بلوچستان:ایک مقبوضہ ملک ہے جو اپنی آزادی کیلئے لڑ رہا ہے

انگریزی سے ترجمہ: مجید زہیر بارینی

Balochistan-watershortage-crisis-desert-wasteland_10-28-2015_202251_l

بلوچستان وسط ایشیاء کے مشرقی حصے میں واقع ہے جو کہ برصغیر کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں، خلیج فارس اور انڈین سمندر سے ملاتا ہے۔

بلوچ علاقہ قریباً 690000 مربع کلومیٹر پر محیط ہے اس مجموعی رقبے سے قریبا” 280000 مربع کلومیٹر ایران نے قبضہ کیا ہوا ہے اور 350000 مربع کلومیٹر( بشمول سندھ اور پنجاب کے بلوچ آبادی والے علاقے)پاکستان نے قبضہ کیا ہوا ہے اور 60000 مربع کلومیٹر علاقہ برطانوی سامراجی طاقتوں نے 1896ء میں اینگلو۔افغان سرحدی کمیشن کے فیصلے کے تحت افغانستان کو دیدیئےبلوچستان کا 900 میل پر محیط ساحلی علاقہ بحر عرب اور خلیج فارس سے منسلک ہے۔

لوگ اور آبادی:بلوچوں کی کل آبادی 13 سے 15 ملین ہے ایران میں بلوچوں کی آبادی کے کوئی غیرجانبدار اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔ ایران میں بلوچ آبادی قریباً 4 ملین ہے جنہیں حتیٰ کہ محدود حد تک سیاسی و ثقافتی خودمختاری تک حاصل نہیں ہے قابض حکومتوں نے اپنی پالیسی اور عمل میں دانستہ طور پر نظرانداز کر کے پسماندہ رکھا گیا ہے۔

زبان:بلوچ، بلوچی اور براہوی زبان بولتے ہیں جن کا تعلق انڈویورپین اور دروا ویڈین زبانوں کے گروپ سے ہے۔

ثقافت اور مذہب: بلوچوں کی اکثریت سنی مسلمان ہیں اور کچھ کا تعلق شیعہ اور ذکری فرقے سے ہے۔

بلوچ ایک قدیم قوم ہے 325 قبل مسیح میں جب سکندراعظم کا لشکر ہند وستان کے ناکام مہم سے مکران کے ریگستانی راستے سے بابل واپس جارہا تہا تو بلوچ حملہ آوروں کے ہاتھوں یونانیوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

شاعر فردوسی اپنی فارسی رزمیہ کتاب شاہنامہ فردوسی میں ان کے بارے میں یوں ذکر کرتے ہیں :بلوچوں اور کوچوں کو ہم نے یوں پایا جیسے مینڈھے متعین جنگ میں برسرپیکار ہوں بلوچ نسلی لحاظ سے مذید یکساں نہیں رہے بلوچ اپنے اصل مرکز بحری کیسپین(ایران کا شمالی علاقہ ) سے ہجرت کرتے ہوئے درمیان میں بہت سے گروہوں کو اپنے میں جذب کرلیا اسی وجہ سے بلوچ مزید نسلی لحاظ سے یکساں نہیں رہے ان نئے بلوچوں میں وسط ایشیاء کے وہ قبائل شامل ہیں جنہوں نے دسویں صدی سے تیرہویں صدی تک کے دوران ترک اور منگول حملہ آوروں کی وجہ سے نقل مکانی اختیار کی اور مفرور عربوں کے وہ گروہ بہی شامل ہیں جنہوں نے آپس کی خانہ جنگی میں شکست کھائی۔

