پاکستان میں اج کل سائبر کرائم بل پر بحث ہو رہی ہے۔ملک کے دانشور حلقے متفقہ طور پر اس کو کالا قانون قرار دے رہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میں نے پاکستان میں دہشت گردی کے نام پر بنائے جانے والے کالے قوانین پر ایک کالم لکھا تھا۔ یہ کالم سائبر کرائم بل کے نام پر بنائے جانے والے کالے قوانین پر بھی صادق اتا ہے ، جسے میں یہاں کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ دوبارہ پیش کرتا ہوں۔
اگرچہ ارباب اختیار کا اصرار ہے کہ یہ قانون صرف جرائم پیشہ افراد کے لیے ہے ، مگر پاکستان میں کالے قوانین کی تاریخ کچھ اور کہتی ہے۔ پاکستان بننے کے فوراً بعد مختلف آرڈیننس کے ذریعے کالے قانون بننے شروع ہو گئے تھے۔کئی امن عامہ کے نام پر، کئی ملکی سلامتی اور تحٖفظ کے نام پر اور کئی سالمیت کے نام پر۔ لیکن حقیقت میں یہ قوانین صرف سیاسی کارکنوں کے خلاف ہی استعمال ہوئے۔ان کالے قوانین کا پہلا استعمال پاکستان کی ترقی پسند قوتوں کے خلاف ہوا ۔
ان قوانین کے سہارے سامراج کو خوش کرنے کے لیے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگائی گئی۔ ملک کی پہلی منظم سیاسی پارٹی پر پابندی لگانے کے بعد ان ہی کالے قوانین کے تحت اس پارٹی کے رہنماوں کو گرفتار کیا جانے لگا۔ سجاد ظہیر اور حسن ناصر سمیت کئی گرفتار ہوئے۔ کئی زیر زمیں چلے گئے۔حسن ناصر کو وحشیانہ تشدد کے ذریعے شہید کر دیا گیا۔ کئی کو قید بامشقت کی سزائیں بھی ان ہی کالے قوانین کے تحت دیں گئیں۔
یہ بھی کالے قوانین کا ہی کمال تھا کہ ملک کی پہلی بڑی ادبی تنظیم ،انجمن ترقی پسند منصفین کو سیاسی پارٹی قرار دیکر اس پر پابندی لگا دی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر پہلا شب خون تھا۔۔ پھر یہ ریت چل پڑی۔ اور یہ رسی آہستہ آہستہ سب کے گلے کا پھندہ بنی۔ ان کالے قوانین کے خلاف سول سوسائٹی کی طرف سے کوئی رد عمل نہ دیکھ کر فوجی طا لح آزماؤں کی نیتوں میں فتور آگیا۔ انہوں نے ملک پر کالے قوانین کی ماں یعنی مارشل لا مسلط کر دیا۔ سیاست کی بساط ہی لپیٹ دی۔ اور انسانی حقوق کا قصہ ہی ختم کر دیا۔
جنگ کا بہانہ بنا کر رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔ جنگ کے نام پر پاکستان ڈیفنس رولز جیسے کالے قوانین نافذ کر دئیے گئے۔ اس وقت کابینہ میں ذولفقار علی بھٹو جیسا قانون کا پروفیسر بھی بیٹھا تھا۔ مگر کسی نے یہ سوال نہ کیا کہ جنگ ہم بھارت سے لڑ رہے ہیں اور ڈاکہ ہم پاکستانی عوام کے حقوق پر کیوں ڈال رہے ہیں ؟ اس خاموشی کی سزا خود ذولفقار علی بھٹو کو بھی بھگتنی پڑی۔ایوب خان نے ان ہی قوانین کے تحت انہیں گرفتار کیا۔
مگر اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ تھی کہ خود ذولفقار علی بھٹو جیسے نابغہ روزگار شخص نے نا صرف یہ کہ اپنے دور میں یہ قوانین برقرار رکھے بلکہ ان کا بے دریغ استعمال بھی کیا۔ ان ہی کالے قوانین کا سہارا لے کر پھرپاکستانی عوام پر انسانی تاریخ کا شاید سب سے خوفناک، بے رحم اور سفاک شخص مسلط ہو گیا۔جو قوانین اس نے قوم پر مسلط کیے انہیں کالے قوانین کہنا خود کالے قوانین کی توہین ہے۔ پھر چشم فلک نے وہ تماشا دیکھا جو اس نے ہلاکو اور چنگیز کے دور میں بھی نہ دیکھا ہو گا۔
تاریخ کے سب سے غیر منصفانہ مقدمے کے ذریعے ذولفقار علی بھٹو کو شہید کیا گیا۔ شاہی قلعے جیسے عقوبت خانے کارکنوں سے بھر دئیے گئے۔شاہراوں پر عورتوں کے کپڑے پھاڑے گئے۔ کوڑے اور لاٹھی کا چلن عام ہوا۔ اگرچہ خود ضیا الحق کے لے پالک محمد خان جونیجو نے قانون کی کتابوں سے یہ کالے قوانیں ہٹا دئیے مگر عملی طور پر پاکستان کے سیاسی کلچر میں یہ قوانین جوں کے توں رہے۔ جو عمل پہلے ان قوانین کی روشنی میں ہوتا تھا اب رات کے اندھیرے میں ہونے لگا۔ یہ کام ایجنسیوں نے اپنے ذمے لے لیا۔
بلوچستان سے کئی قوم پرست اور ترقی پسند رات کی تاریکیوں میں غائب ہو گئے۔ یا پھر دن کی روشنی میں موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔ اکیسویں صدی کے اس دوسرے عشرے میں پاکستان کی ایک منتخب حکومت کو ان کالے قوانین کو دوبارہ کتابوں میں ڈالنے کی ضرورت پڑ گئی جومحمد خان جونیجو جیسے شخص کو بھی گوارا نہ تھے۔
اب جو سائبر کرائم کے نام سے جو کالے قانون بنائے جا رہے ہیں یہ صرف آزادی اظہار رئے پر پابندی لگانے کے لیے استعمال ہوں گے۔ اس کا پہلا شکار سوشل میڈیا ہو گا۔فیس بک وغیرہ پر پابندی کے لیے ان قوانین کا سہارا لیا جائے گا۔پاکستان میں ایک ایسا طاقتور مائنڈ سیٹ موجود ہے جو فیس بک اور یو ٹیوب جیسے ذرائع ابلاغ سے سخت خوفزدہ ہے۔ان کے لیے یہ بات نا قابل برداشت ہے کہ نوجوان نسل کو علم کے ان ذرائع تک آزادانہ رسائی ہو۔چنانچہ وہ اس پر پابندی لگانے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