آصف جاوید ، ٹورونٹو
قارئین اکرام ، آپ کو یاد ہوگا کہ میرا گذشتہ مضمون “پاکستانِ اقلّیتوں کا قبرستان” دو اقساط جاری ہونے کے باوجود ہنوز نا مکمّل ہے۔ دوستوں اور قارئین کا اصرار ہے کہ میں اس ضمن میں ساتھ ساتھ دیگر ذیلی مضامین کا سلسلہ بھی جاری رکھوں، تاکہ تاریخ کے دریچوں میں جھانک کر ہم قیام پاکستان کی غرض و غایت کا منظر نامہ سمجھنے کی کوشش کر سکیں اور آج کے موجودہ پاکستان کے منظر نامے کو سمجھنے میں ہمیں آسانی ہو۔ تاریخ کا یہی احسان ہوتا ہے کہ تاریخ ہمارے حال کو ماضی سے جوڑ کر ہمیں مسقبل کا پتا دیتی ہے۔
پاکستان کا قیام بیرسٹر محمّد علی جناح کی قیادت میں برِّ صغیر کے مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں سے وجود میں آیا تھا ۔ موجودہ پاکستان کو بنے اب 69 سال مکمّل ہوچکے ہیں۔ ملک کا موجودہ منظر نامہ آپ کے سامنے ہے۔ پاکستان بنانے والے صفِ اوّل کے معماروں میں سے بہت سارے قوی اور نمایاں گروپ اب ریاست کی پالیسیوں کے نتیجے میں قومی دھارے سے باقاعدہ الگ کردئے گئے ہیں۔ بنگالی تو 24 سال بعد ہی حق تلفی اور نا انصافیوں کے سبب ہم سے جدا ہوگئے تھے ۔
متّحدہ ہندوستان کے مسلم اقلّیتی صوبوں کے مسلمان ، جو معمارانِ پاکستان کی صفِ اوّل کے دستے میں شامل تھے، اور جنہوں نے پاکستان بن جانے کے بعد ، انڈیا سے پاکستان ہجرت کی تھی ، ان کو آج کی معروف اصطلاح میں “مہاجر ” کہا جاتا ہے ۔ یہ لوگ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے مسلسل ریاست کے نشانے پر ہیں۔ کیونکہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان پر قابض مقتدرہ کا استدلال تھا کہ بنگالیوں کی کوانٹٹی سے تو نمٹ لیا گیا ہے، لہذا اب مہاجروں کی کوالٹی سے نمٹنے کا وقت ہے۔ اس لئے 1972 میں منظّم منصوبہ بندی کے تحت ، جاگیر داری نظام کو ختم کرنے کی بجائے مہاجروں کے قائم کئے گئے صنعتی اور تعلیمی ادارے قومی ملکیت میں لے لئے گئے۔
اعلان یہ کیا گیا کہ پورے ملک کے تعلیمی اور صنعتی ادارے قومی ملکیت میں لئے جارہے ہیں، مگر اعداد و شمار سے یہ نہیں بتا یا گیا کہ 70 فیصد سے زیادہ تعلیمی ادارے اور 88 فیصد صنعتیں کراچی میں ان اہلِ علم اور صنعتکاروں نے قائم کی تھیں ، جو جناح صاحب کی دعوت پر نوزائیدہ پاکستان میں خدمات اور سرمایہ کاری کے لئے آئے تھے۔
پھر اس کے بعد سندھ میں بسنے والے مہاجرین کو شہری اور دیہی ظالمانہ کوٹہ سسٹم کے ذریعے پہلے، مساوی شہری حقوق سے محروم کیا گیا اور اب ان پر انڈیا اور “را ” کے ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی لگادئے گئے ہیں تاکہ ان کی وفاداری مکمّل مشکوک ہوجائے۔ اور ساتھ ساتھ ریاستی ظلم و تشدّد ، مہاجر نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل ، مہاجروں کا اضافی مقدّر قرار دے دئے گئے ہیں۔
قادیانی (احمدی مسلمان) جو کہ معمارانِ پاکستان کے ہراول دستے میں نہایت نمایاں اور فعال تھے، پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے کے بعد قادیانیوں (احمدی مسلمانوں) کو کافر قرار دے کر قومی دھارے سے الگ کردیا گیا ہے ، اور مہاجروں کی طرح ان پر بھی عرصہ حیات تنگ ہے۔
