آصف جیلانی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت نے نہ صرف ترکی بلکہ مشرق وسطیٰ سمیت بڑی حد تک عالمی سیاست کا نقشہ بدل دیا ہے۔ ترکی میں تمام سیاسی جماعتوں نے بجز کردوں کی نمایندہ جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے جمہوریت کے پرچم تلے یک جہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ گذشتہ اتوار کو استنبول میں تمام سیاسی جماعتوں کا اجتماع ہوا جس میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی۔
توقع تھی کہ اس موقع پر حکومت اور کردوں کے درمیان مفاہمت کی راہ ہموار ہو سکے گی لیکن کردو ں کی جماعت کو جس کے پارلیمنٹ میں59 اراکین ہیں ،اس اجتماع میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی کیونکہ صدر اردوان کردوں سے ہاتھ ملانے کے لئے تیار نہیں جن کی مسلح تنظیم ’’ پی کے کے ‘‘حالیہ دھشت گرد حملوں میں ملوث رہی ہے۔ بہرحال ترکی کی تمام جماعتیں بشمول کردوں کی جماعت کے، جمہوریت کے دفاع میں ایک ساتھ ہیں ۔
گو ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر ادوان نے ہنگامی حالت کے نفاذ کے بل پر ، وسیع اختیارات حاصل کئے ہیں اور 70 ہزار افراد کو جن کا فوج، پولیس، عدلیہ ، یونیورسٹیوں ، ہسپتالوں اور صحافت کے شعبہ سے تعلق ہے گرفتار کیا ہے لیکن ان گرفتاریوں پر ملک میں کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی ہے، یہ خاموشی بہت سے مبصروں کو ترکی میں فوجی آمریت کے ادوار کی یاد دلاتی ہے، لیکن یہ خاموشی جمہورت نواز جماعتوں کی ہے جسے سیاسی جماعتوں کا بے مثل اتحاد قرار دیا جارہا ہے ۔
تاہم یورپی ملکوں نے ان اقداما ت کو قدرے انتہا پسند قرار دیا ہے اور خیال ظاہر کیا ہے کہ ان سے انتقام کی بو آتی ہے ۔صدر اردوان کو یورپ کے اس ردعمل کی پرواہ نہیں کیونکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکی اب یورپی یونین میں شمولیت کے لئے اتنا بے قرار نہیں جتنا کہ پچھلے تیس برس کے دوران تھا۔ترکی کی قیادت کو اب احساس ہوگیا ہے کہ یورپ کسی صورت میں ترکی کو اپنی صف میں شامل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
ترکی کے رویہ میں یہ تبدیلی بلا شبہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد آئی ہے جسے یہ شکایت ہے کہ یورپ نے اس دوران جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی ، ترکی کی جمہوری حکومت کی بھرپور حمایت نہیں کی ۔ ترکی کے عوام اس انکشاف پر سخت بر انگیختہ ہیں کہ ناٹو کے سابق امریکی کمانڈر کا اس ناکام بغاوت میں ہاتھ تھا۔
مبصرین کے نزدیک ، ناکام فوجی بغاوت کے بعد سب سے زیادہ اہم تبدیلی ترکی اور روس کے تعلقات کے نئے باب کے آغاز کی ہے جس کے نہ صرف ترکی اور آس پاس کے علاقہ بلکہ مشرق وسطی اور عالمی سیاست کی بساط پر دور رس نتایج مرتب ہوں گے۔
گذشتہ منگل کو سینٹ پیٹرس برگ میں صدر اردوان کی روس کے صدر پوتین سے ملاقات ہوئی جسے تاریخ ساز قرار دیا جارہا ہے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر اردوان کا یہ پہلا غیر ملکی دورہ تھا۔گذشتہ سال نومبر میں جب ترکی کی سرحد پر ترکی کی فضایہ نے روس کے لڑاکا طیارہ کو مار گرایا تھا تو اس وقت ترکی اور روس کے درمیان تعلقات سخت بحران کا شکار ہو گئے تھے ۔ روس نے ترکی کے خلاف تادیبی اقدامات کئے تھے۔
ترکی کی زرعی اشیاء کی درآمد بند کردی تھی جس کی وجہ سے ترکی کو ایک ارب ڈالر سالانہ کا خسارہ برداشت کرنا پڑا، روس میں ترکی کو ۵ ارب ڈالر کی مالیت کے تعمیراتی ٹھیکے حاصل تھے وہ منسوخ کر دیے گئے۔ روس کے سیاحوں سے ترکی کو ۳ ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے اس پر بھی روس نے پابندی عاید کر دی تھی۔ علاوہ ازیں ترکی روس سے اپنی ضرورت کی ۵۵ فی صد گیس درآمد کرتا ہے اس کی رسد بھی روس نے بند کر دی تھی غرض روس کے تادیبی اقدامات سے ترکی کی معیشت کو اس پیمانہ پر نقصان ہو رہا تھا کہ اس کے لئے ناقابل برداشت تھا۔
یہی وجہ ہے کہ گذشتہ جون میں صدر اردوان نے ٹیلی فون پر صدر پوتین سے تفصیلی بات کی تھی اور روسی طیارہ کے حادثہ پر معافی مانگی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اسی گفتگو میں صدر پوتین نے صدر اردوان کو مطلع کیا تھا کہ ان کی انٹیلی جنس کے مطابق روسی طیارہ پر حملے کے پیچھے در اصل ترکی کے فضائی اڈہ انکرلیک پر تعینات امریکی فضائیہ کے افسر ملوث تھے۔ اس گفتگو کے بعد صدر اردوان کی امریکا اور یورپی یونین سے سرد مہری نے واشنگٹن ، تل ابیب اور لندن کو خوف زدہ کردیا۔ سب سے زیادہ خطرہ امریکا اور اسرائیل کو ہوا جو کسی صورت میں ترکی کو اپنے فوجی، سیاسی اور اقتصادی تسلط سے آزاد ہونے کے اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔
