زہر آلود تعلیم و تربیت یا اتھارٹی کا بول بالا

سبط حسن

104562670


آج سے آٹھ برس پہلے علیم چار سال کا تھا۔ ایک دِن ٹمٹمانے والے گیند کو لینے کی ضد کر بیٹھا۔ سب نے کہا، کل لے دیں گے مگر وہ ایسا ہٹیلا تھا کہ کسی کی نہ مانی۔ ماں باپ کی پہلی اولاد اور دادی کی آنکھ کا تارا۔۔۔ ایسے بچے بگڑہی جاتے ہیں۔ اس دِن وہ واویلا مچایا کہ دادی کے حوصلے نے شکست مان لی۔ اس نے پہلے تو ایک لگا دی اور پھر علیم کے چچا سے کہا کہ جاؤ، اسے غسل خانے میں بند کردو۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بازو سے گھسیٹا اور چھوٹے سے اندھیرے غسل خانے میں پھینک دروازہ بند کردیا۔ ماں کا دل دہل گیا۔ علیم کو غسل خانے میں چند سیکنڈ سے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا، دوڑی اور اسے غسل خانے سے باہر نکل لائی۔

علیم کا پورا جسم ہولے ہولے کپکپا رہا تھا۔۔۔ جیسے شدید بخار ہو اور وہ سانس بھی کھینچ کے لے رہا تھا۔ آنکھوں میں اندوہ اور سکتہ تھا۔ علیم دو دن اسی اندوہ اور سکتے میں رہا۔ تیسرے دن بولنے کی کوشش کی۔ بولا نہیں گیا، زبان میں کپکپاہٹ تھی۔ الفاظ مربوط نہیں ہورہے تھے۔ الفاظ نے علیم کی بات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ گھر والوں نے سوچا، جلد ٹھیک ہوجائے گا۔ سب اس کے صدقے واری ہورہے تھے۔ مگر علیم کا گھر والوں پر اعتبار ختم ہوچکا تھا۔ وہ آج آٹھ سالوں کے بعد بھی تتلاہٹ کا شکار ہے۔ ایک توتلا بچہ لوگوں کے مذاق اڑانے کے باعث سماجی بھروسہ کھوچکا ہے۔ وہ بہت اچھا لکھ لیتا ہے مگر بول چال نہ ہونے کے باعث سیکھنے کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ غسل خانے میں بند ہوجانے کا تجربہ اتنا ہولناک تھا کہ اس کے دماغ میں بول چال کو قابو میں رکھنے والے نیورون کا توازن بگڑ گیا ہے۔

جس ماں نے اپنے بچے کا یہ قصہ سنایا وہ مسلسل رورہی تھی۔ ماں کا کہنا ہے کہ اس نے گذشتہ آٹھ برسوں میں شاید ہزاروں دفعہ یہ قصہ ڈاکٹروں، عزیزوں اور استادوں کو سنایا۔ وہ ہزاروں دفعہ یہ قصہ سناتے وقت ایک جیسے درد کے ساتھ روئی۔ اسے ہزاروں دفعہ سنانے کے باوجود بھی یہ غم ہراہی لگتا ہے۔ شاید علیم کے بولنے اور اسے اپنی ماں منوانے تک وہ روتی رہے گی۔۔۔ شاید عمر بھر۔۔۔!!

II

یہ نہیں کہ دادی کو اس کے اس طرح کرنے کا دُکھ نہیں۔۔۔ دکھ تو ہے مگر ایک بڑا المیہ وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ شاید علیم کی ساری زندگی اس چند سیکنڈ کے واقعے کی وجہ سے ادھوری رہ جائے گی ۔ یہ معمولی دکھ نہیں۔ اصل معاملہ وہ رویے ہیں جن کے باعث ایسے المیے برابر وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ سونے کی وقعت کا اندازہ، اس کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے اقدام سے لگایا جاسکتا ہے۔ بچوں کی ہمارے نزدیک جو وقعت ہے، اس کا اندازہ ان کے تحفظ کے لئے اٹھائے گئے۔ اقدامات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بچوں کو جسمانی سطح پر تو شاید تحفظ حاصل ہوگا۔ والدین ان کا پیٹ بھرنے کے لئے غیر معمولی اقدامات کرتے ہیں۔ مگر یہ بات ابھی تک قبولیت نہیں پاسکی کہ بچہ ایک نفسیاتی اکائی بھی ہے۔ اس کے جذبات کا بہاؤ، اس کی دیگر تمام سرگرمیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔

گھر ہوں یا سکول، دونوں جگہوں پر اس کے بچپنے کو سمجھنے کی بجائے ایک بیہودہ روایتی اور اذیت ناک جبر کے ماحول میں اس کی پرورش کی جاتی ہے۔ گھر ہو یا سکول دونوں اداروں میں بچہ جو رویہ بدرجہ اتم سیکھتا ہے وہ جبر کے ماحول میں زندہ رہنا ہے۔