تاہم ثقافتی لحاظ سے بلوچوں نے ہمسایہ علاقوں کے مضبوط ثقافتی دباؤ کے باوجود اپنے ثقافتی تشخص کو کامیابی سے محفوظ رکھا۔باوجود اسکے کہ مال مویشی پالنے والے بلو چ سارے بلوچستان میں بکھرے ہوئے تھے اور ایک دوسرے سے غیرمنسلک تھے لیکن بلوچی زبان اور مشترکہ بلوچ فوک لور روایات اور اقدار نے مشرق میں دریائے ہند سے لیکر مغرب میں صوبہ کرمان تک کے وسیع علاقے میں بلوچ قبائل کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے بلوچ قدیم ثقافتی ورثے کو یوں زندہ وقائم رکھنے کا نتیجہ ہی ہے کہ بلوچ آج موجودہ دور میں اپنے قومی تشخص کو تسلیم کرانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ بلوچ قوم پرستی کی مضبوطی کی جڑیں انکی بافخر تاریخ میں پیوست ہے۔ جب انہوں نے خارجی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی ،حملہ آوروں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ تمام بلوچستان یا اسکے کسی حصے کو ملحقہ سلطنتوں میں شامل کیا جائے لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں ہوئی۔

معیشت :روایتی طور پر بلوچستان کے لوگوں کی معیشت کا دارومدار زراعت سے منسلک ہے لیکن ساحلی علاقوں میں ماہی گیری بھی ان کے ذریعہ معاش کا حصہ ہے اگرچہ بلوچستان گیس، تیل، سونا اور دیگر قدرتی معدنیات و بحری وسائل سے مالامال ہے لیکن مقبوضہ ہونے اور قبضہ گیروں کا ان پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان کے عوام اپنے وسائل سے مستفید نہیں ہو پارہے۔ اسی وجہ سے جنوب مشرقی ایشیاء میں وہاں کے لوگ غریب ترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔

ماحولیاتی مسائل:مئی 1998ء میں پاکستان نے مشرقی بلوچستان میں چاغی کے پہاڑوں میں متعدد ایٹمی ٹیسٹ کیے یہ حقیقت وسیع پیمانے پر دنیا میں تسلیم شدہ ہے کہ تابکاری کی زیادہ مقدار نقصاندہ ہے اور اس سے متعدد بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں مثلاً لیکیومیاایٹم بم کے دھماکوں اور نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجربات اور تابکاری کے حادثات کے واقعات کے بعد کے اثرات اسکے واضح ثبوت ہیں۔

ریڈیائی ذرات کے پھیلنے اور سانس لینے سے بدن میں شامل ہو کر لوگوں کو متاثر کرسکتےہیں اور غالباً دھماکے کے مقام سے ہزاروں میل دور تک کے فاصلے پر لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔

نیوکلیائی تجربات سے پہلے چاغی کے علاقے میں پانی کاوافر مقدار میں میسر تھی لیکن اب پانی کی شدید قلت کی وجہ سے چاغی و گردونواح کے عوام پانی کی خاطر سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ چاغی کے علاقے میں شدید گرمی میں پانی کی قلت کے خلاف عوام کا احتجاج یہاں کا ایک معمول بن چکا ہے۔ چاغی میں متعین ایک بین الاقوامی امدادی ادارے کے اہلکار نصراللہ وڑائچ نے بتایا کہ پانی کی قلت کی وجہ سے چاغی کے چالیس فیصد عوام نے علاقے سے ہجرت کرنا شروع کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور شدید گرمی میں پانی کی قلت کی وجہ سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں جہاں انسانوں اور مویشیوں کیلئے پانی لانے کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

زراعت سے منسلک برادری کیلئے پانی کی قلت جہاں پہلے سے ہی پیاسے ریگستانی حالات میں ہزاروں لوگوں کی زندگی گزارنا مشکل تھا وہاں روزگار کے دیگر ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے علاقے میں لوگوں کی حالات کو مزید ابتر کردیا ہے۔

ایٹمی تجربات کے دیگر خطرناک نتائج میں سے پانی کی قلت صرف ایک عنصر ہے اور دیگر اثرات جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ظہورپذیرہونگے جیسا کہ چیرنوبل کے حادثے کے اثرات اب تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ بلوچوں کی آنے والی نسلوں کو ان تابکاری اثرات کا سامنا کرنا پڑےگا اور بچوں کی پیدائش پر اسکے نقصانات ظاہر ہونگے ہمیں یہ اثرات دیکھنے پڑینگے۔

