چاکر خان بلوچ
گذشتہ دنوں 8، اگست کو کوئٹہ میں سول ہسپتال میں ہونے والے انتہائی خوفناک بم دھماکے اور اس کے نتیجے میں وکلاء کی بھاری اکثریت سمیت درجنوں افراد کے لقمہ اجل بننے اور ایک سوسے زائد زخمی ہونے کے انتہائی قابل مذمت المناک سانحہ نے پورے بلوچستان کو رنج و غم میں ڈبو دیا ہے وہاں کئی پرانے سوالوں کو ایک بار پھر شدت سے سامنے بھی لایا جا رہا ہے ، جن میں سر فہرست یہ کہ کیا خطے اور مشرق وسطیٰ سمیت دنیا میں سامراجی مقاصد کی حامل جس جنگ و جدل کا دور دورہ ہے اس میں بلوچستان بھی لپیٹ میں آچکا ہے؟ یا پھر یہ حکمران قوتوں کی منفی و عوام دشمن رجعتی اور مفاداتی پالیسیوں کی شکل میں بوئی ہوئی وہ فصل ہے جو آج مذہبی و فرقہ وارانہ بنیادوں پر جاری انتہا پسندی و دہشتگردی کی صورت میں کاٹنی پڑ رہی ہے؟
حالات اور واقعات کا اگر جائزہ لیا جائے تو پس پردہ محرکات میں دونوں عناصر کارفرما نظر آتے ہیں، کوئٹہ کے اس سانحہ پر حکومتی ، سیاسی ومذہبی اور میڈیا کے حلقوں میں شامل ایک اکثریتی حصہ بھارت کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے، ان حلقوں کے مطابق اس حملے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ملوث ہے ، جو سی پیک یا چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے یہاں سر گرم ہے ، بعض حلقے اسے افغانستان میں جاری مذہبی انتہا پسندی کی خونی کھیل کا حصہ مان کر بلوچستان منتقلی کاایک نیا گیم قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والی مذہبی فرقہ وارانہ کالعدم تنظیم الاحرار اور داعش خراسان اس خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں ۔
داعش خراسان نے اپنے خود کش بمبارمعاویہ الخراسانی کی ویڈیو بھی جاری کردی جس میں اس نے موقف اپنایا کہ اس نے پاکستانی عدلیہ کو نشانہ بنایا۔ الاحرار وکیل رہنما اور بار کے صدر بلال انور کا سی ایڈوکیٹ کو قتل کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کر چکی ہے ، کالعدم الاحرار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس گروہ نے تحریک طالبان پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد داعش کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور امریکہ نے کالعدم الاحرار کو حال ہی میں دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔
اس حوالے سے بعض انسان دوست اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکمران لاکھ انکار کریں لیکن اس حقیقت کو نہیں چھپایا جا سکتا کہ داعش بلوچستان سمیت پاکستان میں داخل ہو چکی ہے ، جو مختلف مذہبی و فرقہ وارانہ شدت پسند گروپوں کی شکل میں یہاں اپنے قدموں کو مضبوطی سے جما چکی ہے ، اور اپنے وجود کا اظہار وہ کراچی میں سانحہ صفورا گوٹھ سمیت مختلف واقعات کی صورت میں کئی بار کر چکی ہے ۔بلوچستان میں میں مذہبی فرقہ وارانہ شدت پسندی کے پھیلاؤ داخلی اور خارجی حکمران پالیسیوں کا نتیجہ ہے ، بلوچستان کو مذہبی شدت پسندی کے ابھار کی سزا اس کی خطے میں انتہائی جغرافیائی اہمیت اور یہاں جاری بلوچ حریت پسندانہ انقلابی جدوجہد کے جرم میں دی جا رہی ہے۔
