پاکستان کا سیاسی موسم ایک بار پھر گرم ہونے جارہا ہے۔ طاہر القادری اور عمران خان ایک بار پھر نواز حکومت کے خلاف تحریک شروع کررہے ہیں ۔ اس دفعہ تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ دونوں علیحدہ علیحدہ حکومت کے خلاف تحریک چلائیں گے اور یہ محض”اتفاق “ہے کہ ٹائمنگ ایک جیسی ہے۔
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ مولانا طاہر القادری نے لاہور سے تحریک قصاص کا آغاز کیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی آج سے تحریک احتساب شروع کر رہے ہیں۔
دونوں رہنما کوئی دوسال پہلے بھی حکومت کے خلاف دھرنا دے چکےہیں مگر بری طرح ناکام ہوگئے تھے۔تحریک انصاف نے دھرنا انتخابات میں دھاندلی کے نام پر دیا تھا لیکن جب معاملہ عدالت میں گیا تو جو دعوے وہ عوامی اجتماعات میں کرتے تھے وہ عدالت میں ثابت نہ کر سکے۔
اس کے علاوہ ان کے ایمپائر نے بھی انہیں دھوکہ دے دیا تھا ۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ عمران خان مطلوبہ افراد کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہے تھےجس کی وجہ سے ایمپائر نے اپنی انگلی کھڑی نہ کی تھی۔
پاکستان عوامی تحریک نے دو سال پہلے ماڈل ٹاون لاہور میں پولیس کی جانب سے ہلاک کیے گئے کارکنوں کے لیے انصاف حاصل کرنے کے لیے تحریک قصاص کے نام سے احتجاجی تحریک کا آغا ز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں لاہور میں ایک ریلی نکالی گئی ہے۔
یاد رہے 17 جون 2014 کو سانحہ ماڈل ٹاون میں پاکستان عوامی تحریک کے 14 ارکان پولیس کی ایک کارروائی کے دوران ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کی ایف آئی آر میں وزیر اعلی شہباز شریف اور صوبائی وزیر رانا ثنا ا للہ کو بھی اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، تاہم بعد میں دوسری جوائینٹ انویسٹیگیشن ٹیم اپنی حتمی رپورٹ میں ان کو بری الذمہ قرار دے دیا تھا۔
مولانا طاہر القادری کے مریدوں نے تحریک قصاص کو پاکستانی عدالتی نظام پر ایک سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 25 ماہ گزر جانے کے باوجود ماڈل ٹاؤن میں پولیس فائرنگ سے مرنے والوں کے لواحقین ابھی تک انصاف کو ترس رہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستانی میڈیا کی طرف سے تحریک قصاص کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جا رہی اور نہ ہی اس بارے میں خبروں میں کوئی خاص تذکرہ نظر آ رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف بھی اتوار سات اگست سے تحریک احتساب شروع کررہی ہے۔ دھاندلی کے ایشو پر ناکامی کے بعد اب تحریک انصاف پانامہ لیکس کے تناظر میں انصاف چاہتی ہے کہ حکمرانوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا جائے اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خود بھی آف شور کمپنی کے مالک ہیں ۔مبصرین کا کہنا ہے دونوں تحریکوں کا مرکزی کردار ایک ہی ہے اور دیکھنا ہے کہ دونوں رہنما ایمپائر کی توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔
♦