آصف جاوید
قارئین اکرام گزشتہ دن ہمارے لئے بہت ہی کربناک تھا، مہاجر ہونے کی بناء پر ہماری ساری زندگی بدترین تعصّب اور احساسِ محرومی میں گزری ہے۔ دسویں جماعت میں تھے کہ پاکستان ٹوٹ گیا، سقوط ڈھاکہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اس سے پہلے اپنا بچپن جس ماحول میں گزارا ، وہ مہاجروں پر ابتلاء کا تو نہیں، مگر آزمائش کا ضرور تھا۔
ہمارے بچپن میں جس محلّے میں ہم رہتے تھے وہاں جب ہمیں ہندوستانی، مہاجر، پناہ گیر، مکّڑ اور تلیر کے نام سے پکارا جاتا تھا تو گھر آکر ہم اپنے ماں باپ سے یہ ضرور پوچھتے تھے کہ ہمیں مہاجر کیوں کہا جاتا ہے، پناہ گیر کیوں کہا جاتا ہے۔
ہمارے ماں باپ مسکرا کر ہمیں کہتے تھے کہ بیٹا، ہم مسلمان ہیں، ہم پاکستانی ہیں، یہ ملک ہم نے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے طور پر بنایا ہے، اس کی خاطر جدوجہد کی ہے، انڈیا سے ہجرت کی ہے، جان و مال کی قربانیاں دی ہیں ، زمین جائیداد چھوڑی ہے، اب یہ وطن ، پیارا پاکستان، ہمارا ہی وطن ہے، تمہیں کوئی بھی کچھ کہے تم دل چھوٹا مت کرو، ہم مہاجر نہیں، ہم پناہ گیر نہیں، ہم پاکستانی ہیں اور یہ ہمارا وطن ہے۔ آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور ہم سب ایک نہ ایک دن پاکستانی ضرور بن جائیں گے۔
قارئین اکرام ، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا، سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بقیہ پاکستان کی باگ ڈور بھٹّو صاحب نے سنبھالی، بھٹّو صاحب کے فرسٹ کزن متعصّب سندھی وڈیرے جناب ممتاز بھٹّو سندھ کے وزیرِ اعلی‘ بنے اور سندھ میں لسّانی بل لایا گیا، مہاجروں کو ان کی ثقافت اور زبان اور مساوی حقوق سے سے یکسر محروم کر دیا گیا۔سندھی مہاجر فسادات پھوٹ پڑے، اندرونِ سندھ سے وہ مہاجر جو جو زراعت سے منسلک ہوگئے تھے، اپنی زمینیں چھوڑ چھوڑ کر واپس شہروں میں مہاجر آبادیوں کا رخ کرنے لگے۔
ذوالفقار علی بھٹّو اقتدار میں تھے، مہاجروں پر کرم فرمائی کرتے ہوئے صرف ایک دن میں بیک جنبشِ قلم 350 سے زیادہ سول سروس کے مہاجرین افسران کو تمام بڑی اعلی‘ سرکاری ملازمتوں اور عہدوں سے فارغ کردیا، پھر مہاجروں پر مزید کرم فرمائی اس طرح فرمائی کہ مہاجروں کے قائم کردہ تعلیمی ادارے اور صنعتیں قومی ملکیت میں لے لیں۔
عوام کو یہ کہا کہ پورے ملک کی صنعتیں اور تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لئے گئے ہیں ، مگر کسی کو اعداد و شمار سے یہ نہیں بتایا کہ پورے ملک میں 75 فیصد سے زائد تعلیمی ادارے، اور 85 فیصد سے زیادہ صنعتیں ان مہاجروں کی ہیں جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد قائدِ اعظم کی دعوت پر پاکستان آکر یہ صنعتیں اور تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں۔
مہاجروں کو اعلی سرکاری ملازمتوں، تعلیمی اداروں اور صنعتوں سے محروم کرنے کے بعد بھٹّو صاحب نے فرزندانِ زمین کے جملہ حقوق کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آئینی و قانونی طور پر محفوظ کرنے کے لئے صوبہ سندھ کو شہری اور دیہی سندھ میں باقاعدہ طور پر تقسیم کردیا اور شہری و دیہی کوٹہ سسٹم کا نفاز کردیا ۔ جب کہ باقی ملک میں ایسا نہیں کیا گیا۔
کراچی، حیدرآباد، سکھّر کی آبادی مہاجروں پر مشتمل تھی اس کو شہری سندھ قرار دیا، اور بقیہ آبادی کو دیہی سندھ قرار دیا۔ مردم شماری کے مطابق شہری آبادی 60 فیصد تھی، جس کا کوٹہ 40 فیصد مقرّر کیا گیا ، اور 40 فیصد دیہی آبادی کا کوٹہ 60 فیصد مقرّر کردیا گیا۔ مہاجروں کے ساتھ ظلم و نا انصافی یہاں ختم نہیں ہوئی ، بلکہ گذشتہ 43 سال سے مہاجروں کو سندھ کی سرکاری ملازمتوں اپنا 40 فیصد کوٹہ بھی نہیں ملتا۔ مہاجروں کے ساتھ سندھ میں ہر سطح پر تعصّب برتا جاتا ہے، اور اب تو تعصّب کے ساتھ ساتھ مہاجر وں کو ریاستی جبر وتشدّد کا بھی سامنا ہے۔