کیونکہ اس امر سے انکار ممکن نہیں ہے کہ بلوچستان خطے کی سیاست و معیشت اور علاقائی وعالمی طاقتوں کے درمیان جاری کشمکش میں گیم چینجر کی حیثیت اختیار کر گیا ہے ، جس کے باعث علاقائی وعالمی سامراجی طاقتوں کیلئے بلوچستان پر اپنا کنٹرول قائم کرنا یا اس سر زمین پر اپنے حریفوں کی گرفت کو کمزور بنانا لازمی ہو گیا ہے ۔ بلوچستان کو بیرونی سامراجی قوتوں کی حریفانہ کشمکش اور حلیفانہ سرگرمیوں کا مرکز بنانے میں پاکستانی حکمران طبقے کا کلیدی کردار ہے ، جس نے اپنے مخصوص ذاتی و گروہی مفادات کیلئے عالمی طاقتوں کو بلوچستان میں اپنا کھیل کھیلنے کی نہ صرف کھلی چھوٹ دی بلکہ اس کیلئے اپنی بھر پور خدمات بھی پیش کیں ، جس کا آغاز تقریبا قیام پاکستان سے ہی ہو چکا تھا ، جو سرد جنگ کے زمانے میں اپنے عروج پر تھا ۔
تاہم افغان جہاد کے نام پر مذہبی بنیاد پرستی،انتہا پسندی و عسکریت پسندی کو تیزی سے پھیلایا گیا جس کا ایک اہم مرکز بلوچستان کو بنایا گیا ، جہاں ایک مخصوص وہابی یادیو بندی فرقہ وارانہ نظریے پر قائم مدارس کو تیزی سے فروغ دیا گیا اور ان مدارس میں انتہا پسندانہ جہادی تعلیم دی گئی ، جس کے نتیجے میں یہ مدارس پر امن انسان دوست دینی علوم کی فراہمی کی بجائے سامراجی مقاصد کی حامل جہادی نرسریوں میں بدل گئے۔ ’’جہادیوں‘‘کو پروان چڑھانے کا مقصد نہ صرف افغانستان سمیت خطے میں مغربی سامراجی طاقتوں اور حکمرانوں کے مخصوص مفادات کے تحفظ کیلئے پراکسی وار لڑنا تھا بلکہ داخلی طور پر ترقی پسند سامراج دشمن حریت پسند قومی و طبقاتی انقلابی تحریکات کو سبوتاژ کرنا بھی مقصود تھا۔
ان حریت پسند انقلابی تحریکات کی راہ میں داخلی سماجی رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے مذہبی و فرقہ وارانہ جہادی کلچر کو بلوچستان میں پھیلانے کیلئے ہر قسم کے وسائل اور ذرائع بروئے کار لائے گئے، سرد جنگ کے زمانے میں جہادی کلچر کو پھیلانے میں مغربی سامراجی طاقتیں اور ان کے عرب حکمران اتحادی پاکستانی اہم قوتوں کے شانہ بشانہ اور پشت بان رہے لیکن سوویت یونین کی تحلیل اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستانی حکمرانوں اور امریکہ سمیت مغربی طاقتوں کے مفاداتی راستے نہ صرف الگ ہو گئے بلکہ اپنی سمت کے اعتبار سے یہ باہم متضاد و متصادم بھی ثابت ہوئے۔
نئے تغیر پذیر حالات میں مذہبی انتہا پسندی کی جگہ سامراجی مفادات کے حصول کیلئے امریکہ سمیت مغرب کو محدود سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ضرورت پیش آئی ، جس کیلئے مغربی وسائل اور پشت پناہی کے ذریعے پراکسی وار کی نئی قوتوں اور طریقہ کار کو متعارف کرایا گیا، مگر پاکستانی حکمرانوں نے ماضی کی ڈگر پر چلنا پسند کیا، بجائے اس کے کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے پیش نظر مذہبی و فرقہ وارانہ انتہا پسند قو توں سے پیچھا چھڑا تے ہو ئے ان کی معاشرے سے مکمل بیخ کنی کیلئے وا ضح پا لیسی و حکمت وعملی اختیار کی جا تی ،اس کے بر عکس اچھے اور برے کی تمیزمتعارف کراتے ہو ئے ان شدت پسندوں کی سر گر میوں سے آ نکھیں بند کر لی گئیں جو پا کستانی حکمران طبقے کے مفا دا تی فریم میں سما سکتے تھے۔