اب یہ حقائی بھی واضح طور پر سامنے آ گئے ہیں کہ ناکام فوجی بغاوت کے پیچھے ، گولن کی تحریک کے ساتھ سی آئی اے ، اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد اور برطانیہ کی انٹیلی جنس ایجنسی MI6کا ہاتھ تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے اور یورپ اور ناٹو سے سرد مہری پر یہ قوتیں صدر اردوان سے سخت ناراض تھیں پھر جب صدر اردوان پوتین سے ملنے ماسکو گئے تو، اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ صدر اردوان روس کے اتحادی بننے جارہے ہیں ۔
ممکن ہے کہ ترکی ناٹو سے قطع تعلق کر لے اور امریکا ترکی میں انکرلیک کے فضائی اڈہ سے محروم ہوجائے ، جہاں امریکا کے جوہری بم نصب ہیں اور پانچ ہزار امریکی تعینات ہیں ۔ان سب خطرات کے پیش نظرجولائی کے اوائل میں یہ طے کر لیاگیا کہ صدر اردوان سے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے اور فوجی بغاوت کے ذریعہ لیبیا کے قذافی اور عراق کے صدام حسین کی طرح صدر اردوان اور ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔
تاریخ اس اقدام کے لئے وسط اگست کی طے ہوئی تھی لیکن جب سی آئی اے ، موساد اور MI6گویہ اطلاعات ملیں کہ پوتین ترکی کے خلاف تادیبی اقدامات ترک کرنے کے لئے تیار ہیں اور اردوان انکرلیک کے فضائی اڈہ سے امریکا کو بے دخل کرنے اور اس پر مکمل قبضہ حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تونہایت عجلت میں 15 جولائی ہی کو فوجی بغاوت کا حکم دیا گیا۔ عجلت کی وجہ سے منظم طور پر بغاوت کی منصوبہ بندی نہ ہوسکی اور ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ صدر پوتین نے بغاوت سے ذرا پہلے اپنا ایک خاص ایلچی ترکی بھیج کر صدر اردوان کو خبردار کر دیا تھا کہ فوج کی بغاوت کا خطرہ ہے۔
اسی بناء پر جیسے ہی بغاوت شروع ہوئی صدر ادوان نے فوری طور پر عوام کو فوج کے خلاف منظم کرلیا ۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ ترکی میں امریکا کے نشریاتی ادارہ سی این این پر صدر اردوان نے عوام سے فوج کے خلاف سڑکوں پر نکل آنے کی اپیل کی۔ اردوان کو یہ یقین ہے کہ صدر پوتین نے ان کی جان بچائی ہے کیونکہ اس بغاوت کے دوران ان کو ہلاک کرنے کا منصوبہ تھا۔
سینٹ پیٹرس برگ میں اردوان اور پوتین کی ملاقات میں ترکی اور روس کے درمیان اتحادیوں ایسے قریبی تعلقات استوار کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ روس نے ترکی کے خلاف تادیبی اقدامات بھی ترک کرنے کا اعلان کیا ہے اور روس نے ترکی میں پہلا جوہری پلانٹ تعمیر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ سب سے اہم فیصلہ یہ ہوا ہے کہ شام کی خانہ جنگی کے بارے میں دونوں رہنماوں کے درمیان اگلی ملاقات میں مفاہمت کے امکان کا جائزہ لیا جائے گا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اس امر کا قوی امکان ہے کہ ترکی ، شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت سے بر سر پیکار تنظیموں کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لے اور روس کے ساتھ مل کر ان تنظیموں کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہو جائے۔ اس صورت میں شام میں خانہ جنگی کے ایک نئے مرحلہ میں داخل ہونے کا اندیشہ ہے۔ مبصرین کے نزدیک روس اور ترکی کے اتحاد کے نتیجہ میں ترکی اور ایران کے تعلقات نیا رخ اختیار کر سکتے ہیں اور چین سے بھی ترکی کے قریبی تعلقات استوار ہونے کا امکان ہے۔
روس سے قربت کے نتیجے میں ، ترکی کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہے اور حال میں اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات کی جو تجدید ہوئی تھی اس پر بھی اثر پڑنے کا خطرہ ہے ۔ بلاشبہ ترکی اور روس کی قربت سے ایک ہمہ گیر اتھل پتھل مچنے کا خطرہ ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ترکی اور امریکا کے رشتے کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ فی الحال ایک عرصہ تک فتح اللہ گولن کا معاملہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کی فصیل برقرار رکھے گا۔