بلوچستان کی تاریخ: بلوچوں نے اپنی تاریخ کے دوران بیشتر اوقات اپنے آپ کو کمزور قبائلی کنفیڈریشن قائم کرکے اپنا انتظام چلایا ہے

موجودہ بلوچستان تین حصوں میں منقسم ہے جوکہ شمالی بلوچستان، مغربی بلوچستان اور مشرقی بلوچستان کہلاتا جو بالترتیب افغانستان، ایران اور پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔

انسانی تہذیب کی قدیم تہذیبوں میں سے بلوچستان میں دریافت ہو ئے ہیں۔ مہر گڑھ انسانی تہذیب کی قدیم ترین تہذیب ہے جسکا انسان کوابتک علم ہے جو مشرقی بلوچستان میں واقع ہے؛ سنٹرل مکران میں کیچ تہذیب 4000 قبل مسیح پرانی ہے؛ جلا ہوا شہر دوزآپ( زاہدان) کے قریب جوکہ مغربی بلوچستان کا دارالحکومت ہے 2000 قبل مسیح پرانی ہے۔

بلوچستان پر سب سے اہم حملوں میں سے ساتویں صدی عیسوی میں عربوں کا حملہ تہا جس نے علاقے میں سماجی، مذہبی، اقتصادی و سیاسی تبدیلیوں پر دوررس اثرات مرتب کئے 644 ء میں ایک عرب فوج نے حاکم کی کمانڈ میں مکران اور سندھ کی مشترکہ افواج کو شکست دی عرب حکمرانوں کے حکمرانی کے دوران اسلام علاقے میں داخل ہوا اور بلوچ قبائل نے آہستہ آہستہ اپنی صدیوں قدیم مذہب کو چھوڑکر اسلام قبول کیا ۔

عربوں کے انتشار اور اراجک حکمرانی کے مراحل کے دوران بلوچ قبائل نےاپنی نیم آزاد قبائلی کنفیڈریشن قائم کی اور اسے اکثر گردونواح کے علاقوں کے مضبوط طاقتوں اور بادشاہتوں کے حملوں کا سامنا تھا۔

سنہ1400ء سے 1948ء تک کا دور گردونواح کی طاقتوں کے زوال پذیر گرفت سے آزاد ہونے اور بلوچ اثرورسوخ کے ابھرنے کی وجہ سے ممتاز ہے اور بلوچ سیاسی و سماجی اور ثقافتی اداروں کا غالب ہونااس دور کی اہم خصوصیت ہے ۔اٹھارویں صدی میں قلات بلوچستان کا غالب طاقت تھی اور خان قلات بلوچستان کا حکمران تھا ۔

برطانوی کابل تک پہنچنے کیلئے پہلی دفعہ 1839ء میں اس خطے میں داخل ہوئے انہیں محفوظ گزرگاہ کی تلاش تھی انہوں نے 1841ء میں ریاست قلات کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ برطانیہ نے 1841ء میں تالپور میروں سے حکومت چھین کر سندھ پر قبضہ کرلیا جو کہ ایک بلوچ خاندان کی سلطنت تھی۔1876ء میں برطانیہ نے بلوچوں کو ایک اور معاہدہ کرنے پر مجبور کیا اور خان قلات کو کوئٹہ شہر لیز دینے پر مجبور کیا۔خان کی رٹ ا ب بھی بلوچستان پر چل رہی تھی لیکن اب زیر نگرانی ایک برطانوی وزیر کے۔

تاریخی لحاظ سے 1839ء میں بلوچ ریاست قلات پر قبضہ غالباً بلوچ تاریخ میں اہم اور فیصلہ کن موڑ تھا جس نے ڈرامائی انداز میں بلوچ کی تقدیر کو تبدیل کردیا بلوچ قوم کیلئے اپنی سرزمین کی تقسیم اور ہمیشہ بیرونی طاقتوں کا قبضہ دردناک نتائج تھے ۔

