زرک میر
اس نے عجلت سے ادھر ادھر دیکھا اور جلدی سے سیب کو کھانے لگا ۔پھر کچھ نیچے جھک کر درختوں کے نیچے سے دیکھنے لگا کہ کوئی آتو نہیں رہا ۔اس کا گھوڑا باغ کے باہر کھڑا تھا ۔وہ گھاس کاٹنے کیلئے باغ میں گھسا تھا لیکن یہاں لال لال سیبوں کو دیکھ کر دل پسیج گیا اور جبلی طورپر اس کے ہاتھ سب سے زیادہ لال سیب کی جانب بڑھ گئے تھے اور کس طرح سے اس نے سیب توڑاتھا اور اسے کھان شروع کیاتھا ۔
اسے کچھ پتہ ہی نہیں چلا تھا لیکن اب وہ آدھا سیب کھانے کے بعد ادھر ادھر دیکھنے لگا تھا کہ کہیں کسی نے دیکھ تو نہیں لیا اگر شاہو نے دیکھ لیا تو پھر باغ کا راستہ مجھ پر ہمیشہ کیلئے بند ۔اگر میرا راستہ بند ہوگیا گھوڑا گھاس کہاں سے کھائے گا۔باغ کی گھاس تازہہوتیہے ۔دامان میں تو ویسے بھی خشک سالی کا بسیرا ہے، کہاں سے ملے گی گھاس۔ پھر شاہو گلے سڑے سیب بھی تو مجھے گھوڑے کیلئے دے دیتا ہے ۔کاش کہ میں انہی سیبوں کا انتظار کرتا اور انہی میں سے کھانے کے لائق کوئی سیب ڈھونڈتا ۔لال لال اور تازہ سیب کے چکر میں باغ میں اپنا داخلہ بند کروا بیٹھوں گا شاید۔
سجو جوں جوں سیب کھارہاتھا دل ہی دل میں کئی خیال آرہے تھے ۔اب وہ بیٹھ کر درختوں کے نیچے سے ادھر ادھر دیکھ کر سیب کھانے لگا تھا ۔اس کا منہ لال سیب کے رس سے بھر گیا تھا او ر وہ بڑی تیزی سے اسے کھائے جارہاتھا ۔اس نے سوچا شاہو کے آنے تک جلدی جلدی سیب کھا لے تاکہ گھاس کاٹنے تک جب شاہو آجائے تووہ اسے گلے سڑے سیب بھی دے دے ۔اب وہ سیب کا آدھا حصہ کھا چکاتھاکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ۔کسی نے پیچھے سے آ کر اس کی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ دیئے تھے ۔سجو کے جیسے چھکے چھوٹ گئے۔
شاہو آگیا ہے اور مجھے سیب کھاتے پکڑ لیا ہے ،اب کیا ہوگا ، بھاگ جاؤں ،سیب کھانے سے انکار کردوں۔
وہ تیزی سے بچنے کے طریقوں پر سوچ رہاتھا ۔اس کے حلق سے آواز نکلی۔۔۔کک کک کون ؟
تمہارا باپ
مم میں تو گھاس کاٹنے آیاتھا یہ سیب یونہی زمین پر پڑا ملا۔
سیب کے بچے اب تمہیں میں بڑا اور لال سیب کھلاؤنگا ۔
نن نہیں نہیں مجھے مت مارنا ۔
تم لوگ پہلے غریبی کا جھانسہ دے کر باغ میں گھستے ہو پھر چوری کرتے ہو،کل تمہارے گھر کے باہر ڈھیر (کچر ادان ) پر سیبوں کے چھلکے ملے مجھے ۔تب ہی میں سمجھ گیا کہ تم یہاں سیب چوری کرنے آتے ہوکبھی تمہارے باپ نے بھی ایسا سیب کھایا ہے ،ایسے لا ل لا ل سیب تو مالک خود نہیں کھاتا نہ مجھے کھانے دیتا ہے تم مزے سے آکر کھاجاتے ہو۔
شاہو کی باتیں سجو کوشل کرچکی تھیں ،وہ بات نہیں کرپارہاتھا ۔اس کے حلق سے لال سیب کا رس خشک ہوچکاتھا ۔
مجھے مت مارنا ،آئندہ ایسا نہیں کرونگا ، باغ نہیں آؤنگا ۔مجھے معاف کرو ۔سجو شاہو کی منت سماجت کرنے لگا۔
شاہو اس کے سامنے آکرکھڑا ہوگیا۔
میرے ساتھ آؤ
سجو نے گھبراہٹ میں کہا
کہاں ؟
یہاں جھگی میں آؤ
شاہو آگے اور سجو اس کے پیچھے
کہیں مجھے باندھ نہ دے ،یا کوئی مشکل کام نہ کرادے ،سجو سوچے جارہاتھا۔
گھنے باغ کے عین درمیان میں جھگی اور اس کے ساتھ مچان بنا ہواتھا۔
شاہو جھگی کے اندر گیا ،سجو کے پاؤں جھگی کے پاس دروازے پر رک گئے۔
شاہو نے پیچھے دیکھتے ہوئے سجو کا ہاتھ اندر کھینچ لیا۔
آؤ جلدی آؤ یہاں
سجو اب اندرتھاتو شاہو اس پر ایسے لپکا جیسے سجو لال سیب پر لپکا تھا ،شاہو کے منہ میں بھی رس بھر گیاتھا ۔اس نے بھی چک بھرناشروع کیا۔شاہونیچے جھکا اور سجو کودبوچ لیا ۔شاہو اب تیزی سے چک بھرتا جارہا تھا ،اور مزے لئے جارہاتھا ۔تھوڑی دیر بعد جب سجو جگی سے باہر نکلاتو اس کے گال لال سیب جیسے لگ رہے تھے ۔وہ انہیں آستین سے پونچ کر تیزی سے اپنے گھوڑے کی جانب بڑھنے لگا۔
♠