بلوچستان پر نوٹس لینے کا وقت آ گیا ہے

alberto-cirio

البرٹو سیریو۔ رکن یورپین پارلیمنٹ

کوئٹہ پاکستان میں 8 اگست کو سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے دروازوں پر خودکش بم دھماکے کے حملے نے انٹرنیشنل کمیونٹی کو جگا دیا کہ وہ اس المناک واقعے کا نوٹس لے جو کہ سالوں سے گورنمنٹ کی رضامندی سے پیداکردہ ہے اور انتہا پسند گروپوں کو پراکسی کی حیثیت سے سیاسی کارکنوں، جرنلسٹوں اور دانشوروں کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

اس دھماکے میں 70 سے زائد لوگ ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تعداد وکلاء اور جرنلسٹوں کی تھی جو کہ وہاں اس سے قبل بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر کے قتل ہونے کے سلسلے میں جمع ہوئے تھے ۔

پاکستان آرمی جو کہ بلوچستان میں بڑی تعداد میں موجود ہے آرمی نے اس واقعے پر فوراً ہی بیان دیا کہ یہ حملہ صوبے کی سیکورٹی کو نقصان پہنچانے اور چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش تھی۔ سی پیک جو کہ ایک کثیر جہتی منصوبہ ہے جو چین کو اسکے مغربی صوبے زن جیانگ سے بلوچستان میں گوادر تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔ سی پیک نے بلوچستان میں بڑی ناراضگی پیدا کی ہے اور گوادر پورٹ پراجیکٹ کو علاقے کی محض مزید استحصال کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے طور پر خیال کیا جاتاہے۔

پاکستانی اداروں کی ایک دہشت گرد گروپ کی جانب سے کئے گئے اس حملے سے نمٹنے کی کوششوں کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان میں اس طرح کے تشدد کے واقعات زندگی کا معمول بن چکے ہیں ۔ دہشت گردانہ حملوں، سیکورٹی فورسز اور فرقہ وارانہ گروپوں کے درمیان جھڑپوں کی درجہ بندی کی گئی ہے جن میں 550 سے زائد لوگ ان واقعات میں مارے گئے ہیں جن میں زیادہ تر واقعات کوئٹہ، ڈیرہ بگٹی، کیچ اور گوادر میں پیش آئے ہیں۔

بلوچستان ، قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے پاکستانی گورنمنٹ کو 1947 سے بلوچ قومی تحریک کی جانب سے چیلنجوں کا سامنا ہے جو پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے سیکولر بلوچ قومی تحریک سے نمٹنے کیلئے انتہا پسند سنی گروپوں کو استعمال کرنے کو ترجیح دی ہے جن کی جڑیں پنجاب میں ہیں۔

سالوں سے جاری غلط اور با لاخر خود کو تباہ کرنے والی پالیسیوں کے نتیجے میں مہلک عسکریت گروپوں کا مرکب بلوچستان میں سرگرم عمل ہے جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے عالمی دہشت گرد نیٹ ورکس کو سنی فرقہ وارانہ عسکریت پسندوں میں فطری اتحادی مل گئے ہیں۔ افغان طالبان کو بھی 2003 سے یہاں محفوظ پناہ گاہ مل گئی ہیں جس نے کشیدہ سیکیورٹی صورتحال پیدا کی ہوئی ہے جو کہ اکثر اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول سے باہر ہے جنہوں نے خود یہ حالات پیدا کئے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا ہے تاکہ عسکریت پسندوں اور مذہبی انتہا پسندوں کا مقابلہ کیا جائے لیکن اسکے بدلے بلوچ قوم پرستوں اور انکے ہمدرد وں کو چن چن کر ٹارگٹ بنایا گیا جبکہ دہشت گردوں اور فرقہ وارانہ گروپوں کو پھیلنے کی اجازت دی گئی ہے جن میں سے بہت سوں پر پابندی تھی ۔

بلوچستان میں لشکر جھنگوی کی جانب سے باقاعدگی سے عیسائیوں اور شیعہ مسلمانوں پر حملے ہوتے آئےہیں۔ لشکر جھنگوی جوکہ ایک اینٹی شیعہ دہشت گرد تنظیم ہے جس کے نظریے کے مطابق شیعہ مسلمانوں کو کافر خیال کیا جاتا ہے۔ 2001 سے پاکستان کی گورنمنٹ کی جانب سے لشکر جھنگوی اور اس کی مادر تنظیم سپاہ صحابہ پر پابندی ہے جو کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ہی پیداکردہ ہیں تاکہ شیعوں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے پاکستانی صدر ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے پالیسیوں پر اعتراض کیا تھا۔

