۔ فی ذاتہ مقصدیت کی اہمیت نہیں ہے۔ یہ ایک فلسفیانہ سوال ہے۔ اس کی تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پیداوار اور پیداواری عمل کی تعریف کی جائے ۔ پھر مقصد کی بھی تعریف کی جائے ۔ پھر تاریخی طور پر یہ ثابت کیا جائے کہ سماجوں کے ارتقائی سفر میں کس طرح مقصدیت پیداواری عمل سےمقدم ہے۔

اگر مقصدیت پہلے نہیں تھی تو پھر پیداوار اور ذرائع پیداوار کن کن معروضی اور موضوعی حالات کے تابع ہوتے ہوئے اس ارتقائی سفر سے گزرے ہیں۔ مارکس کے مادہ ، مادہ پرستی اور تاریخی مادیت کے اصول پر یقین رکھنے والے کسی بھی شخص کو جو یہ کہتا ہے کہ مقصدیت پیداوار اور ذرائع پیداوار سے پہلے ہوتی ہے اتنی علمی اور سائنسی تحقیق اور سنجیدگی سے اپنے اس دعوے کو ثابت کرنا ہوگا۔ مقصدیت کو مادے پر مقدم رکھنے کا نظریہ مثالیت پسندی کا تو ہو سکتا ہے ۔ یہ مادیت پسندی کا نظریہ نہیں ہے۔ یہ واضح فکری مغالطہ ہے۔ جب تک وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اُسے مارکسیوں پر یہ الزام لگانے کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ مارکسیوں کو شخصیت پرست کہے۔

سرمایہ داری نظام کے گزشتہ اور موجودہ معاشی اور مالیاتی بحرانوں کی مارکسی تشریح سے بہتر اگر کوئی تشریح موجود ہے تو ہمیں بتایا جائے ۔ ہم بھی چھلانگ لگاکر اس نکتہ نظر کو قبول کر لیں گے بصورت دیگر کوئی بھی استدلال اور اعتراض اتنا قوی نہیں رہتا۔ لہٰذا مارکسیوں پر اس طرح کی شخصیت پرستی کا الزام جیسے اولیا پرستی، انبیا پرستی، ہیرو پرستی اور محض عقیدت ہوتی ہے کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

یہ اعتراض کہ آج ذرائع پیداوار بہت تبدیل ہوچکے ہیں اور کلاسیکل پرولتاریہ کی وہ شکل یا وہ کردار جیسا کہ مارکس کے وقت تھا باقی نہیں رہا بہت زیادہ تحقیق طلب ہے۔ اس پر مختلف دانشوروں کا نکتہ نظر مختلف ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی آج تک نئے پیداہونے والے شعبوں اور ان میں استحصال کی شکلوں پر کوئی مفصل کام نہیں کیا ۔ جہاں تک جدید سائنس دانوں کی موجودہ معاشی اور سماجی انحطاط کی بات ہے تو اس پر سٹفن ہاکنگ کا حوالہ دیا جاسکتاہے جس نے مصنوعی ذہانت پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے واضح طورپر کہا ہے کہ سرمایہ داری نظام میں اس سائنسی ایجاد سے انسانوں کے استحصال کی مزید پیچیدہ شکلیں پیدا ہوں گی اور سرمایہ دار اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کریں گے۔

اس ضمن میں ہمیں 2008 ء کے مالیاتی بحران کو ذہن میں رکھنا چاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ یورپی ممالک اور برطانیہ میں اس بحران نے سب سے زیادہ جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی سے وابستہ پیدا ہونے والی نئی پروفیشنلز کی کلاس کو متاثر کیا۔ استحصال جدید دور میں بھی ویسے ہی موجود ہے جیسے ماضی میں تھا۔صرف استحصال کی شکلیں بدلی ہیں۔

کچھ لوگ کلچر کی آڑ میں بھی مارکس سے اللہ واسطے کا بیر سامنے لاتے ہیں۔ تہذیب کے بارے میں آج کل ایک فقرہ بڑا مشہور ہے کہ تہذیب کا آغاز سب سے پہلے اُس وقت ہوا جب انسان نے پہلی دفعہ پتھر کے بجائے مکالمہ کا استعمال کیا۔ لیکن کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ موجود سامراجی کردار جن جدید ترین اسلحے اور بموں کا استعمال آج شہری آبادیوں پر کرتے ہوئے بربریت وحشت اور دیوانگی کا ثبوت دے رہے ہیں ، کیا یہ تہذیب ہے۔ کیا اس کے پیچھے وہ غریب اور بے کس لوگ ہیں یا اس طرح کی ٹیکنالوجی رکھنے والے استحصالیوں کے معاشی اور سیاسی مفادات ہیں۔ جب وہ اپنے سیاسی اور معاشی مفادات حاصل کرنے کے لئے اس حد تک گر سکتے ہیں تو اُس وقت انسانی حقوق ، انصاف اور مساوات جیسے آدرش کدھر چلے جاتے ہیں؟ ان سوالوں کا جواب بھی ہمارے مارکس مخالف دانشوروں کو دینا ہوگا۔

