آصف جاوید
اپنے پچھلے مضمون میں ہم نے قارئین سے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ مضمون میں ہم ان عوامل اور شخصیات کا جائزہ لیں گے جنہوں نے 11 اگست 1947 کو ایک نوزائیدہ مملکت کے لئے قائدِ اعظم کے دئے گئے روڈ میپ (اسٹیٹ پالیسی) سے رو گردانی کرکے پاکستان کو ایک بنیاد پرست (تھیوکریٹک) مذہبی ریاست میں تبدیل کر دیا۔ اور بات بنیاد پرستی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ پاکستان کو ایک بنیاد پرست ریاست میں تبدیل کرنے کے بعد ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی جہادی اشرافیہ نے آہستہ آہستہ اس بنیاد پرست ریاست کو ایک سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا۔
اب یہ ایک عوامی فلاحی ملک نہیں بلکہ ایک اسلامی عسکری ریاست ہے، جسے بڑے فخر سے اسلام کا قلعہ اور عالمِ اسلام کی عظیم نیوکلیئر پاور کہا جاتا ہے۔ اب یہ ملک 20 کروڑ پاکستانیوں کا ملک نہیں بلکہ دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی سپر پاور ہے۔
اپنے قارئین کو یاد دلاتے چلیں کہ بٹوارے سے قبل کانگریس نے اعلان کیا تھا کہ آزادی کے حصول کے بعد ہندوستان میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ کردیا جایگا۔برصغیر ہندوپاک میں مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والی سیاسی جماعت مسلم لیگ کی بنیاد بھی نوابوں اور راجاوں کے ہاتھ رکھی گئی تھی ۔ جبکہ جاگیر داری کے خاتمے کا، مسلم لیگ کا اس وقت تک کوئی ایجنڈا نہیں تھا۔
اُدھر کانگرس کےجاگیرداری کے خاتمے کے اعلان کے بعد سندھ اور پنجاب کے جاگیرداروں میں کھلبلی مچ گئی تھی اور نتیجتاً انہوں نے بھی اپنی اپنی جاگیریں اور زرعی رقبے بچانے کےلئے مسلم لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد سول اور ملٹری بیوروکریسی نے نااہل اور بے ایمان سیاسی قیادت ، جاگیر داروں اور زمینداروں اور مذہبی شدّت پسندوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس نوازئیدہ ملک پر اپنا قبضہ جمانا شروع کردیا تھا ۔
وہ تمام مذہبی جماعتیں جنہوں نے قیام پاکستان کے مطالبہ کی مخالفت کرکے اور قائد اعظم کو کافراعظم قرار دیا تھا ، وہ بھی اس اتّحاد کا حصّہ بن گئیں، یوں یہ نوزائیدہ ملک مفاد پرستوں اور بنیاد پرستوں کے ہتھّے چڑھ گیا۔
ہمیں سب پہلے تو یہ تاریخی غلط فہمی دور کر نے کی ضرورت ہے کہ کہ یہ ملک اسلام کے نام پر اور شریعت نافذ کرنے کے لئے بنایا گیا تھا ۔ یہ ملک برِّ صغیر کے مسلمانوں کو ہندووں کے معاشی استحصال ، اور اکثریتی غلبے سے بچانے کے لئے بنایا گیا تھا۔ جناح صاحب اور ان کے ساتھ اس تحریک میں شامل ہراول دستے کے اکثر مسلمان رہنماؤں کی تعلیم و تربیت انگریزی ماحول میں ہوئی تھی اور انہیں کسی ایسے ملک سے کوئی دلچسپی نہیں تھی جہاں اسلامی شرعی نظام نافذ ہو۔ جناح صاحب اپنی پرائیویٹ محفلوں میں شراب بھی پیتے تھے، پورک بھی کھاتے تھے، کتّے بھی پالتے تھے، سگار بھی پیتے تھے، نہ نماز سے واقف تھے، نہ روزے سے۔ جناح صاحب ایک سیکیولر ، لبرل شخصیت تھے، وہ ملّا ہرگز نہیں تھے، اور نہ ہی پاکستان کو اسلامی شرعی ریاست بنانا چاہتے تھے۔