جس کام یا سرگرمی کو کرنے کے دوران آپ کی مرضی اور رضا شامل نہ ہو، وہ کرتے ہوئے آپ کو دقت اور بوجھ کا احساس ہوگا۔ سکولوں میں کبھی بچوں کی مرضی کو سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالانکہ سکھانے کی ایک حکمت عملی کے تحت اگر سیکھنے کے عمل میں بچوں کی صلاح اور مشورہ شامل کرلیا جائے تو بچے اس عمل کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں۔ ان کو سیکھنے میں لطف آئے گا۔ اس حکمت عملی کو سیکھنے کا تعمیراتی عمل
(Constructiveist Approach of Learning)
کہتے ہیں۔ اس طرح لطف اور شراکت داری سے قطع نظر جو تعلیمی عمل سکولوں میں جاری وساری ہے، اس کا منتہا دراصل بچوں کو ایک ناپسندیدہ صورتحال میں زندہ رہنے کا عمل سکھانا ہے ۔ اس صورتحال میں جگہ جگہ پھٹکاریں ہوں گی۔ بدتمیزی ہوگی۔ سزائیں اور سزائیں برداشت کرنے کی ذلتیں۔۔۔ بے توقیری او ربے وقعت ذات کی شناخت اور اعتراف ہوگا۔
بچے کو خود مختار انسان بنانے کے لئے جو اوصاف اور رویے بچے میں فطری طور پر موجود ہوتے ہیں، ان کو کچل کر، ان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو ذلت کی ندی میں بہا دیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ سوال کرنے، جستجو کرنے، مفروضہ بنانے اور سب سے بڑھ کر تخیل کرنے کی صلاحیتیں قدرت نے فطری طور پر بچے میں پیدا کی ہیں۔ انہی کی بدولت ایک جاندار انسان بنتا ہے۔ یعنی یہ کہ قدرت کی ترکیب میں، انسان ہونے کے لئے یہ صلاحیتیں سلب کردی جاتی ہیں تو ایک جاندار کے انسان ہونے کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں۔ وہ لطف، اور سوال وجستجو سے محروم ہوجاتا ہے۔ البتہ وہ تین باتیں ضرور سیکھتا ہے:۔

۔1۔جبر کی صورتحال میں زندگی بسر کرنا۔
۔2۔سکول یا گھر میں جبر کرنے والے باپ یا استاد کی حیثیت سے متاثر ہونا۔
۔3۔زندگی میں باپ یا استاد جیسی حاکمیت والی حیثیت حاصل کرنے کو اپنا منتہا بنانا۔

یعنی یہ کہ انسان بننے کا عمل شروع بھی نہ ہو سکا اور ایسا کرنے کے لئے ضروری کمک(سوال وجستجو کی صلاحیت) کہیں دور کھوگئی۔ اب زندگی کا جوہر یہ رہ گیا کہ اتھارٹی میں ہی راہ نجات ہے کیونکہ باپ اور استاد کی اتھارٹی کا شکار بننے کے تجربے سے یہی سیکھا گیا تھا کہ جولوگ اتھارٹی میں ہوتے ہیں، وہی اپنی مرضی سے ایک دنیا بناسکتے ہیں۔ دیگر کے لئے صرف ذلت ہی ذلت ہے۔

III

اتھارٹی کی صورتحال میں تعلق یا رشتے سرے سے پیدا نہیں ہوتے۔ اس صورتحال میں شامل عناصر دراصل اتھارٹی کے شکارہوتے ہیں۔ چونکہ یہ صورتحال غیر انسانی ہوتی ہے، اس لئے اس صورتحال میں سب لوگ خواہ وہ آقا کی حیثیت میں ہوں یا غلام کے درجے پر ہوں، ایک دوسرے کو کھا رہے ہوتے ہیں۔ غیر انسانی اس لئے کہ اس صورتحال میں انسانی جوہر اور انسانیت کو طاقت دینے والے عناصر کی نمو ممکن نہیں ہوتی۔

اتھارٹی کی صورتحال میں آقا، کچھ آداب ورسوم کی بجا آوری کو اپنی اتھارٹی کی بقا کے لئے ضروری سمجھتا ہے۔ مثال کے طور پر نوکر شاہی کے ماحول میں ان کے کمرے میں آنے، بیٹھنے، بولنے اور اسی طرح ’’احترام‘‘ ظاہر کرنے کے کچھ آداب ہیں۔ ان کی غلامانہ عمل پیروی کا مطلب یہ ہے کہ افسر کی اتھارٹی بر قرار ہے۔ ذرا بھر روگردانی ہوگئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اتھارٹی کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ افسر تلملااٹھے گا۔ رسوم وآداب کی یہ عمل گزاری، رسم سے بھی کم درجہ حیثیت رکھتی ہے اور یہ اس’’اتھارٹی کو برقرار رکھنے کے لئے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اتھارٹی کے تحت تعلق یا بھروسہ تو بہت دور کی بات ہے، اسے بھونڈا واسطہ کہنا ہی مناسب ہوگا۔۔۔ بے معنی، لغواور پاخانے کی طرح تلف کردینے کے لائق۔ بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ اتھارٹی کی جگہ پر بیٹھے شخص کی جان انہی رسوم وآداب پر ہوتی ہے۔ یعنی وہ ان کا محتاج ہوتا ہے۔۔۔ اس کی زیست کی رمک اس کے اندر نہیں بلکہ اس کا ’’شکار بننے والوں‘ کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔اس کی دنیا کس قدر لغو ہوتی ہے کہ ذراسی بے قاعدگی کے باعث وہ لرز اٹھتا ہے۔