سنہ1849ء ایرانی فوج نے بلوچ قوتوں کو شکست دے کر بھمپور پر قبضہ کرلیا بعد کی دہائیوں میں بلوچوں کی سیاسی حیثیت یکسر تبدیل ہو گئی جب انیسویں صدی میں برطانوی اور فارس امپائرز نے بلوچستان کو اپنے زیر اثر علاقوں انڈیا میں برطانوی امپائر اور فارس بادشاہت میں تقسیم کیا۔ ا ینگلو۔ افغان جنگوں اور زار روس اور برطانوی امپائر کے درمیان گریٹ گیم کے نتیجے میں فارس میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات نے بلوچ عوام کو مزید پسماندہ رکھا۔

بلوچ قبائل نے انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے شروعات میں اس غیر فطری اور غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف برطانوی اور فارس حکمرانوں کے خلاف بغاوتوں کی شکل میں اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ ایک بلوچ تاریخ دان، مصنف اور شاعر گل خان نصیر نے اس بارے میں تحریر کیا ہے:اس سرحدی کمیشن کے فیصلوں کی بدولت بلوچستان کا نصف سے زیادہ علاقہ ایران کی ملکیت میں آیا اور اس کا نصف حصہ علاقہ افغانستان کو دیا گیا۔

بلوچستان کی تقسیم کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ افغانستان اور ایران کی حکومتوں کو خوش رکھ کر روس کے خلاف برطانیہ کے حمایت کرنا تھا۔ 1932ء میں جیکب آباد میں بلوچ کانفرنس نے ایران کے مغربی بلوچستان کے قبضے کے خلاف آواز بلند کی۔ 1933ء میں بلوچستان کے ایک ممتاز لیڈر میر عبدالعزیز کرد نے بلوچستان کی تقسیم کی مخالفت میں پہلی بارعظیم تر بلوچستان کا نقشہ چھاپ دیا۔ 1934ء میں بلوچ قومی تحریک کے سربراہ میر یوسف عزیز مگسی نے بلوچستان کو پھر سےمتحد کرنے اور آزادی حاصل کرنے کیلئے مسلح جدوجہد کرنے کی تجویز دی جبکہ یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ بلوچستان کئی حصوں میں تقسیم تھا اور مختلف حصوں کی آئینی اور سیاسی حیثیت مختلف تھی۔

مغربی بلوچستان میں بلوچوں نے ہمیشہ فارس حکومتوں کے تسلط اور امتیازی سلوک روا رکھنے کی شاونسٹ پالیسی کے خلاف بغاوت کرتے رہے ہیں جو درج ذیل ہیں :۔

سنہ1873 ء میں جاسک کی بغاوت

سنہ1888 ء میں سرحد کی بغاوت

سنہ1889 ء میں عمومی بغاوت

سنہ1896 ء میں ایک بلوچ سردار ، سردار حسین ناروہی کی سربراہی میں ایک اہم بغاوت نے ایک اینگلو۔فارس مشترکہ مہماتی فورس بنا کر ۔بلوچوں کو کچلنے کیلئے اکسایا دوسالہ کے بعد بلوچ مزاحمت کو شکست دی گئی اور سردار ناروہی کو گرفتار کر لیا گیا۔

مظفرالدین شاہ کی موت اور فارس میں قاچار خاندان کی بادشاہت کی زوال پذیر اور مزید براں برطانوی کالونیل فوج کی مغربی بلوچستان میں بلوچوں کی بغاوتوں سے نمٹنے اور اسے ازسر نو قبضہ کرنے کے واقعات نے مغربی بلوچستان میں بلوچوں کیلئے امکانات پیدا کردیئے۔