عیسائی جو اس سرزمین پر قیامِ پاکستان سے پہلے موجود تھے، امتیازی سلوک کا شکار ہیں، ان کی بستیاں جلائی جاتی ہیں۔ ہندو 69 سال گذرنے کے باوجود ، آج بھی نقل مکانی اور ہجرت پر مجبور ہیں، ایک منظّم منصوبے کے تحت سندھی ہندووں کی جوان بیٹیاں اغوا کرکے غائب کردی جاتی ہیں، پھر ان کو مسلمان کرکے کسی مسلمان سے شادی کروا کر منظرِ عام پر لایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں قانون توہینِ مذہب میں ظالمانہ ترمیمات کرکے تمام غیر مسلموں کے سر پر خوف کی چادر اوڑھا دی گئی ہے۔ بلوچستان پر ریاستِ پاکستان کی فوج کشی کے 69 سال گذرنے کے باوجود ، آج بھی صورتحال جوں کی توں ہے، بلوچ ، پاکستان کے ساتھ نہ رہنے کے ارادے پر قائم ہیں، اور اپنی آزادی کے لئے مسلّح جدوجہد کررہے ہیں۔ جبری گمشدگیاں، ریاستی تشدّد، ماورائے عدالت قتل اور دور دراز بلوچ آبادیوں پر فوج کشی اور ہوائی جہازوں سے بمباری، بلوچستان کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے آئی ہے۔
پاکستان کے موجودہ منظرِ نامے کا ہلکا سا خاکہ ہم نے اپنے قارئین اور دوستوں کی خدمت میں پیش کردیا ہے ۔ اب آتے ہیں اصل بات کی طرف کہ ، کیا بیرسٹر محمّد علی جناح ، جو کہ ایک کامیاب اور ممتاز قانون دان تھے،جدید تہذیب و تمدّن ، مغربی اور ہندوستانی طرزِ معاشرت سے آشنا ، جدید عمرانیات کے اصولوں سے واقف اور برطانوی اور بین الاقوامی قوانین کی باقاعدہ تعلیم سے آراستہ تھے۔ اقوامِ متّحدہ کے انسانی حقوق کے عالمی چارٹرڈ (جو ان کی وفات کے تین ماہ بعد نافذ ہوا)سے بھی کما حقّہ واقفیت رکھتے تھے۔
کیا پاکستان کو اسلامی شرعی ریاست بنانا چاہتے تھے؟؟؟
اس سوال کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں بیرسٹر محمّد علی جناح کی شخصیت کو سمجھنا ہوگا۔
اور پھر ہمیں اپنے سوال کا جواب خود بخود مل جائے گا۔ کسی ہاں یا نہ کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
جناح صاحب ایک سیکولر ، لبرل شخصیت تھے۔ بیرسٹر محمد علی جناح اسماعیلی خوجہ مذہب سے وابستہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔ مسٹر جناح کو چودہ سال کی عمر میں میٹرک پاس کرنے کے بعد بارایٹ لاء کرنے کے لئے انگلینڈ بھیج دیا گیا تھا۔ انگلستان سے واپس آنے پر انہوں نے خود کو آغا خانی کی بجائے اثناعشری ڈیکلےئر کردیا تھا۔
اس لئے نہیں کہ تقابلی مطالعہ کے بعد انہوں نے آغاخانی مسلک کو غلط اور اثنا عشری مسلک کو برحق پایا بلکہ اس لئے کہ آغا خانی خود کو مسلمان کلیم ہی نہیں کرتے جبکہ اثنا عشری خود کو مسلمان کلیم کرتے ہیں۔ مسلک میں تبدیلی کا یہ فیصلہ ان کی سیاسی ضرورت تھا کیونکہ انہوں نے جداگانہ طرز انتخاب کی وجہ سے مسلمانوں سے ووٹ لینے تھے۔
ویسے اثنا عشری سے خود کو منسلک کرنے کی باوجود بھی انہوں نے کبھی محرّم کی مجالس میں شرکت نہیں کی اور نہ کبھی ماتم کیا، جبکہ کوئی شخص اثنا عشری ہوہی نہیں سکتا اگر وہ کم سے کم دس دن محرم کی مجالس میں شرکت نہ کرے یاماتم نہ کرے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دل سے اثنا عشری بھی نہیں تھے۔ مذہب کے معاملہ میں وہ کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے، وہ ایک پریکٹسنگ لائر ضرور تھے، مگر کبھی بھی پریکٹسنگ مسلم نہیں تھے۔