مثال کے طور پر افسروں کی فطرت میں ایک بات اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ان کے اوپر اتھارٹی کی سیڑھیوں میں وہ حاضر اور ہر وقت جلوہ گر رہیں۔ اس کی نشاندہی یہ ہوتی ہے کہ اعلیٰ افسران سے ان کا رابطہ رہے۔ ان سے متعلقہ افراد سے رابطہ رہے۔ ایسی جگہوں پر ان کی تقرری ہو، جہاں ان کی دسترس اعلیٰ حکام سے ممکن ہو۔’’منسلک رہنے‘‘ کی اس خواہش کی نشاندہی اس بات سے ہوتی ہے کہ ان کا فون ہر وقت بجتا رہے۔ یقین مانئے، اتھارٹی کے ان بندروں کا فون چند گھنٹوں کے لئے بند کردیں، ان کی دماغ کی شریان پھٹ جائے گی کہ شاید وہ اتھارٹی کے گھن چکر سے غیر منسلک ہوگئے ہیں۔

اتھارٹی کا ماحول اور اس کو قائم وبرقرار رکھنے والے عناصر سوال جستجو سے عاری ایک’’زندگی نما ماحول‘‘ میں رہتے ہیں۔علم دشمنی اور اس لحاظ سے زندگی سے بیر، وہ سکول اور گھر کے ماحول سے سیکھتے ہیں۔ اس طرح اس اہم محرومی کو اتھارٹی کی مدد سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علم والوں سے انہیں خاص کدورت ہوتی ہے۔

اتھارٹی کی خواہش دراصل اس معذوری میں ہے، جو سوال وجستجو کے نہ ہونے کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ سوا ل و جستجو کے باعث زندگی سے تعلق پیدا ہوتا ہے اور زندگی سے تعلق کے باعث ہی انسان جلوہ گر ہوتا ہے۔ ایسے انسان کی زیست خود مختاری اور خود انحصاری پر منحصر ہوتی ہے۔ وہ اپنے بہت اندر سے بہت طاقتور ہوتا ہے۔ اس کی اس قوت کا سرچشمہ باہر نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس اتھارٹی کا متلاشی فرد، اپنی ذات کے بہت اندر گہرائی میں معذور ہوتا ہے۔ اسے ہر وقت اپنی ذات کو زندہ رکھنے کے لئے خارجی کمک کی ضرورت رہتی ہے۔ اسی طرح جیسے پرانے زمانے کی گھڑیوں کو چلتے رہنے کے لئے چابی بھرنے کی ضرورت ہوتی تھی یا اس بندر کے کھلونے کی طرح جسے جب چابی بھردیں تو وہ الٹ بازیاں لگانا شروع کردیتا ہے۔

آج اور آنے والی زندگی گذشتہ سالوں کی زندگی سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ پرانے زمانوں میں ہمارے باپ دادا صرف چند مہارتوں پر زندگی گزار دیتے تھے۔ مثال کے طور پر کاشتکار کا بیٹا کاشتکاری ہی کرتا تھا۔ اس کو زندگی گزارنے کے لئے چند مہارتیں ہی سیکھتا پڑتی تھیں جو کامیاب کاشتکاری کے لئے کافی تھیں۔ آپسی تعلقات میں تمام معاملات روایت کی صورت میں طے تھے اور ان پر بغیر سوچے سمجھے عمل کیا جاسکتا تھا۔ سوال وجستجو کی چنداں ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی۔ لوگ اتھارٹی کے اجتماعی ماحول میں ڈنگروں کی طرح زندگیاں گزارجاتے تھے۔

اب ماحول کچھ ایسا ہے کہ انسان بنے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ زندگی میں پیچیدگیاں بھی ہیں اور سوال وجستجو کے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا ہے سوال وجستجو کی اس فضامیں جزیرے بناکر فرار کی راہ تلاش کرلیں۔ جیسا کہ مختلف نام نہاد مذہبی اور غیرمذہبی سرگرمیوں میں نظر آتا ہے۔ یا یہ کہ ایسے علوم سیکھ لیں جو سوال وجستجو پر اساس رکھتے ہوں اور اپنی زندگیوں کی ترجیحات کو بدستور سوال وجستجو سے مستثنیٰ قرار دے دیں۔ ایسا ممکن نہیں۔ انسان کی جلوہ گری مکمل صورت میں ممکن ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کا اوپر والادھڑانسانوں جیسا ہو اور نچلادھڑکسی جانور جیسا۔۔۔

One Comment