بلوچ قبائلی سرداروں نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا اور مغربی بلوچستان کے علاقوں پر اپنی گرفت کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ بیسویں صدی کے شروعات میں بہرام خان نے مغربی بلوچستان کے تقریباً تمام مرکزی اور جنوبی علاقوں پر کنٹرول حاصل کرلیا اور یوں بلوچ سرزمینوں کا قبضہ ختم ہوا اور بالآخر برطانوی امپائر نے بہرام خان کو مغربی بلوچستان کا با اثر حکمران تسلیم کرلیا۔

بہرام خان کے بھتیجے میر دوست محمد خان نے اپنے چچا پر کامیابی حاصل کرلی۔ میر دوست محمد خان نے اپنی طاقت مضبوط کرلی یہاں تک کہ اس نے اپنے آپ کو بلوچستان کا بادشاہ ہونے کا اعلان کردیا لیکن بدقسمتی سے اپنی طاقت کو مزید مضبوط کرنے کی کوششوں کے دوران فارس پر اقتدار رضا خان نے سنبھال لیا۔

سنہ1828 ء میں فارس فوجوں نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کیلئے بلوچ جنگجوؤں کے خلاف فوجی آپریشن کیا۔ یہ جنگ سات مہینے تک جاری رہی اور بالآخر بلوچ قوتوں پر دشمن کو فتح حاصل ہوئی۔ میر دوست محمد خان کی کمانڈ میں بلوچ قوتوں کی شکست کے نتیجے میں اسے گرفتار کرلیا گیا ۔1928ء میں میر دوست محمد خان کو تہران جیل میں پھانسی دی گئی اور بالآخر فارس فوجوں نے مغربی بلوچستان پر قبضہ کرلیا۔

سنہ1928 ء میں فارس فوجوں کا بلوچ قوتوں کو شکست دے کر میر دوست محمد خان کو پھانسی دینا بلوچ تاریخ میں مغربی بلوچستان کی قبضے کی علامت ہے ۔جب تک کہ شاہ کو 1979 ء میں معزول کیا گیا اس وقت ایران میں بلوچ قومی تحریک مشرقی بلوچستان یا پاکستانی بلوچستان میں قومی تحریک کی نسبت اتنی زیادہ مضبوط نہیں تھی۔

ایرانی سیکورٹی فورسز کی جانب سے ظلم تشدد کے سخت طریقے اپنائے گئے۔ ساوک( شاہ کے تحت ایرانی خفیہ پولیس)ان کا پیچھا کر کے ان کے لیڈروں کو ملک چھوڑ کر بیرون ملک سے زیر زمین کام کرنے پر مجبور کیا اور انکا ملک میں پھیلے ہوئے اور بکھرے ہوئے حامیوں کے ساتھ بہت کم رابطہ جاری رہا جبکہ تنظیمی لحاظ سے اتنےمنظم نہیں تھے۔ لیکن1979 ء سے پہلے قوم پرست تحریک نے بڑی نفسیاتی اہمیت ثابت کی۔

مٹھی بھر بلوچ کارکنوں نے شاہ کے ظلم جبر اور فارس تسلط کے خلاف مقابلہ کرکے مزاحمت کی روح کو زندہ رکھا اور یوں شاہ کی معزولی کے بعد قوم پرستانہ سرگرمیوں کیلئے براہ راست پلیٹ فارم مہیا ہوا ۔

بلوچستان میں دیگر روایتی لیڈروں کے ساتھ ساتھ ایک نئی سیاسی قوت ابھر کر سامنے آئی جوکہ بیشتر تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے آپ کو منظم کیا لیکن سیاسی تجربے کے فقدان اور نظریاتی اختلافات نے جلد ہی سیاسی ورکروں کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کیا اور وہ مختلف سیاسی گروپوں میں تقسیم ہوگئے اور یوں انکی سیاسی اہمیت کم ہو گئی۔

