آصف جاوید
پندرہ اگست کو بھارت کے یومِ آزادی کی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں بلوچستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت کی صورتحال کا ذکر کر کے بھارت کی پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی اور حکمتِ عملی میں اچانک جارحانہ تبدیلی سے پاکستان کو حیران، ششدر اور عالمی طاقتوں کے سامنے پاکستان کو اپنے موقف پر سیاسی طور پر بے بس کردیا ہے۔
نریندر مودی اکھاڑے کے پہلوان تو نہیں ہیں ، مگر سیاسی پہلوان ضرور ثابت ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی نے جوابی کارروائی کے طور پر بلوچستان کا مسئلہ چھیڑ کر خارجہ پالیسی کی ریسلنگ میں پاکستان پر بریک نہ ہونے والا ہیڈ لاک ضرور لگا دیا ہے۔
یومِ آزادی کی تقریر سے قبل جمعہ 12 اگست کو دارالحکومت نئی دلی میں کشمیر پر ہونے والی کل جماعتی کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیراعظم نریندر مودی نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کی وجہ، سرحد پار پاکستان سے ہونے والی دہشت گردی ہے۔ نریندر مودی نے مزید کہا تھا کہ پاکستان ہمیشہ بھول جاتا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں پر جنگی طیاروں سے بمباری کرتا ہے۔ اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کو بھی بلوچستان اور اپنے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والی زیادتیوں کے لیے دنیا کے سامنے جواب دہ ہونا ہوگا۔
یومِ آزادی کی تقریب سے اپنے خطاب میں جناب نریندر مودی نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستان کیسا ہمسایہ ملک ہے؟، جہاں دہشت گردوں کے گن گائے جاتے ہیں اور دہشت گردوں کی کامیابی پر جشن منائے جاتے ہیں۔ کشمیر کے مسئلہ پر منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں بھارتی اپوزیشن کی طرف سے کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے نریندر مودی یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ بھارت اب بلوچستان اور آزاد کشمیر میں ہونے والے مظالم پر عالمی توجہ مبذول کروائے گا۔
انہوں نے بھارتی وزارت خارجہ کو یہ ہدایت بھی کی کہ وہ آزاد کشمیر اور بلوچستان کے دوسرے ممالک میں جلا وطن لوگوں سے رابطے قائم کریں اور پاکستان کے ان علاقوں میں ہونے والے مظالم کے خلاف ان کی رائے کو دنیا کے سامنے لائیں۔ یومِ آزادی کی تقریب میں اپنے خطاب میں نریندر مودی نے کہا ہے کہ بلوچستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں نے حمایت کرنے پر ان کا اور بھارتی عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔ نریندر مودی نے کہا کہ میں اس پر ان کا شکر گزار ہوں۔
نریندر مودی نے اپنے عمل سے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان اقوامِ عالم کے سامنے ، انڈین کشمیر میں انڈیا کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر واویلا اور پروپیگنڈہ کر ے گا ، تو انڈیا بھی بلوچستان کے مسئلے کو عالمی سطح پر اٹھا ئے گا۔ اور اب انڈیا ، پاکستان سے صرف کشمیر کے اس حصے کے بارے میں بات چیت کرے گا جو پاکستان کے قبضے میں ہے۔
تجزیہ نگاروں اور خطّے کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کی رائے یہ ہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کی اس بدلی ہوئی حکمتِ عملی سے واضح طور پر یہ اشارہ ملتا ہے کہ بھارت بلوچستان میں آزادی کے حامیوں اور گلگت اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے بیزار اور مایوس عوام کو اُن کے طلب کرنے پر مالی، سیاسی اور اخلاقی امداد فراہم کر سکتا ہے۔
