پنجاب کا ترقیاتی بجٹ لاہور کی نذر

652370-metrobuses-1388381912-369-640x480

پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام کے سربراہ مارک اینڈر نے کہا ہے کہ پاکستان میں خوشحال اور غریب علاقوں کی ترقی کے درمیان عدم برابری میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر خرچ کیے جانے والی ترقیاتی رقم کا سیاسی پہلو ہوتا ہے اور یہ ان ضلعوں پر خرچ کی جاتی ہے جو پہلے ہی سے ترقی یافتہ ہیں، جس کی وجہ سے پاکستان میں خوشحال اور غریب علاقوں کے درمیان عدم برابری میں اضافہ ہورہا ہے۔

اسلام آباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مارک اینڈر نے کہا ہے کہ پنجاب کے سب سے ترقی یافتہ ڈسڑکٹ لاہور پر حکومتی فنڈز کی سرمایہ کاری سرائیکی علاقوں کے لیے مختص کی جانے والی رقم سے چھ گناہ زیادہ ہے۔

پاکستانی صوبہ پنجاب کے دار الحکومت لاہور میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کی لاگت سے ملک میں پہلا میٹرو ٹرین منصوبہ 2014 ء میں ہی تیار ہو گیا تھا۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سرائیکی علاقوں کی پسماندگی کی وجہ سے وہاں احساس محرومی بڑھ رہا ہے اور غربت کا فائدہ اٹھا کر انتہا پسند مذہبی تنظیمیں ان علاقوں میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھا رہی ہیں۔

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے روزنامہ جنگ کے سابق مدیر نذیر لغاری نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جنوبی پنجاب کو پنجاب کے حکمرانوں نے ہمیشہ ہی نظر انداز کیا ہے۔ جس طرح ماضی میں پہلے مشرقی بنگال اور ون یونٹ کے دوران سندھ اور بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا۔

لیہ، ڈی جی خان، مظفر گڑھ اوربہاولپورکا شمار جنوبی پنجاب کے پسماندہ ضلعوں میں ہوتا ہے، جہاں غربت کا راج ہے۔ نہ وہاں بہتر اسکول ہیں، نہ پینے کا صاف پانی دستیاب ہے اور نہ ہی اسپتالوں کی حالت تسلی بخش ہے۔ نواز شریف جب بھی اقتدار میں آتے ہیں تو وہاں کی زراعت کا بھی بیٹرہ غرق ہوجاتا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں کپاس اور گندم کی کاشت بھی بہت متاثر ہوئی لیکن حکومت کو ان علاقوں کی کوئی پرواہ نہیں۔

کیا عجیب بات ہے کہ جنوبی پنجاب کپاس کا مرکز ہے لیکن اس کے حوالے سے ٹیکسٹائل پارک لاہورکے قریب لگایا جارہا ہے۔ اس سے حاکموں کی ترجیحات کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا،’’جنوبی پنجاب میں متعین 70 فیصد نوکر شاہی کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سی سی ایس کے امتحان کی تیاری کے لیے تمام بڑے مراکز لاہور، گجرانوالہ اور دوسرے شہروں میں ہے۔ میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز میں بھی سرائیکی طلباء بڑی تعداد میں اس ٹیسٹ سسٹم کی وجہ سے داخلہ نہیں لے پاتے۔‘

اس صورتِ حال کی ذمہ داری کے حوالے سے انہوں نے کہا،’’صرف پنجاب کا حاکم طبقہ ہی اس کا ذمہ دار نہیں ہے بلکہ سرائیکی علاقوں کے جاگیردار بھی اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں۔ وہ خود لاہور میں رہتے ہیں لیکن ووٹ مانگنے کے لیے ان علاقوں میں آتے ہیں۔ انہوں نے عوام کو پسماندہ رکھا جس کی وجہ سے امن و محبت کا یہ خطہ آج انتہاپسند قوتوں کے ہاتھوں میں جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ پورے سرائیکی خطے میں ایک منظم منصوبے کے تحت مدارس قائم کیے گئے جس نے سرائیکی معاشرے کے خدوخال کو بدلنے کی کوشش کی۔‘‘۔

ماہرین کے مطابق لاہور میں ترقیاتی منصوبوں کی بدولت لاہور کا اصل حسن تباہ ہورہا ہے۔لاہور جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا اب کنکریٹ اور لوہے کے ڈھیر میں تبدیل ہو رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد لاہور نقل مکانی کرتی ہے لیکن چند سال بعد یہی ترقیاتی منصوبے لاہور کے شہریوں کے لیے ناکافی ہو جاتےہیں جس کی وجہ سے نئے منصوبے بنتے ہیں جو کہ نہ صرف شہر کے حسن کو تباہ کر رہےہیں بلکہ کچی آبادیوں میں اضافے کا موجب بھی بن رہے ہیں۔

ماہرین کے مطابق نقل مکانی کا سلسلہ اسی وقت تھم سکتا ہے اگر چھوٹے شہروں میں صنعتیں لگانے اور ترقیاتی کام شروع کیے جائیں اور لوگوںکو مقامی طور پر روزگار ملے۔

DW/News Desk

Comments are closed.