بلوچستان کی موجودہ صورتحال:ایرانی زیرتسلط بلوچستان میں بلوچ تیزی سے اپنی شناخت کہو رہے ہیں بندر عباس ، کرمان کا حصہ، سیستان اور زابل جوکہ بلوچ اکثریتی علاقے تھے اب اسیمیلیشن پالیسی اور فارسی ریاست کے اقدامات سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں۔ اب ان سارے علاقوں میں بلوچ اقلیت میں تبدیل ہو چکے ہیں یہاں تک کہ دوز آپ( زاہدان) بھی ایک بلوچ شہر دکھائی نہیں دیتا۔ ایران میں بلوچوں کو مکمل طور پر ملک کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی اداروں کے بنیادی ڈھانچوں سے خارج کردیا گیا ہے۔

بلوچی ثقافت اور بلوچی زبان کی تشہیر ملک کے خلاف غداری تصور کیا جاتا ہے اور ایسے عمل سے سفاکانہ طریقے سے نمٹا جاتا ہے۔اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مستقل طور پر فوجی چھاؤنیاں بلوچ علاقوں میں تعمیر کی گئی ہیں۔

پہلوی حکمرانی کے پچاس سالوں میں تہران نے بلوچ علاقوں کو کنٹرول کرنے کیلئے بیشتر اوقات فوجی طاقت کو استعمال کرنے پر انحصار کیا حتی کہ وہاں اگر کوئی معمولی بغاوتی سرگرمی ہوتی تو بھی فوجی طاقت کو استعمال میں لایا جاتا۔ محمود خلات بیری جس نے سینٹو کے ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے اس نے سلیگ ہیریسن

( AUTHOR OF BOOK”BALOCH NATIONALISM AND SOVIET TEMPTATION”)

سے ملاقات میں اپنی گفتگو کے دوران بتایا:کہ بلوچ کبھی نہ کبھی سوویت یونین کی مدد سے اپنی ایک آزاد ریاست قائم کرنے کی کوشش کرینگے

اسی وجہ سے ہماری یہ خواہش تھی کہ جتنا ممکن ہوسکے انہیں سیاسی لحاظ سے کمزور، غیر متحد اور پسماندہ رکھا جائے ۔

اس پالیسی پر عملدرآمد کیا گیا اسی وجہ سے شاہ پہلوی کی حکومت کے آخری سالوں میں بلوچستان غریب ترین صوبہ تھا جس کی فی کس سالانہ آمدنی 975 ڈالر تھی جوکہ دیہی علاقوں کے 2200 ڈالر قومی اوسط کے نصف سے بھی کم اور مجموعی قومی اوسط کے پانچویں حصے سے بھی کم تھی۔ بلوچستان اب تک کردستان کے بعد ملک میں غریب ترین صوبہ ہے ۔پہلوی خاندان کی بادشاہت کے خاتمے اور اسلامی ریپبلک کے قیام نے بلوچ عوام کی زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں لائی بلکہ ظلم و جبر بدتر ہوتا گیا۔

ایران میں بلوچ عوام کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا گیا اور انہیں ان کے ثقافتی، سماجی اور معاشی حقوق سے محروم رکھا گیا۔

ایرانی حکومت کی چند شاؤنسٹک پالیسیاں درج ذیل ہیں

بلوچی زبان کی پبلک مقامات پر استعمال کی پابندی ہے اور صوبے میں بلوچ بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایرانی حکومت بلوچستان میں کسی قسم کی پریس میں آزادی نہیں دیتا۔

تمام ایرانی حکومتوں نے بلوچ آبادی کو ڈیموگرافیکل ہیرا پھیری کے ذریعے کم کرنے میں مصروف رہےہیں۔

گورنمنٹ پالیسی کی بنیاد یہ رہی ہے کہ صوبےمیں غیر بلوچوں کو سستی قیمت پر زمین خریدنے اور کاروبار کرنے کیلئے آسان رسائی اور سہولیات فراہم کیا جائیں۔

ایرانی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ بلوچوں کو روزگار کے مواقع سے محروم رکھ کر پورے بلوچ آبادی کو غربت میں رکھ کر پسماندہ رکھا جائے۔