لشکر جھنگوی پر پابندی کے باوجود حکومت بلوچستان نے انتہا پسند گروپوں کو فروغ دینا جاری رکھا۔ ستمبر 2013 میں آواران کے علاقے میں بڑے پیمانے پر زلزلے ہونے کے بعد بین الاقوامی انسانی تنظیموں اور صحافیوں کی علاقے تک رسائی سے انکار کر دیا اور اسکی بجائے انتہا پسند فلاحی گروپوں جیسے فلاح انسانیت فاونڈیشن( لشکر طیبہ کی فرنٹ تنظیم)اور الخیر( جیش محمد کی ایک فرنٹ تنظیم )کو دوبارہ آبادکاری کیلئے کام کرنے کی اجازت دی گئی۔درحقیقت یہ تنظیمیں دہشت گرد تنظیموں کی پراکسی ہیں تاکہ وہ صوبے میں اپنی طاقت کو مضبوط کرنا جاری رکھیں۔

سیکورٹی ایجنسیوں اور انتہا پسندگروپوں کے درمیان روابط کے نتیجے میں جرائم پیشہ گروپوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور سیکورٹی صورتحال بگڑتی گئی۔ فرنٹیر کور بلوچستان کی اہم سیکورٹی ایجنسی (ایف سی ) پر باقاعدگی سے سمگلنگ اور کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ اس سال ایف سی کے 6 سینئر آفیسرز جن میں 2010-2013 تک کے رہنما لیفٹیننٹ جنرل کو بلوچستان میں کرپشن میں ملوث ہونے کی وجہ سے ملازمت سے برطرف کر دیا گیا جو کہ اس گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتا ہے۔

دریں اثناء پاکستانی گورنمنٹ کی بلوچ قوم پرست گروپوں کے خلاف منظم کاری ضرب لگانے کے نتیجے میں نہ صرف حقیقی سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ عام بلوچوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جبری گمشدگیوں، تشدد اور ٹارگٹ کلنگ کی واقعات میں جاری رہنے کے واقعات کی تعداد حدود سے بڑھ گئے ہیں۔

عملی طور پر صوبہ صحافیوں کیلئے نو گو ایریا بن گیا ہے اور حقوق کیلئے بےچینی کے سوالات اٹھانے والوں کا قتل ایک معمول بن گیا ہے پاک گورنمنٹ کی جانب سے بلوچستان کے بارے میں انفارمیشن بلیک آؤٹ ہے انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے توہین عدالت کی عکاسی کرتی ہیں۔

اب پاکستانی گورنمنٹ کو یہ سنگین انتخاب کرنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر تمام جہاد ی گروپوں کے خلاف کارروائی کرے یا پھر سے اس قسم کے دھچکہ آمیز واقعات سے سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جو کہ کوئٹہ میں پیش آیا۔ بلوچستان میں حالات مزید خراب ہو نگے اور حکومتی ادارے اپنے برے اقدامات کی تشریح کیلئے قربانی کے بکروں کو تلاش کرنا جاری رکھیں گے۔

عموماً سارا الزام تصوراتی بیرونی سازشوں پر لگایا جاتا ہے مقامی آبادی پہلے سے ہی دہشت گردی کی کاری ضرب، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی، انتہا پسند اسلامی گروپوں کو ریاستی سرپرستی اور وسائل کے لحاظ سے امیر ہونے کے باوجود غربت کا سامنا ہے اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستانی ریاست اپنی غلط سیاست اور پالیسیوں کی وجہ سے جوابدہ ہو جو کہ سالوں سے قائم ہے اور بلوچستان میں قابل رحم مقامی آبادی کی حالت زار کابین الاقوامی تحقیقات کرنے کیلئے اجازت دینے پر دباؤ ڈالا جائے۔

نوٹ: یہ تحریر

eptoday.com

میں شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے

Baluchistan:time to take notice

انگریزی سے ترجمہ:مجید زھیر بادینی

One Comment