آصف جیلانی
ہندوستان کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی اور روحانی سرپرست تنظیم راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کے گؤ رکھشک کارکنوں نے ’’مقدس گائے ماتا‘‘کے تحفظ کے نعرے پر مسلمانوں کے خلاف پر تشدد مہم کے ساتھ اب اچھوتوں کے خلاف جو دلت کہلاتے ہیں،خونریز مہم شروع کی ہے۔ گائے کے تحفظ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف مہلک مہم گذشتہ اکتوبر میں شروع ہوئی تھی ، جب دلی کے قریب دادری کے قصبہ میں گائے خوری کی افواہوں کے دوران آر ایس ایس کے گؤ رکھشکوں نے۵۰ سالہ محمد اخلاق کے گھر میں گھس کر اس کو اس قدر زدوکوب کیا کہ یہ دم توڑ بیٹھا۔
الزام اس پر یہ تھا کہ وہ گائے کا گوشت کھا رہا تھا۔ بعد میں تفتیش سے یہ انکشاف ہوا کہ یہ گائے کا نہیں بلکہ بھینس کا گوشت تھا۔ اس کے بعد شمالی ہندوستان میں گائے کے تحفظ کے نام پر مہم کی ایسی بھیانک لہر اٹھی کہ ۳ افراد ہلاک اور کئی سو افراد زخمی ہوگئے۔
اب آر ایس ایس کے گؤ رکھشکوں نے مسلمانوں کے ساتھ اچھوتوں کے خلاف مہم شروع کی ہے حالانکہ دلت قدیم زمانہ سے گائے کا گوشت کھاتے آئے ہیں اور اس سے پہلے کبھی اس بات پر باز پرس نہیں کی گئی ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں اونا کے قصبہ میں گؤ رکھشکوں نے مری ہوئی گائے کی کھال اتارتے ہوئے چند دلت نوجوانوں کو پکڑ کر ان پر بری طرح سے لاٹھیاں برسائیں۔
یہ حملہ اس قدر اندوہناک تھا کہ دلت خاموش نہ رہ سکے اور وہ سڑکوں پر نکل آئے۔اگست کے اوئل میں احمد آباد سے اونا تک ہزاروں دلتوں اور ان کے حامیوں نے مارچ کیا۔ دلتوں پر آر ایس ایس کے گؤ رکھشکوں کے حملوں کے خلاف پورے گجرات میں اتنے ہمہ گیر مظاہرے ہوئے ہیں کہ گجرات کی وزیر اعلی آنندی بین پٹیل کو جو گذشتہ مئی میں اس عہدہ پر فایز ہوئی تھیں استعفی دینا پڑا۔
دلتوں کے خلاف گؤ رکھشا کے بہانے یہ مہم بڑی سوچ سمجھ کر چلائی جارہی ہے ، جس کا مقصد دلتوں کے حقوق کی تحریک کو کچلنا ہے۔ گجرات میں دلتوں کی تعداد کل آبادی کی آٹھ فی صد ہے ۔ ان کا بنیادی مطالبہ ملازمتوں میں کوٹے کا ہے ۔ جس کے آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی جو اپنے آپ کو ہندووں کی اعلی ذات کی نمایندہ کہلاتی ہیں ، سخت خلاف ہیں۔ دوسر ا مطالبہ دلتوں کا یہ ہے کہ ان سے جو زمینیں چھینی گئی ہیں وہ واپس کی جائیں ۔ دلتوں کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ان کے خلاف مظالم کا سلسلہ بند کیا جائے اور جو اس کے ذمہ دار رہے ہیں ان کو سخت سزائیں دی جائیں۔
پانچ اگست کو احمد آباد سے اونا تک مارچ کے دوران مظاہرین کا ایک بڑا نعرہ تھا۔۔گائے کی دم آپ رکھو، ہمیں ہماری زمین دو۔۔۔
کیا واقعی ہندو دھرم میں گائے اتنی مقدس ہے کہ اس کی حفاظت ایک لازمی مذہبی فریضہ ہے؟۔
دلی یونیورسٹی کے سابق پروفیسر اور انڈین کاونسل آف ہسٹرویکل ریسرچ کے رکن ، ڈی این جھا نے اپنی کتاب “متھ آف ہولی کاو” میں یہ ثابت کیا ہے کہ ہندووں کی قدیم مقدس کتابوں میں کہیں گائے کو مقدس نہیں قرار دیا گیا ہے۔ ہندو دھرم کی تاریخ میں کہیں یہ ثبوت نہیں ملتا کہ گائے مذہبی طور پر مقدس مانی جاتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اندرا دیوی کو بیل پسند تھے اور اگنی کو گھوڑو ں کا گوشت پسند تھا۔
