شہر مقتل سے صدا ۔۔۔۔ٹیک کئیر

dr-Barkat--267x300

ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ

کوئٹہ میں کل کے واقعے نے یوں تو عالمی سطح پر کھلبلی مچا دی۔ بانکی مون سے لے کر عبداللہ عبداللہ تک سب نے لے دے کر ایک ہی فارمیٹ میں اس سنگدلی پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ نجی اور ریاستی میڈیا نے ملکی سطح پر جو ہیجان آمیزی تخلیق کی اس کا بھی جواب نہیں، پل پل ایک ایک دم توڑتے ہوئے شخص کی خبر رکھی، شہدا کی آخری لمحات میں آہ و بکا ااور کلمہ طیبہ کا ورد کراتے ہوئے سنایا گیا اور ساتھ میں یہ عندیہ دے دیتے کہ خواتین، کمزور دل والے حضرات اور بچے آہ وبکا سے ممکنہ طور پر ہونے والی نفسیاتی اثرات سے خود کو بچائیں۔

ادھر بلوچستان حکومت کے ترجمان اور وزیر داخلہ آپے سے باہر ہوئے جا رہے تھے، انڈیا اور افغانستان کو للکار رہے تھے، لگتا تھا نسیم حجازی کے ناولوں کے مہان کردار شطرنج کی بساط پر ایک مرتبہ پھر عود آئے ہوں ۔ کیا جلالی انداز تھا ، ذمے داری ایک دم فکس کرادی، خود کو پل بھر میں بری الذمہ کرالیا، اوپر سے ٹی وی چینل کے اینکرز اور اینکرنیاں یہ جرح کرنے کی زحمت نہیں کرتیں کہ ہندوستان کا تو بارڈر ملتا ہے لاہور سے، جس وقت لوگ کوئٹہ اور پشاور میں لاشیں اٹھا رہے ہوتے ہیں اس وقت لاہور میں کہیں فیشن شو ہو رہا ہوتا ہےِ، کہیں آرٹ گیلری میں نمائشیں ،کہیں کراس بارڈر کبڈی اور امن کی آشا کھیلی جارہی ہوتی ہے۔

یہاں پر یہ سوال نہیں کیا جاتا کہ اس سانحے سے متعلق ہماری سیکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس کی ناکامی کو ہم کیا جواز دیتے ہیں؟ اتنے بڑے پیمانے پر تباہ کاری کا منصوبہ کیوںکر ممکن ہو سکا۔ جب اس منصوبے پر کام ہورہاتھا اس وقت وہ کونسے کار خیر میں مصروف تھے ؟

اگر انکو صرف وی آئی پیز کی خیر مطلوب ہے تو ان اداروں کو وی آئی پیز سے تنخواہ و مراعات وصول کرنی چاہیے، عوام کے ادا کردہ ٹیکس پر انکا کوئی حق نہیں بنتا۔ویسے بھی اب شہر کوئٹہ میں سیکورٹی سے لیکر ٹریفک تک کا کام ایف سی کے اہلکاروں نے سنبھال لیا ہے ۔ وہ ہمہ تن ڈبل سواری کے عظیم مقصد سے نمٹ رہے ہیں کہ منکرین سنگل سواری کی گوشمالی بھی تو قومی مفادات کےزمرے میں آتا ہے اور جس پل یہ سانحہ ہوا ایف سی کی بڑی تعداد وہ بلوچستان یونیورسٹی میں ایک ملکی سطح کی بک فئیر کرا رہی تھی، طلبا و طالبات کے درمیان ذہانت اور یادداشت مضبوط کرانے کیلئے انتظام و انصرام کرا رہی تھی، ۔۔ اب انٹیلیجنس کی ناکامی کا کیا کیا جائے، لگتا ہے یہی شعبہ بھی انکو سنبھالنا پڑے گا۔

جب شہر میں قیامت صغریٰ کا منظر برپاتھا، لوگ اپنے پیاروں کے لاشوں کے منتشر اعضا ڈھونڈ رہے تھے ، شہر کی تمام شاہراہیں بند ہو گئیں، خبر پہنچی کہ اوپر سے جنرل راحیل شریف اور نوازشریف یکے بعد دیگرے کوئٹہ آ ئیں گے۔ جو جہاں تھا وہیں بیٹھ گیا، مجال ہے اڑتی چڑیا بھی پر مار سکے، گورنر ہاوس اور سول ہسپتال جس کے گردپورا شہر گھومتا ہے ، کی تمام تر شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں، ہزاروں گاڑیاں اور انکے چلانے والے باہم گتھم گتھا تھے، کسی کو ہسپتال جانا تھا تو کسی نے بچوں کو سکول سے لینا تھا، المختصر بے اعتدالی، غصے اور اشتعال سے بھپری ہوئی رعایا موٹی موٹی گالیاں رہی تھی۔جس کا بارہا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ۔۔۔کریدتے ہیں جو اب راکھ جستجو کیا ہے، یا بڑی دیر کی مہربان آتے آتے۔۔۔۔