اور اگر انڈیا واقعی میں ایسا کر گزرتا ہے تو پھر پاکستان کے لیے بلوچستان کو سنبھالنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریبا” ناممکن ہو جائے گا، کیونکہ اس وقت بلوچستان بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہے، اور کسی دھماکے سے پھٹنے کے لئے اسے صرف ایک چنگاری کی ضرورت ہے۔ اور خود پاکستان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اندرونی انتشار ، برے طالبان، دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں اور سیاسی عدم استحکام ، اور معاشی بدحالی میں بری طرح گھرا ہوا ہے۔
انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے خارجہ امور کی سیاسی شطرنج کی بساط پر بڑی ہی مہلک چال چلی ہے۔ مودی نے انڈین کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کی سنگین صورت حال کا رخ ، بڑی چابک دستی اور مہارت سے بلوچستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں، زیرِ حراست تشدّد اور ماورائے عدالت قتل، اور بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کی طرف موڑ دیا ہے۔
پاکستان کے لئے انڈیا کی طرف سے بلوچستان کا مسئلہ اٹھانا انتہائی حیران کن ہے۔ کیونکہ پاکستان اب تک یہ سمجھتا رہا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ اسکا اندرونی معاملہ ہے ، اور کشمیر کا مسئلہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ مودی نے پاکستان کو اندھیرے میں رکھ کر مارا ہے۔ پاکستان، انڈیا کی طرف سے علاقائی تنازعات کی سیاسی شطرنج کی بساط پر نریندر مودی کی بلوچستان سے متعلق شہ مات کے لیے قطعی طور پر تیّار ہی نہیں تھا۔
حالانکہ سیاسی تجزیہ نگار اور غیر جانبدار دانشور ، انڈیا میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد پاکستان کی طرف سے مچائے جانے والے شور کے جواب میں پاکستان سے سوال کرتے رہے ہیں کہ اگر انڈیا میں ریاستی اداروں کی جانب سے برہان وانی کی ہلاکت انسانی حقوق کی پامالی ہے تو پاکستان میں بلوچ نوجوانوں کی ہلاکت کیا ہے؟ مگر پاکستان نے کبھی ان سوالوں کا جواب نہیں دیا بلکہ سوال اٹھانے والوں کو ہمیشہ شٹ اپ کال ہی دی جاتی رہی ہے۔
بہر حال موجودہ صورتحال میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی طرف سے بلوچستان کا مسئلہ اٹھایا جانا دراصل بارود کو چنگاری فراہم کرنا ہے۔ اگر یہ چنگاری بارود کو بھڑکا دیتی ہے کو پورا بلوچستان دھماکے سے اڑ جائے گا۔ پاکستان کے لئے یہ صورتحال ایک لمحہِ فکریہ ہے۔ انڈیا اب جارحانہ حکمتِ عملی اختیار کرکے بلوچستان کے مسئلے کو مسئلہِ کشمیر کے جواب میں ہر فورم پر اٹھا ئے گا۔
پاکستان اگر کشمیر میں حریت پسندوں کی مالی، سیاسی اور اخلاقی مدد کرے گا تو جواب میں انڈیا علی الاعلان بلوچستان کے فریڈم فائٹرز کو مالی، سیاسی اور اخلاقی مدد فراہم کرے گا۔ پاکستان جو کچھ کشمیر میں کرے گا، انڈیا وہی کچھ بلوچستان میں کرے گا۔ صرف فرق یہ رہے گا کہ پاکستان کشمیر میں جو کچھ کرے گا وہ چھپ چھپا کر کرے گا، مگر انڈیا بلوچستان میں جو کچھ کرے گا وہ علی الاعلان کرے گا۔
کیونکہ پاکستان اپنی ناکام خارجہ پالیسی کے سبب عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ پاکستان کی کریڈیبلٹی مشکوک ہے ۔ پاکستان کو اپنے موقف کی حمایت میں عالمی سطح پر موثّر تعاوّن حاصل نہیں ہے۔ جبکہ انڈیا نے اپنی کامیاب خارجہ پالیسی اور حکمتِ عملی کے سبب عالمی برادری میں اعتبار حاصل کیا ہوا ہے۔ انڈیا ، پاکستان کو بہت آسانی سے عالمی سطح پر تنہا کرسکتا ہے۔ پاکستان کو بلوچستان کے بارود کے ڈھیر کو انڈیا کی جوابی کارروائیوں کی چنگاریوں سے بچانے کی ضرورت ہے۔
ابھی بھی وقت ہے، بلوچستان میں ہر قسم کی فوجی کارروائیوں کو ختم کرکے بلوچستان کے ناراض بھائیوں کو عزّت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھا کر ان کے جائز حقوق ، ان کو دے دئے جائیں، بلوچوں کا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا جائے، بلوچوں کو قومی دھارے میں شامل کرکے پاکستان کی ترقّی کی راہ پر لگا دیا جائے۔ یہ بلوچ تو پاکستان کے قیام سے قبل اپنی زمین کے مالک تھے، پھر ان پر یہ زمین کیوں تنگ کی جارہی ہے؟؟؟
♦
3 Comments