آصف جیلانی
پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نے اپنے ایک اہم فیصلہ میں کہا ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں وزیر اعظم نہ تو صدر کا متبا دل ہوتا ہے اور نہ ہی اسے مطلق العنان حکمران کی حیثیت حاصل ہے۔وزیراعظم حکومت کا سربراہ ضرور ہے لیکن تمام اہم فیصلوں کی مجاز حکومت ہے جو وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔
گو جسٹس ثاقب نے یہ فیصلہ ، بعض نجی کمپنیوں کی طرف سے ٹیکسوں میں اچانک اضافہ کے خلاف دایر کی گئی ایک درخواست پر دیا ہے جس میں ایک وزارت کی طرف سے ٹیکسوں میں اضافہ کو چیلنج کیا گیا تھا لیکن جسٹس ثاقب کا فیصلہ ، پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول کا آئینہ دار ہے۔
پاکستان میں ہم اس بات پر اتراتے ہیں کہ ہمارے ہاں برطانیہ کے انداز کی پارلیمانی جمہوریت ہے ، لیکن پارلیمانی جمہوریت کا ،کابینہ کے اجتماعی فیصلہ کا جو بنیادی اصول ہے ہم اس کی اس قدر بے حرمتی کرتے ہیں کہ جمہوریت کو بھی شرم آتی ہے۔
پارلیمانی جمہوریت میں اہم فیصلوں کا کلی اختیار کابینہ کو حاصل ہوتا ہے جس کی توثیق ،عوام کے منتخب نمایندوں کی پارلیمنٹ کرتی ہے۔ پاکستان میں اب بھی بہت سے لوگوں کو یاد ہے کہ جب ۷۳ ء کا آئین مرتب کیا جارہا تھا تو ذوالفقار علی بھٹو ، صدارتی نظام کے حق میں تھے اور اس پر اٹل تھے لیکن نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت میں حزب مخالف، ملک کے مختلف صوبوں کی ہیت اور مفادات کے پیش نظر ، آئین
پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد پر تحریر کرنے پر مصر تھی، اور آخر کار بھٹو صاحب کو حزب مخالف کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور پارلیمانی نظام کو ملک کا حکمران نظام کے طور پر اختیار کرنے پر راضی ہوگئے۔
لیکن اس زمانہ سے پارلیمانی نظام نے در پردہ صدارتی نظام کا لبادہ اوڑھ لیاتھا۔ وجہ اس کی بھٹو صاحب کا آمرانہ مزاج تھا۔ کسی اہم مسئلہ پر کابینہ میں غور نہیں کیا جاتا تھابلکہ جو فیصلہ بھٹو صاحب کا ہوتا تھا کابینہ اس پر منظوری کی مہر ثبت کر دیتی تھی۔حتی کہ اس زمانہ میں جب انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر حکومت کے خلاف تحریک چل رہی تھی اور متحدہ حزب مخالف سے مذاکرات ہورہے تھے ، اس وقت بھی کابینہ میں مذاکرات پر اور اس کے بارے میں حکمت عملی پر غور نہیں کیا گیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مذاکرات ناکام رہے یا کسی سمجھوتے سے پہلے ہی جنرل ضیاء نے مارشل لاء نافذ کر کے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔
یہ بات غلط نہ ہوگی اگر یہ کہا جائے کہ ۷۳ء میں پارلیمانی جمہوریت کے ابتدائی دنوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمانی نظام کو جو صدارتی لبادہ پہنایا تھا وہ ملک کے پارلیمانی نظام پر مستقل پلانے کی صورت اختیار کر گیا اور وہ ایسا چمٹا کہ کبھی نہ اتر سکا۔ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں اور نواز شریف کے اس سے قبل دو ادوار اور اب تیسرے دور میں بھی پارلیمانی نظام پر یہی آمرانہ انداز مسلط ہے۔ ملک کے مسائل کے بارے میں تمام اہم فیصلے نواز شریف یا ان کے خاندان کے گنے چنے افراد کرتے ہیں ، کابینہ میں ان پر اجتماعی غور نہیں ہوتا۔ ویسے بھی کابینہ کے اجلاس شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں اور جب ہوتے ہیں تو ان میں وزیر اعظم نواز شریف کے فیصلوں کی محض منظوری حاصل کی جاتی ہے۔