پاکستان بنانے والے محمد علی جناح شیعہ خوجہ تھے۔ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھا۔ جنکہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو بنایا اور چلایا تھا۔
قائدِ اعظم نے تو پاکستان کےلئے ایک سیکولر معاشرے کے قیام کی بنیاد رکھی تھی۔ اس ملک کو شرعی اسلامی ملک بنانے کا منصوبہ محمّد علی جناح کی وفات کے صرف چھ ماہ بعد عمل میں آیا جب 12 مارچ 1949 کو قرارداد مقاصد پاس کی گئی۔ در اصل قرارداد مقاصد کی منظوری نے ہی پاکستان کی سمت تبدیل کی تھی۔ ریاست پاکستان پر مذہب کی مہر ثبت کردی گئی تھی کہ اب پاکستان ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست ہوگی۔ اور یوں پاکستان میں اسلامائزیشن کے نفاذ کا باقاعدہ آغاز کردیا گیا تھا۔
اس مرحلے پر ضروری ہے کہ ہم قارئین کو ایک تاریخی واقعہ بھی یاد دلاتے چلیں کہ جب قراردادِ مقاصد پر اسمبلی میں بحث ہورہی تھی تو اس وقت سابق مشرقی پاکستان سے کانگریس کے جو دو بنگالی ممبرزمنتخب ہوکر آئے تھے ان میں سے ایک کا نام چتو پاڈھیا تھا ، انہوں نے لیاقت علی خان سے مخاطب ہوکر بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ ہمارے آباو اجداد تو صدّیوں سے اس ملک میں رہتے ہوئے آئے تھے، آپ کی قرارداد مقاصد نے تو ایک لمحے میں اس سرزمین سے ہماراتعلّق ختم کردیا، ہمیں اس سرزمین پر اجنبی بناکر ہمارے سارے حقوق سلب کرلئے۔ جیسے اس ملک سے اب ہمارا کوئی تعلّق ہی نہیں ہے۔ آپ نے اس سرزمین سے ہمارے سارے تہذیبی اور ثقافتی رشتے ختم کردئے۔
اس پر لیاقت علی خان نے بڑا مایوس کن جواب دیا تھا کہ” مذہب کو معاشرتی معاملات میں بالکل دخل دینا چاہئے“۔ جبکہ سر ظفر اللہّ جو کہ احمدی فرقے سے تعلّق رکھتے تھے ان کا جواب یہ تھا کہ “آپ شک نہ کریں اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلّیتوں کے حقوق محفوظ رہیں گے“۔ اس تناظر میں ہمارا ا ستدلال یہ ہے کہ اا اگست 1947ء کو بانی پاکستان نے دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے مملکتِ پاکستان کے لئے جو اسٹیٹ پالیسی دی تھی اگر اسے آئین کا دیباچہ بنادیا جاتا ، اور مملکت کے کاروبار سے مذہب کا تعلق ختم کردیا جاتا ، تو ملک خودبخود ویلفیئر اسٹیٹ بن جاتا۔
محمدعلی جناح نے اپنی کابینہ میں سر ظفر اللہ خان کو وزارت خارجہ اورجوگندرناتھ منڈل کو وزارت قانون کی اہم ترین انتظامی ذمہ داریاں سونپ کر واضح کر دیا تھا کہ اس ملک کے تمام شہری بلا تفریق رنگ و نسل ، مذہب و عقیدہ برابر ہیں۔ اور پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم سب برابر ہیں۔ نہ کوئی اکثریت ہے، نہ کوئی اقلّیت ۔
قائد اعظم نے 15 جولائی 1947 کو ایک پریس کانفرنس میں فرمایا تھا کہ ، پاکستان اور ہندوستان دو آزاد مملکتیں بن جانے کے بعد دو قومی نظرئیے کو بالکل مختلف انداز سے لیا جائے گا۔ ہندوستان میں سب ہندو اور مسلمان ہندوستانی ہونگے، اور پاکستان میں سب مسلمان اور تمام غیر مسلم پاکستانی ہونگے۔وفاداری کا تعین قومیت اور ملک کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر۔ پاکستان مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔ تمام شہریوں کو بشمول غیر مسلموں کو برابر کے شہری حقوق میسر ہونگے۔ پاکستان کی منزل کا تعین خود پاکستانی قوم کرے گی، کسی کا مذہب یا عقیدہ نہیں کرے گا۔
(جاری ہے)
حصہ اول