مارکسیوں پر بھی شخصیت پرست ہونے کی تہمت دھر دی جاتی ہے۔مارکسی ہونے سے قطعاً شخصیت پرست ہونا مراد نہیں ہے۔ مارکس کے ’’مادیت کے فلسفے ‘‘ سے روشناس کوئی بھی قاری بیک وقت ڈارونی ، فرائیڈی ، اینگلی اور مارکسی اور لیننی وغیرہ وغیر ہ ہوتا ہے ۔وہ مادے کی ترقی اور ارتقا کا قائل ہوتا ہے ۔ اس لئے وہ مادے کو ترقی دینے والے ہر اس سائنسدان کا پیروکار ہوتا ہے جو بھی اس طرح کی ترقی اور ارتقا میں اپنا حصہ ڈالتا ہے ۔

دراصل مارکسی ہی ایسا انسان ہوتا ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی اور علم کی ہر شاخ میں ہونے والی ترقی کا کریڈٹ اُس کے پیچھے کار فرما ہر سائنسدان خواہ اُس کا اس عمل میں حصہ زیادہ ہویا کم دینے پر آمادہ ہوتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مارکسیوں پر مارکسی ہونا کا الزام کیوں دھر دیا جاتا ہے ، اُن کو آئن سٹائنی کیوں نہیں کہا جاتا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ مارکس نے پولیٹکل اکانومی کے علاوہ جس طرح تاریخی مادیت کے ذریعے سے سماجوں کے عروج و زوال کا مطالعہ کیا ہے اور اس عمل میں بحرانوں کی نشاندہی کی ہے ، وہ ایک سائنسی عمل ہے ۔ سائنس معروض کا غیر متعصب علم ہوتا ہے۔ جب تک کوئی متبادل نظریہ سامنے نہیں آتا ، کوئی بھی غیر جانبدار اور غیر متعصب ذہن والا شخص اس سائنسی نظریے کی طرح جھکاؤ رکھتا ہے۔ ایسے جھکاؤ کو محض شخصیت پرستی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔

ہاں مارکسیوں کو بھی ضدی نہیں ہونا چاہئے ۔ اگر کوئی متبادل نظریہ سامنے آجاتا ہے جس کی بنیادیں سائنسی خطوط پر استوار ہوں تو اُسے قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن ابھی تک کوئی ایسا لبرل معیشت دان اور سیاستدان سامنے نہیں آیا جو موجودہ مالیاتی بحرانوں کا حل بتا رہا ہوں۔ بلکہ بورژوا معیشت دان تو اس بحران سے چند مہینے پہلے تک بھی یہی کہتے رہے کہ اب سرمایہ دار ی ہی اس دنیا کا واحد نجات دہندہ نظام ہے۔ سرمایہ داری ہی اس دنیا میں ہمیشہ رہے گی۔ لیکن آج یہ بحران ہمارے سامنے ہیں۔ بورژوا اور لبرل معیشت دان اس سے نکلنے کی جو جو تدابیر کر رہے ہیں وہ کارگر ثابت نہیں ہو رہیں۔

پھر سامراجی اور نام نہاد لبرل ممالک خود جس طرح ملازمتوں اور دیگر مراعات پر کٹوتیاں لگا کر فلاحی ریاست کے تصور کو کچل رہے ہیں وہ اس بات کا کھلا اظہار ہے کہ ان کے پاس محنت کشوں کی مراعات اور ملازمتوں پر محض کٹس لگانے کے کوئی دیگر راستہ ہے ہی نہیں۔ کیا سرمایہ داری واقعی اُن انسانی آزادیوں کی ضامن ہے جس کی کہ وہ دعویدار تھی۔ اگر ان تمام باتوں کا جواب نفی میں ہے ۔ تو ہمیں یہ کہہ لینے دیجیئے کہ مارکس کے نظریات کو ابھی کوئی ہلابھی نہیں سکتا۔

2 Comments