پاکستان کے پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ کا عالم یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کبھی کبھار ہی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں۔یا تو وہ اس کی اہمیت اور حیثیت پر یقین نہیں رکھتے یا اس میں شرکت کو اپنے عہدہ کے لائق نہیں سمجھتے ۔ یہ ان کا ہتک آمیز رویہ ہے عوام کے منتخب نمایندوں کی پارلیمنٹ کے تئیں جس نے انہیں وزیر اعظم منتخب کیا ہے۔قومی اسمبلی کا بھی عجب انداز ہے ۔ نہ سوالات کا وقفہ، نہ وزیر اعظم سے سوال اور نہ کسی اہم مسئلہ پر ان سے جواب طلبی اور تو اور دہشت گردی کے خلاف اہم اقدامات کئے گئے ان پر قومی اسمبلی میں کوئی بحث نہیں ہوئی ، خارجہ امور کے اہم مسائل ، ملک کو درپیش ہوئے کبھی ان پر قومی اسمبلی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ان پر بحث ہوئی۔
بہت سے لوگوں کو برا لگے گا اگر میں پڑوسی ہندوستان کی مثال پیش کروں۔ میں ۵۹ء سے ۶۵ء تک دلی میں تعینات تھا ۔ میں یہ دیکھتا تھا کہ وزیر اعظم نہرو ہر روز بڑی باقاعدگی سے لوک سبھا میں حاضر ہوتے تھے اور خاص طور پر بارہ بجے جب سوالات کا وقفہ ہوتا تھا۔ ہر اہم مسئلہ پر لوک سبھا میں بحث ہوتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ لوک سبھا کے اجلاس کے دوران ، نہرو کسی بھی اہم فیصلہ کا اعلان لوک سبھا کے باہر نہیں کرتے تھے۔ یہ روایت نہرو کے بعد بھی برقرار رہی۔ مجھے یاد ہے کہ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ کو پاکستان کے ساتھ جنگ کا بھی اعلان لال بہادر شاستری کے وزیر دفاع چوان نے لوک سبھا میں کیا تھا۔
پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ۷۳ کے آئین سے جمہوریت کی بنیاد پڑی ہے لیکن اسی زمانہ سے پارلیمانی جمہوریت پر سیاسی آمریت چھائی رہی ہے ۔ وجہ اس کی ہماری سیاسی قیادت کا آمرانہ مزاج ہے چاہے وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں یا بے نظیر بھٹو یا نواز شریف ہوں۔ اور اگر دیکھا جائے تو اصل وجہ اس سیاسی آمریت کی ہماری سیاسی جماعتوں کا نظام ہے جو خالص نجی جاگیریں بن گئی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں انتخاب کی کوئی روایت نہیں رہی۔
سوائے ایک دو جماعتوں کے دوسری تمام جماعتوں میں موروثی سلسلہ ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی قیادت سنبھالی ، بغیر کسی انتخاب کے۔ پھر ان ہی کی زندگی میں بے نظیر بھٹو پارٹی کی سربراہ بنیں وہ بھی کسی انتخاب کے بغیر، او ر ان کے قتل کے بعد وصیت کے ذریعہ جس کی پارٹی کے رہنماوں نے صرف دور سے ایک جھلک دیکھی اس کے بعد اس وصیت کو ہوا نہیں لگی بلکہ اسے صندوق میں بند کر کے رکھ دیا گیا۔ ویسے بھی یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی سیاسی جماعت کا سربراہ وصیت کے ذریعہ مقرر کیا گیا ہو۔
حکمران مسلم لیگ ن کے اگلے قائدکے لئے کہا جاتا ہے کہ نواز شریف اپنی صاحب زادی کو تربیت دے رہے ہیں اور ان کے بھائی شہباز شریف اپنے صاحب زادے حمزہ کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ق چوہدری برادران کی ذاتی ملکیت ہے اور چوہدری پرویز الہٰی کے صاحب زادے کو قیادت کے لئے تیار کیا جارہا ہے۔ اے این پی بھی موروثی سیاست کے مرض کا شکار ہے۔ ولی خان کے بعد ان کے صاحب زادے اسفندیار ولی پارٹی کے سربراہ ہیں ۔
عمران خان کی تحریک انصاف ابھی بقول شخصے دو کیش مشینوں کے محاصرے میں ہے اور عمران خان کے صاحب زادوں کو پاکستان اور پاکستان کی سیاست سے کوئی دلچسبی نہیں۔ ایم کیو ایم کا نظام سب سے مختلف ہے۔ وہاں نہ تو قائد کا انتخاب ہوتا ہے اور نہ رابطہ کمیٹی کا ۔ اب رہ گئی جماعت اسلامی جو موروثی مرض سے بچی ہوئی ہے لیکن امیر کا انتخاب ہر کارکن نہیں لڑ سکتا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا غیر جمہوری نظام اور قیادت کا آمرانہ مزاج ، حقیقی معنوں میں پارلیمانی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ ہے جس کے ، ختم ہونے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آتا۔اگر اس وقت کچھ نظر آتا ہے تو وہ صرف شرم سار جمہوریت ہے۔
♠