پاکستان کے بہت سے معاملات کی طرح مردم شماری کا معاملہ بھی متنازعہ چلا آرہا ہے ،غالباً آخری مردم شماری 1988 میں کروائی گئی تھی جبکہ آئین کے مطابق حکومت ہر دس سال کے بعد مردم شماری کروانے کی پابند ہے مگر ہر بار حکمران اس معاملے کہ کسی نہ کسی طرح التوامیں ڈال دیتے ہیں ،مردم شماری کے معاملے میں تمام حکومتوں کے رویے تقریبا ایک جیسے ہی رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے اس معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے از خود نوٹس لیتے ہوئے حکومت سے سوال پوچھا کہ حکومت ملک میں مردم شماری کروانے میں دلچسپی رکھتی ہے یا نہیں ؟ جس میں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ مردم شماری کے لیے حکومت کو ایک لاکھ 67 ہزارفوجی جوان د ر کار ہیں لیکن آپریشن ضرب عضب اور دیگر ملکی مسائل کی وجہ سے یہ فی الحال ممکن نظر نہیں آتا جس کی وجہ سے فوری طور پر مردم شماری کروانا نا ممکن نظر آرہا ہے ۔
مردم شماری کو ٹالنے کی بڑی وجہ صوبوں کا قومی وسائل میں حصے کا دعویٰ کرنا اور صوبوں میں اندرونی طور پر لسانی جھگڑے بھی شامل ہیں ۔گزشتہ دنوں مشترکہ مفادات کونسل میں ہونے والے اجلاس جس کی صدارت وزیر اعظم نے کی توقع کی جارہی تھی کہ ملک میں مردم شماری کا اعلان کر دیا جائے گا ۔مگر اس اجلاس میں بھی مردم شماری کی غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ۔اور و جہ بتائی گئی یا بنائی گئی کہ ضرب عضب کی وجہ سے فوجی جوان دستیاب نہیں ہیں ۔
اٹھارہ سال قبل کروائی گئی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریبا 14کروڑ نفوس پرمشتمل تھی ۔اس کے بعد 2014 میں مردم شماری کے لیے پیشگی اقدام کے طور پر خانہ شماری کے عمل کا آغاز کیا گیا جس کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی کا تخمینہ 19 کروڑ 20 لاکھ لگایا گیا جبکہ غیر جا نبدار تنظیموں کی جانب سے یہ تخمینہ 17کروڑ 50 لاکھ لگایا گیا ۔اور پھر اس خانہ شماری کو متناذعہ بنا دیا گیا جس کی بنیاد سندھ اور بلوچستان کے اعدادوشمار میں بنیادی طور پر گنتی کے حوالے سے تنازعات پیدا ہو گئے جس پر مشترکہ مفادات کونسل نے مردم شماری کا فیصلہ ملتوی کر دیا اور و جہ اعدداوشمار کی غلطی بتائی گئی ۔
مردم شماری کے معاملے پر جس طرح حکمران غیر سنجیدہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں وہ انتہائی افسوس ناک ہے جس سماج میں افراد کی تعداد شمار کرنے سے قاصر ہو تو اس سے بے پناہ مالی و معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں مردم شماری محض گنتی کا نام نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ سماجی و معاشی عوامل کی نشاندھی ہوتی ہے جس میں آبادی میں اضافے کی شرح ،پھیلاو،د یہی و شہری آبادی کی تقسیم ،عمر کا ڈ ھانچہ ،شرح خواندگی وتعلیم کا حصول ،ملازمت ،ہجرت اور صحت عامہ کی سہولتوں کی نشاندہی شامل ہے ۔
یہ تمام عوامل ترقیاتی منصوبہ بندی وبنیادی سہولتوں کی فراہمی اور صحت وتعلیم کے لیے وسائل مختص کرنے کے لیے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں ،وفاقی اورصوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم قومی اقتصادی کمیشن آبادی کے تحت کرتی ہے گذشتہ ایوارڈ بھی 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر دیا گیا تھا ،پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ حکومتیں سب سے کم ملکی منصوبہ بندی پر خرچ کرتی ہیں ، مگر پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنی نیک نامی کمانے میں زیادہ مصروف رہتی ہیں ۔
مردم شماری ایک انتہائی نازک اور ضروری معاملہ ہے جب یہ پتہ ہی نہ ہو اس گھر میں کتنے افراد رہتے ہیں تو اس گھرکے وسائل اور مسائل کا تعین انتہائی مشکل ہے ۔فوج کی عدم دستیابی یا دیگر بہانے گھڑ کر مردم شماری کو ٹالنے سے حکمرانوں کی نیت کی خرابی کا اندازہ ہوتا ہے۔
دنیا کے زیادہ تر ممالک میں موت اورپیدائش کا ڈیٹا اکھٹا کر کے آبادی کا تعین کیا جاتا ہے پاکستان میں یہی ڈیٹا نا درا کے پاس موجود ہے اگر اس ڈیٹا سے استفادہ کیا جائے و مردم شماری کا مسئلہ بہت کم وسائل سے حل ہو سکتا ہے اور اس کی مثا لیں دیگر ممالک میں موجود ہیں ہالینڈ ،اور جرمنی سمیت کئی ممالک میں یہ پریکٹس کی جا چکی ہے ۔مگر حکمرانوں کے غیر سنجیدہ اور مفاد پرستانہ رویے انہیں اس انتہائی گھمبیر مسائل کو سمجھنے نہیں دے رہا ہے ۔