گھر جانے کی کوئی امید نہ پاکر ہم اس صورتحال میں اپنے دوست کے ساتھ ان کے دفتر میں محصور ہوکر رہ گئے تھے۔ ٹی وی چینل مستعدی سے نمک پاشی کئے جا رہے تھے ، واٹس اپ اور فیس بک پر سینکڑوں دوست سہمے سہمے اور غیر سیاسی پیغام رسانی کر رہے تھے، دلخراش تصاویر کا تبادلہ ہو رہا تھا۔ لے دے کر صبر جمیل پر ہی بات ختم کردیتے تھے، جو دوست کوئٹہ سے بہت دور ، اسلام آباد میں رہتے ہیں وہ ناصحانہ رائے دیتے کہ ٹیک کئیر ۔۔

ٹیک کئیر کا ہم کیا کرتے کہ یہ ایک ایسا صیغہ ہے جو شاید ابھی تک بلوچستان اور دیگر روایتی معاشروں کے لسانی لاشعور سے مطابقت نہیں رکھتا۔ کیوں کہ اس میں صرف فرد واحد کو خیال رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے، لیکن روایتی قبائلی معاشرے میں ایک (فردسب کیلئے اور سب (اجتماعایک کی زندگیِ، انا اور حقوق کیلئے لڑتے ہیں ،اور شاید یہی وجہ ہے کہ کوئٹہ، پشاور، فاٹا، افغانستان، یمن، اور دیگر قبائلی معاشرےجنگ میں دھنستی چلی جارہی ہے، کہ یہاں لوگوں کو ٹیک کئیر نہیں آتا۔

اس صورت حال میں سول سوسائٹی اور خصوصاً مقتدرہ سیاسی تنظیموں نے حد درجے کی سادہ لوحی یا سطحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ اور وفاق میں اکلوتے بلوچستانی وزیر حاصل بزنجو نے دھڑام سے ذمہ داری بارڈر سے اس بار فکس کرادی۔انکے اتحادی جو فی الوقت کوئٹہ کے تمام قومی، صوبائی اور بلدیاتی اداروں کی نمائندگی کر ر ہے ہیں سرے سے نظر نہیں آرہے۔ جمہوریت اور وفاقیت کی علامت سمجھے جانے والے فرد جو سامراجیت کے نئےاسالیب اور جمہوریت کے اصل روح پر بھاشن دیتے تھے، جو اسامریوں کی ریاکاری اور گمراہی سے پردہ اٹھاتے اور جن کی ایک ایک بات دم عیسیٰ کی مانند اثر کر جاتی، وہ ان حالات میں خود ہی پردہ نشین ہو گئے ہیں۔ انکی شعلہ نوائی خاندانی مفادات کی بھینٹ چھڑ گئی ہے یا کوئی اور معاملہ ہے اسکا کوئی سرا مل نہیں پارہا۔

ان حالات میں جب راکھ اور خس و خشاک ہی رہ گئے ہوں ، خیال رکھا بھی جائے تو کس چیز کا ، یہاں تو حسرت تعمیر بھی نہیں ، سی پیک سے کوئٹہ اور شمالی بلوچستان کا کیا واسطہ، یہ تو ماسٹر پلان کا حصہ ہی نہیں بلکہ یہ بشمول دیگر پشتون علاقوں کے وہ خطہ زمین ہے جہاں عالمی دہشت گردی کے ساہوکار وں نے گلیڈئیٹرز پیدا کرنے ہیں، یہاں پر مذہب فروشوں نے لاکھوں سربقف فرزندان اسلام تیا ر کرنے ہیں ، کہ زاہد حامدوں ، اوریاوں ، شیخ رشیدوں نے اسے اکیسویں صدی کا دارالسلام اسی خطے کوٹھہرایا ہے ۔اب دارالسلام معاشی خودکفالتِ، لبرل سرمایہ دارانہ جمہوری روایات، سیکولرزم، مخلوط تعلیم، فحاشی و عریانی پر مبنی فیشن شوز، کفار عالم کے ساتھ تجارتی ، ثقافتی اور تہذیبی رشتے رکھنے کا متحمل تو نہیں ہو سکتا۔

اس لئے یہاں پر سول سوسائٹی کے فعال سماجی ورکرز، قانونی ماہرین اور تنقیدی شعور پھیلانے والے سیاستدانوں کی کوئی جگہ بن ہی نہیں سکتی۔اگر کوئی ایسی کھیپ تیار ہو بھی جائے تو ان کو لوح جہان سے مٹانے میں کیا تردد ہو سکتا ہے، کہ یہ حرف مکرر کی مانند زندگی کی قرطاس پر واپس نہیں آنے والے اور جو دور سے روشنی کے ان میناروں کو دیکھ رہے تھے ، انکے بھی قدم رک جائیں گے، ہو سکتا ہے وہ ٹیک کئیر کے اصلی مفہوم سے روشناس ہو جائیں۔

One Comment