سنہ 1985-1986 میں مہاجروں نے اپنی سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ بنا کر اپنے حقوق کے لئے اپنی سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا ۔ مہاجروں کی سیاسی جماعت مہاجر قومی موومنٹ 1992 میں پہلی بار ریاستی اداروں کے جبر و تشدّد کا نشانہ بنی۔ بعد میں مہاجر قومی موومنٹ کو متّحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کرکے ملک کے تمام مظلوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد کے لئے وسیع تر کردیا گیا، متّحدہ قومی موومنٹ ابھی تک اسٹیبلشمنٹ (مقتدرہ) کے ساتھ نفرت اور محبّت کے رشتے میں بندھی اپنی سیاسی جدوجہد کرتی چلی آرہی ہے۔
قائدِ تحریک کی تقاریر کی وجہ سے اکثر ایم کیو ایم سیاسی اور ریاستی عتاب میں آتی جاتی رہتی ہے۔ اِدھر اسٹیبلشمنٹ مہاجروں کو انصاف نہیں دیتی ، مساوی حقوق نہیں دیتی۔ اُدھر الطاف بھائی اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتے، نتیجہ یہ ہے کہ محبِّ وطن مہاجر جو پاکستان کی جغرافیائی حدود میں رہتے ہوئے، آئینی و قانونی حقوق کی جدوجہد میں ایم کیو ایم کے ساتھ ہیں۔ غدّارِ وطن اور انڈیا کے ایجنٹ گردانے جاتے ہیں۔
گذشتہ روز تو حد ہوگئی ، الطاف بھائی غصّے اور رنج کی حالت میں اول فول بکتے گئے، اور جذباتی نوجوانوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگادئے، پھر کیا تھا، اسٹیبلشمنٹ کو تو جواز مل گیا، اور انہوں نے آن” فانا” ایم کیو ایم کے جن کو بوتل میں بند کرکے ، ایم کیو ایم کا چیپٹر ہی کلوز کردیا ہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ کل سارے دن کی ہنگامہ آرائی کے بعد ایک طرف الطاف حسین نے اپنے کئے اور کہے کی معافی مانگ لی ہے تو دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار نے پاکستان میں پارٹی کا کنٹرول سنبھالنے اور لندن کی قیادت سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کردیا ہے۔
فاروق ستّار نے کہا ہے کہ اگر الطاف حسین کسی بھی قسم کی اشتعال انگیز باتیں ذہنی دباؤ یا کسی بیماری کی وجہ سے کرتے ہیں تو پہلے اس مسئلہ کو حل ہونا چاہئے اور اس وقت تک وہ خود پارٹی کے معاملات پاکستان سے چلائیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں رجسٹر سیاسی جماعت ہے اور وہ یہاں کے قانون اور آئین کا احترام کرتی ہے۔ اس طرح متحدہ قومی موومنٹ کی پاکستان میں قیادت نے عملی طور پر خودمختاری کا اعلان کرتے ہوئے الطاف حسین کو پارٹی معاملات سے علیحدہ کر دیا ہے۔
مگر اس ساری صورتحال میں بطور محبِّ وطن پاکستانی ہمارا نعرہ ہے
پاکستان زندہ باد
سب سے پہلے پاکستان
مگر کوئی یہ نہ سمجھے کہ مہاجروں پر غدّاری کا لیبل لگا کر مہاجروں کو ان کے حقوق کی جدوجہد سے محروم کردیا جائے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت مہاجروں پر غدّاری کا الزام لگا کر مہاجروں کو قومی دھارے اور ملک کی سیاست سے دور نہیں کرسکتی۔ یہ ملک پاکستان تو بنایا ہی مہاجروں کے بزرگوں نے ہے۔ جان و مال کی قربانیاں دیں، آگ و خون کا دریا پار کیا تو یہ پاکستان بنا تھا ، مہاجر صوبہ سندھ میں اپنے جائز آئینی و قانونی حقوق اور مساوی شہری حقوق کے حصول تک پر امن سیاسی جدوجہد جاری ر کھیں گے۔ کسی غلط فہمی میں نہیں رہا جائے، جو ملک بنا سکتے ہیں، وہ اپنا حق بھی لے سکتے ہیں، ۔
سب ہی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹّی میں
کسی کے باپ کا پاکستان تھوڑی ہے
♦
One Comment