مذہب اسلام سے انکی قطعی واقفیت نہیں تھی۔ نہ نماز پڑھتے تھے، نہ روزہ رکھتے تھے، نہ زکوۃ دیتے تھے، نہ حج کرتے تھے۔ بلکہ انگلینڈ میں ایک عرصہ گزار نے کے باعث وہ حرام وحلال میں بھی تمیز نہیں کرتے تھے، خنزیر کا گوشت کھاتے تھے، کتّے پالتے تھے، سگار پیتے تھے، خلوت اور پرائیویٹ محفلوں میں شراب پیتے تھے۔ جوا کھیلتے تھے۔ ان کی عمر میں 27 سال چھوٹی ، جوان بیوی، محترمہ رتّی بائی ، بے باکی کی حد تک عریاں مغربی لباس اور خوشبووں کی دلدادہ خاتون تھیں، جن کے ساتھ محمّد علی جناح فخریہ بمبئی کی مہذب اور اعلی‘ سوسائٹی کی پارٹیوں میں شرکت کرتے تھے۔
بیرسٹر محمّد علی جناح کو جب پہلی بار کلمہ طیّبہ پڑھایا گیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا تھا کہ
“محمّد اور اللہّ سے تو میں واقف ہوں، لیکن یہ تیسرا شریف آدمی، رسول اللہّ کون ہے؟؟؟
بیرسٹر محمّد علی جناح کو قائدِ اعظم قرار دینے کے بعد ان کے بارے میں ان کے ولی ِ کامل اور مقبولِ بارگاہ خداوندی ہونے کے تمام دعوے من گھڑت ، سفید جھوٹ اور مولانا شبیر احمد عثمانی دیوبندی کے ذہن کی اختراع ہیں۔ اس ہی بیرسٹر محمّد علی جناح کو ولی کامل اور مولانا بنانے والی لابی نے ایک اور بھی جھوٹ گھڑا ہے کہ بیرسٹر محمّد علی جناح کی کوششوں سے جو ملک حاصل ہو ا ہے وہ بھی منشاء ومقصود خداوندی ہے۔
اُس ہی لابی نے تقدیس و طہارت کی چادر اُسے عطائے ربِّ کریم کہہ کر اور مملکت خداداد کا نام د ے کر اوڑھائی ہے ۔ گویا اس طرح اس زمین پر مکّہ اور مدینہ کے بعد ایک اورحرمِ مقدّس وجود میں آگیا ہو۔ اور اب اس کی حفاظت خداکی ذمہ داری ہوگئی ہو۔ اس ملک کے مقصودِ خداوندی ہونے کے لئے سب سے بڑی دلیل یہ لائی گئی کہ یہ ملک 27رمضان المبارک ، بروز جمعۃ الوداع وجود میں آیا تھا۔
یہ کیسی رحمت خداوندی تھی جس نے کروڑوں انسانوں کو برباد کیا، تاریخ تو یہ گواہی دیتی ہے کہ پاکستان کے وجود میں آنے سے کروڑوں مسلمان بے گھر ہوئے تھے ۔ محتاط اندازہ کے مطابق پندرہ لاکھ انسان قتل ہوئے اور نوے ہزا رمسلمان خواتین کوبے آبرو کیاگیا۔ اس لئے اس ملک کی پیدائش کو مودودی صاحب کے ماہنامہ ترجمان القران میں’’درندے کی پیدائش‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا۔
اب پاکستان بننے کے بعد کا حال بھی سن لیجئے
اِدھر برصغیر میں قتل وغارت کا بازار گرم تھا۔ انسان ظلم کی قہرمانی چکّی میں پس رہے تھے ، انسانی خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اُدھر پاکستان کے گورنر جنرل ہاؤس کراچی میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں غیر ملکی سفیر، ملکی ارباب بست وکشاد مدعوتھے اس دعوت کا حال اس میں شرکت کرنے والے ایک مہمان سے سنئے وہ لکھتے ہیں۔
“میرا گمان تھا یہ پرائیویٹ دعوت ہوگی لیکن وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ او ربہت سے حضرات مدعو تھے۔ ڈنر سے پہلے ، سب مہمان ایک صف میں کھڑے ہوئے ، مسٹر جناح او ران کی بہن فاطمہ جناح آئیں اور سب سے مصافحہ کیا چونکہ میں ترکاری کھاتا ہوں اس لئے میرے لئے ذرا دقّت تھی۔ اعلیٰ قسم کی شرابیں خوبصورت بوتلوں میں تھیں۔ شرابوں کے نام چاندی کے چھوٹی چھوٹی تختیوں پر کھدے ہوئے تھے ۔ یہ تختیاں چاندی کی زنجیروں میں بوتلوں پر لٹک رہی تھیں۔ شراب کا دور چل رہا تھا گلاس بھرے او رخالی کئے جارہے تھے ،نہ پینے والے گلاس آگے بڑھا دیتے۔” حوالہ (پاکستان ، قیام و ابتدائی حالات، سری پرکاش ہائی کمشنر بھارت برائے پاکستان ، مترجم محمد حمایت الحسن، صفحہ نمبر 56)۔