دراصل انیسویں صدی کے آخر میں گائے کو سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا اور ا س میں پہل دیا نند سرسوتی نے کی جنہوں نے گائے کشی پر پابندی عاید کرنے کی تحریک شروع کی اور اس بنیاد پر ہندووںکو مسلمانوں کے خلاف منظم کرنے کی کوشش کی ۔اسی کے نتیجہ میں شمالی ہند میں بڑے پیمانہ پر فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے۔
دیانند سرسوتی گائے کشی کے مسئلہ کو ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ختم نہ ہونے والا متنازعہ مسئلہ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی پس منظر میں 1925میں آر ایس ایس نے گائے کشی کی مخالفت کی پالیسی ، مسلمانوں کے خلاف سیاسی حربہ کے طور پراختیار کی اور فرقہ وارانہ سیاست کی آگ بھڑکائی ۔
کٹر ہندووں نے کہانیاں گھڑیں کہ مسلمان جو باہر سے آئے تھے وہ گائے کھاتے تھے اور انہوں نے ہی ہندوستان میں گائے خوری کا سلسلہ شروع کیا۔ اب ان ہی کٹر ہندووں نے دلتوں پر یہ الزام لگانا شروع کی ہے کہ یہ گائے کھاتے ہیں اور مقدس گائے ماتا کو ان دلتو ں سے خطرہ ہے۔ مقصد ان کٹر ہندووں کا یہ ہے کہ جس طرح گائے کشی کی مخالفت کی بنیاد پر انہوں نے مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکا ئی ہے اسی طرح اب دلتوں کو کچلنے کے لئے یہ ہتھکنڈا استعمال کیاجارہا ہے ۔
آر ایس ایس کا یہ دعویٰ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے گاو کشی نہیں ہوتی تھی ۔ لیکن ڈی این جھا نے اسے یکسر غلط ثابت کیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ، پورے ہندوستان میں گائے خوری عام تھی ۔ کیرالا میں اب بھی سوائے نمبودری برہمنوں کے سب لوگ گائے کھاتے ہیں۔ اور اب بھی ہندوستان میں 72فی صد عوام بڑے شوق سے گائے کھاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں برہمن بھی بڑے شوق سے گائے کھاتے تھے۔ڈی این جھا کا کہنا ہے کہ گائے خوری کا یہ سلسلہ ، ویدوں ،بودھو ں اور موریاوں کے دور میں بھی جاری رہا۔
ہندووتا کے علم برداروں کو غالباً اس کا علم نہیں کہ تاریخی شواہد گائے کے تقدس کے بارے میں ان کے موقف سے بالکل برعکس ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ ہندووں میں شادی بیاہ کے موقعوں پر گائے کاٹی جاتی تھی ، مقدس جنیو پہننے کے تقریب اور مہمانوں کی آمد پر گائے کاٹی جاتی تھی حتی کے موت اور نئے گھر میں بسنے کے موقع پر بھی گائے سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی تھی۔
قدیم ہندوستان میں زراعت پیشہ برادریوں میں گائے خوری عام تھی ۔ شمالی ہندوستان میں گائے کے بارے میں رویہ میں تبدیلی اس وقت آئی جب کاشت کاری میں بڑے پیمانہ پر توسیع ہوئی اور اس پیشہ میں گائے کی اقتصادی اہمیت بڑھی ۔ اس زمانہ میں برہمنوں نے گائے کھانے سے پرہیز شروع کیا اور کہا کہ ہم گائے نہیں کاٹیں گے البتہ گائے کاٹی جاسکتی ہے اور یہ کام نچلی ذات کے ہندو انجام دے سکتے ہیں اور وہ گائے کھا بھی سکتے ہیں۔ یوں دلتوں میں گائے خوری عام ہوئی۔
آر ایس ایس کے لئے گؤ رکھشا کی تحریک ایک انمول تحفہ ہے اور جس جارحانہ انداز سے اسے مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے اس کے پیش نظر، اس کا امکان ہے کہ یہ تحریک کم ازکم 2019کے عام انتخابات تک بڑے زور و شور سے جاری رہے گی اور گائے مہلک انداز سے سیاست پر حاوی رہے گی۔
♦