تہران میں مرکزی حکومت میں کوئی بلوچ نمائندگی نہیں ہے۔ مثلاً کوئی وزیر یا کوئی بلوچ ڈپٹی۔ بلوچستان میں اعلیٰ حکام اور فیصلہ ساز اداروں میں غیر مقامی لوگ یا مقامی غیر بلوچ تعین ہیں جنہیں دیگر علاقوں سے لاکر یہاں آباد کرنے میں مدد دی گئی ہے تمام ایرانی حکومتوں نے بلوچوں پر کبھی بہی اعتماد نہیں کیا ہے حتیٰ کہ ان پر بھی جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنےتعاون کی خواہش ظاہر کی ہے تاکہ وہ اعلیٰ عہدے پر بلوچ کی نمائندگی کرسکے۔

ایرانی گورنمنٹ کی بلوچ سوسائٹی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں تقسیم کرو اور حکومت کروکی پالیسی رہی ہے۔ شاہ کی پالیسی کی بنیاد یہ تھی کہ مختلف حریف قبائل اور فیوڈل خاندانوں کو استعمال کر کے بلوچ سوسائٹی پر اپنا کنٹرول قائم رکھا اور بلوچ اکثریت کی سماجی، اقتصادی و سیاسی انصاف کی خواہشات کو یکسر نظرانداز کردیا۔ آیت اللہ کی اسلامی حکومت نے اس کے علاوہ مذہبی کارڈ کو بھی استعمال کیا اور مذہبی راہنماؤں کو تقسیم کر کے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔

ایران میں عورت عمومی طور پر دوسرے درجے کی شہری شمار ہوتی ہے اور کسی بھی شعبے میں مرد کے برابر شمار نہیں کیا جاتا۔ قومی و مذہبی بنیاد پر اپنے فارسی اور شیعہ بہنوں کے مقابلے میں بلوچ عورت کی حالت بدتر ہے ۔بلوچ زیادہ تر سنی مسلمان ہیں ایرانی قانون بلوچ عورت کو مناسب تحفظ فراہم نہیں کرتا اور جو تحفظ بلوچ عورت کو بلوچ قبائلی نظام اور بلوچ روایات فراہم کرتے ہیں وہ ناکافی ہیں کہ وہ ماڈرن سوسائٹی کی ترقی میں شریک ہو اور اسے برابر حقوق حاصل ہوں ۔عورت بلوچ معاشرے میں سب سے غریب ترین طبقہ ہے جو کہ جنسی، قومی و طبقاتی امتیاز اور جبر کا شکار ہے۔

نوٹیہ تحریر انٹرنیٹ سے لیکر انگلش سے اردو میں ترجمہ کی گئی ہے جس کا عنوان ہے

BALOCHISTAN:AN OCCUPIED COUNTRY WHICH IS FIGHTING FOR ITS INDEPENDENCE

آپ یہ تحریر گوگل سرچ میں بآسانی تلاش کرکے انگلش میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ ترجمے میں گرامر اور ٹیکنیکل کمزوری ضرور محسوس ہوگی کیونکہ اردو ہماری قومی زبان نہیں ہے۔ لیکن مجبوراً اردو میں لکھنا پڑھ رہا ہے۔

Literature

Selig S. Harrison, In Afghanistans Shadow: Baloch Nationalism and Soviet Temptations, Carnegie Endowment for Peace, New York 1981.

Shahid Fiaz, Peace Audit Report 3, The Peace Question in Balochistan, South Asia Forum for Human Rights, Katmandu 2003.

Inayatullah Baloch, 1987, the Problem of Greater Balochistan, Stener Verlag Wiesbaden GMBH Stuttgart.

Khan, Mir Ahmad Yar Khan, Inside Balochsitan, Maaref Printers Karachi, 1975.

Ahmad Ali Khan Waxir, Tarikh Kerman, p 65-66-, (In Persian).

Farhang- e Iran Zamin, Compiled and edited by: Iraj Afshar, Tehran 1990.

Dr Naseer Dashti, Baloch in Iran: What Option they have

3 Comments