اہم قو تیں ’’اچھے اور ماڈریٹ ‘‘ فر قہ وارا نہ مذہبی شدت پسندوں کی پشت پنا ہی سے کئی مقا صد حاصل کر نا چا ہتی ہیں ،ایک طر ف وہ اپنے خار جی حریفوں کو دبا و میں رکھنے اور وہاں اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتی ہیں تو دوسری طرف داخلی سطح پر قومی سوال کے گرد ابھرنے والی تحریکات کے متاثرہ خطوں کو خانہ جنگی و اندرونی خلفشار کا شکار کرنا چاہتی ہیں ، صرف یہی ہی نہیں بلکہ تحریکوں کی قیادت و کارکنوں کو ان انتہا پسندوں کے ذریعے نشانہ بنانا بھی مقصود ہے، اس ضمن میں بلوچستان سر فہرست ہے، جس کا اظہار انسانی حقوق کی ایک پاکستانی تنظیم کی قیادت کافی عرصہ پہلے کر چکی ہے۔
اس تنظیم کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں منظم انداز میں مذہبی و فرقہ وارانہ شدت پسندی کو فروغ دیا جا رہا ہے ، جس کا مقصد یہاں قوم پرستانہ و ترقی پسند سیاسی رحجانات اور تحریک کو کاؤنٹر کرنا ہے ۔ اسی نوعیت کے تبصرے وتجزیے دیگر سیاسی و سماجی اور صحافتی حلقوں کی جانب سے بھی سامنے آتے رہے ہیں ،ان حلقوں کے مطابق بلوچ جدوجہد کو ریاستی طاقت کے ذریعے دبانے یا کچلنے میں ناکامی کے بعد لڑاؤ پھوٹ ڈالو کے حربے مختلف اشکال میں آزمائے جا رہے ہیں ، تاکہ ہاتھ سے نکلے ہوئے بلوچستان کو پھر مٹھی میں بند کر کے قابو کیا جائے ۔
اس مقصد میں انہیں کسی حد تک کامیابی تو ملی ہے ، مگر اس سے پیدا ہونے والے خلفشار اور پیچیدگیوں کے منفی اثرات سے حکمران قوتوں کی منصوبہ بندی اور مفادات بھی محفوظ نہیں رہ سکے ہیں ، کیونکہ بالادست طبقے نے اچھے اور برے کی تمیز کی پالیسی کے باعث بعض ’’برے‘‘ جو انکے ماتحت نہ تھے مذہبی شدت پسند گروہوں کیخلاف کارروائی تو کی ہے لیکن ’’اچھے‘‘ شدت پسندوں کی سماج میں ذہنی و نظریاتی قبولیت کیلئے مذہبی و فرقہ وارانہ انتہا پسند رحجانات کے خاتمے کی بجائے ان کی آبیاری کے عمل کو جاری رکھا ہے ، جس کے نتیجے میں نہ صرف ’’اچھے‘‘بلکہ ’’برے‘‘مذہبی انتہا پسندوں کو سماج میں اپنی بنیادیں استوار کرنے اور پھیلانے کے بھر پور مواقع حاصل ہو رہے ہیں ۔
اس کیفیت کے پیش نظر لوگ حکمرانوں اور ان کے حواریوں کے اس پروپیگنڈے کو حقائق کی درست عکاسی تسلیم نہیں کرتے جس میں بلوچستان میں حالیہ سانحہ سول ہسپتال کوئٹہ سمیت مذہبی عسکریت پسندی و دہشتگردی کے واقعات کے ذمہ داروں کے تعین میں سارا ملبہ محض بھارت سمیت بیرونی طاقتوں پر ڈالا جا رہا ہے، حکمرانوں کے اب تک کے فکروعمل کا بلوچ سمیت سندھی، وپختون بھی شکار ہیں پختونوں کی کئی نسلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