یہ اس ملک کا جشن ولادت تھا جو’’پاک لوگوں‘‘ کے وطن کے طور پر وجود میں لایا گیا او رجس کانام ہی ’’پاکستان‘‘ رکھا گیا تھا۔ یہ ملک خدا اور رسول کی منشاء کے مطابق وجود میں آیا تھا اس لئے دعویٰ کیا گیا کہ اس ملک کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
اس کے باوجود 16 دسمبر سنہ 1971 کو افواجِ پاکستان کی ایسٹرن کمانڈ کے ترانوے ہزار فوجیوں کو شرمناک طور پر بغیر لڑے ہتھیار ڈالنا پڑے اور ملک بھی ٹوٹ گیا۔
کا ش ہم ایسی باتیں گھڑنے کی بجائے قائداعظم کو سیدھا سادہ مسلمان سمجھ کر ان لوگوں کی تصریحات مان لیتے جو تحریک پاکستان میں شامل لوگ کہتے رہے۔ ہم یہاں اس طرح کی ایک صراحت درج کرتے ہیں سردار شوکت حیات لکھتے ہیں۔
۔“ہمیں ان وجوہات کا علم ہونا چاہئے جن کی بناء پر مسلمانوں نے اپنے لئے علیحدہ مملکت کا قیام ضروری سمجھا۔ بنیادی طور پر مسلمانوں کو انگریزوں کے اقتصادی ومعاشی غلبے او ر ہندوسود خوروں سے نجات دلانا تھا ۔ جنہوں نے مسلمانوں کا استحصال او رخون چوس کر انہیں کمزور کردیا تھا۔ سب سے پہلے یہ بات ہر ایک کے ذہن میں واضح ہونی چاہئے کہ بانی پاکستان نے قرار داد لاہور کے فوری بعد امریکی پریس کو اک انٹرویو دیا تھا جس میں کہا تھا’’پاکستان کی حکومت مذہبی حکومت یعنی تھیاکر یسی نہیں ہوگی۔ نہ ہم ایسی خالص مذہبی حکومت پر یقین رکھتے ہیں” (گم گشتہ قوم، صفحہ 283)۔
قارئین اکرام ، سچ سننا اور اس کو برداشت کرنا ، پاکستان پر قبضہ گیر مائنڈ سیٹ کے لئے ناقابلِ برداشت عمل ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد کہا جائے گا کہ مضمون نگار ، ملک دشمن، انڈیا کا ایجنٹ، اور غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے والا تخریب کار ہے، جو پیسے لے کر یہ کام کر رہا ہے، اور اپنے آقاوں کے اشارے پر ناچ رہا ہے ۔
مضمون کے مندرجات کو جھوٹ اور من گھڑت قرار دیا جائے گا ۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ہمارے قارئین کے لئے تاریخ کی کتابوں کو کھنگال کر سچ تک پہنچنا محال ہے، مندرجہ بالا مضمون ہمارے تاریخی مطالعے کی یاد داشت کی بنیاد پر تحریر کیا گیا ہے، مگر کچھ باتوں کی تصدیق کے لئے ہم اپنے قارئین کی سہولت اور آسانی کے لئے نارتھ امریکہ سے چھپنے والے اردو کے آن لائن میگزین “نیا زمانہ” کے ایک کالم نگار اور محقّق، محترم جناب سیّد نصیر شاہ کے ایک مضمون کا حوالہ دیں گے جو کہ “نیا زمانہ” کی 21 جنوری، سنہ 2016 کی اشاعت میں شائع ہوا ہے، ہم نے بھی اس مضمون سے کافی استفادہ اور اقتباسات لئے ہیں۔
آپ اس مضمون کو آن لائن پڑھ سکتے ہیں۔ سیّد نصیر شاہ صاحب کا یہ تحقیقی مضمون ” ولیِ کامل حضرت مولانا محمّد علی جناح المعروف قائدِ اعظم ” مکمّل تاریخی حوالہ جات کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد عام قاری کو تاریخ کی ضخیم کتابوں کی چھان بین کی ضرورت نہیں پڑے گی، کیونکہ مضمون میں مکمّل حوالہ جات دئے گئے ہیں۔
6 Comments