مگر آج بلوچ انقلابی دور میں جس کا سب سے زیادہ خمیازہ بلوچستان کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے،یہ امر بھی اپنی جگہ درست ہے کہ مذہبی شدت پسندوں کے تمام اچھے اور برے گروہ پراکسی جنگ کے کل پرزے ہیں ، جو خطے میں اپنی پشت بان علاقائی و عالمی طاقتوں کے مفادات کے حصول و تحفظ کیلئے بلوچستان کو خون میں ڈبو رہے ہیں ، اور یہاں جاری جنگ کے ڈانڈے مشرق وسطیٰ سمیت مغربی ، وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں مختلف طاقتوں کے درمیان باہمی تصادم و ٹکراؤ سے ملا رہے ہیں ، جو اپنے مفادات اور حلیفوں کو محفوظ بنانے حریفوں کے پاؤں اکھاڑنے یا ان کے مفادات کو زک پہنچانے کیلئے سفاکیت اور وحشت کی ہر حد پار کر رہی ہیں ،جس کے باعث مشرق وسطیٰ میں جاری جنگ پھیلتے ہوئے بلوچستان میں بھی داخل ہو گئی ہے ، جہاں صرف عرب و فارس ہی نہیں بلکہ مشرق و مغرب کی طاقتیں بھی خطے پر تسلط کیلئے بلوچستان کو لانچنگ پیڈ اور ایک اہم اور موثر اسٹریٹجک اڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں ۔
ایسی صورت میں اب سوال یہ نہیں ہے کہ کیا بلوچستان علاقائی و عالمی جنگ کا میدان بن گیا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ بلوچستان کو اہم قوتوں سمیت علاقائی و عالمی سامراجی طاقتوں کی پھیلائی جنگ سے کیسے محفوظ رکھتے ہوئے اس دلدل سے نکالا جائے ، اس ضمن میں مذہبی شدت پسند ی اور سامراجی طاقتوں کی یلغار جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں کا مقابلہ تب ہی ممکن ہے جب یہاں ترقی پسند روشن خیال اور سامراج دشمن حریت پسندانہ انقلابی نظریات وسیاست کو پروان چڑھا یا جائے اور بلوچ سماج کو ہر قسم کے بیرونی جبرواستبداد اور تسلط سے مکمل طور پر نجات دلائی جائے۔
بصورت دیگر آج وکلاء جیسے سماج کے پڑھے لکھے با شعور طبقے کو بھینٹ چڑھایا گیا ہے، ویسے تو بلوچ نسل کشی قبضہ کے روز سے جاری ہے، مگر بی این ایم کے چیئرمین غلام محمد و ساتھیوں کی شہادت کے بعد تیزی آئی اورریاستی فورسز کے ہاتھوں آئے روز کوئی نہ کوئی بلوچ مارا جاتا ہے مگر ایسے واقعات سامنے نہیں آپاتے جو خود فوج انسانی حقوق کی پامالیاں کر رہی ہے،ایسے میں مذہبی شدت پسندانہ عناصر سے کام لے کر بلوچستان میں ایسے واقعات دراصل نہ صرف خوف کا ماحول بلکہ پڑھے لکھے طبقے کو مٹا کر اپنے ایسی عمل کو آزادی پسند انقلابیوں پہ ڈالنا اور انڈیا کے نام بیان دے کر خاموش نفرت انقلابیوں کے لیے پیدا کرنا پروپیگنڈہ و حریت پسند بلوچوں کے خلاف آپریشن میں شدت لانے کے علاوہ کچھ نہیں۔
آئے روز بلوچوں کے گھروں پہ حملے لوگوں کا حراستی قتل عام شاید سول سوسائٹی و دیگر مکاتب فکر کے لیے اہم نہ ہو مگر کوئٹہ حملہ سول سوسائٹی وتمام مکاتب فکر کے لیے اہم ہونا چائیے کیونکہ بلوچستان میں جو بھی آباد ہے کل ایسے ہی دوسرے افراد کو نشانہ بنایا جائے گا۔اب اس میں کوئی بعید نہیں کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد علاقائی و عالمی سامراجی طاقتوں کامیدان جنگ بلوچستان ہو گا،۔
♥