اصلاح پسندوں کا قافلہ 

Chohan

پروفیسر محمد حسین چوہان

دھرنوں اور احتجاجی سیاست کے عمل کا بار بار دہرایا جانا اس عمل کی غمازی کرتا ہے،کہ حکمراں جماعت مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے،یا اس کو مسائل حل کرنے میں بہت سے تحفظات ہیں،جس سے ان کے قومی مفادات کے بر عکس ذاتی مفادات پر ضرب کاری لگنے کا خطرہ لاحق ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت کا لاہور میں چودہ بے گناہ۱فراد کا معصومانہ حکومتی قتل اور عمران خان کا ملک میں عمومٗا کرپشن جیسے ناسور اور بالخصوص پانامہ لیکس کے حوالے سے نواز فیملی کے خلاف احتجاج مسلسل اس امر کی نشاند ہی کر رہا ہے کہ ملک پہلے سے بھی زیاد ہ گھمبیر مسائل کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے اور حکمران و مقتدر طبقات کو اگر کوئی خطرہ لاحق ہے تو احتساب کے عمل سے ہے،ورنہ گزشتہ دھرنوں اور احتجاج سے یہ مذ کورہ مسائل کب کے حل ہو چکے ہوتے اور عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت محسوس نہ ہو تی۔

مگر ملک کا ہر شہری اس بات سے بخوبی آگاہ ہو چکا ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی کرپشن ہے جس کی ٹھیس ہر سطح اور ہر لمحہ پر ماسوائے مقتدر طبقات کے ہر شخص محسوس کر رہا ہے۔فلاحی اور غیر فلاحی،ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں اگر کوئی بنیادی فرق ہے تو کرپشن کا ہی ہے ایک کرپشن سے پا ک ا ور دوسرا کرپشن کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔جن ممالک میں سیاسی اور حکومتی کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے وہاں کے شہریوں اور کرپشن زدہ ریا ستوں کے شہریوں کے معیار زندگی میں ایک واضح فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔

اس وقت دنیا میں 40 کھرب ڈالرز کی سالانہ کرپشن ہوتی ہے،اور پاکستان کا 174 کرپٹ ممالک میں 126واں نمبر ہے،جہاں سیاسی جماعتوں اور ان کی سر پرستی میں چلنے والے اداروں کی ملی بھگت سے قوم کا کثیر سرمایہ اور بجٹ مختلف صورتوں میں ہڑپ کر لیا جاتا ہے،کیونکہ ملک کا تشکیلی سیاسی ڈھانچہ بدعنوانی سے عبارت ہے۔جو بظاہر جمہوری حکومتیں نظر آتی ہیں ،ان کے سیاسی جوہر میں کرپشن کے وائرس موجود ہیں،اور حکومتی ڈھانچے کی تشکیل جمہوری قدروں کے بر عکس غیر جمہوری عوامل سے ہوئی ہے۔

کرپشن کی پہلی وجہ اداروں کی عدم خود مختاری اور ان میں سیاسی مداخلت ہے،منظور نظر اور سیاسی وابستگی کی بنیادوں پر تقرریاں ہیں جس سے ا داروں کی تباہی، ناقص کار کردگی،سروس کی فراہمی میں تاخیر اور انتخابی عمل میں سرکاری ملا زمین کا نتائج پر اثر انداز ہونا ہے،رشوت و سفارش کی بنیاد پر جب اداروں کی بنیاد رکھی جائے گی تو بدعنوانی کی رمق ہر کہیں موجود رہے گی۔بھتہ کے بر عکس تحفے و تحائف کی صورت میں بھی کام نکلوانے کے لئے کرپشن کی ایک صورت موجود رہتی ہے جس کو عموماٗ قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔

تعلقات اور قربت کی وجہ سے دوست و احباب اور سیاسی وابستگی رکھنے والوں کو چھوٹی اور اعلیٰ ملازمتوں پر فائز کرنا بھی کرپشن کی ایک شکل ہے جس سے حق داروں کی حق تلفی ہوتی ہے۔ عہدے و اختیار کے اثر ورسوخ کے ذریعے مفادات اور خدمات حاصل کرنا بھی استحصال اور کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔سیاسی مخالفین کو دھمکانا،قتل کرنا اور مقدمات کے ذریعے ہراساں کرنا بھی کرپشن کی لطیف اقسام ہیں۔حکومتی فنڈز سے انتخابات پر اثر انداز ہونا اور پری پول دھاندلی کے ذریعے الیکشن جیت کر جعلی مین ڈیٹ حاصل کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے۔

منی لانڈرنگ،ٹیکس چوری،کالے دھن کو سفید کرنا، اور ان کی معاونت کرنا بھی کرپشن میں شامل ہوتا ہے۔بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں میں سیاسی وابستگی رکھنے والوں کو ٹھیکے دینا اور خفیہ طور پر کمیشن حاصل کرنا اور دگنے تگنے اخراجات سے ان کو تکمیل کر کے اپنی جھو ٹی کار کردگی دکھانا بھی سیاسی کرپشن ہے جس سے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے،بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے،عوام کی قوت خرید کم ہو تی ہے اور عام آدمی اپنی محنت سے بنیادی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔

ایک طرف بغیر محنت کے مقتدر طبقات اختیارات اور وسائل کے بے تاج بادشاہ بن جاتے ہیں اور دوسری طرف ایک عام شہری شبانہ روز کی مشقت کے با وجود بھی پیٹ بھر کر روٹی نہیں کھا سکتا۔ ناجائز اور آسان طریقوں سے حاصل کردہ دولت سے سیاسی اشرافیہ کے ہاتھو ں میں سونے کی کنجی آ جاتی ہے جس سے وہ ہر دروازے کو با آسانی کھول لیتے ہیں۔اور آسانی سے بر سر اقتدار آجا تے ہیں۔اور یہی چوروں کی حکومت ہوتی ہے جس کوکیلپٹو کریسی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

ملک میں تمامتر مسائل بے روزگاری،غربت،جہالت،لا قانونیت، خوف و بے یقینی،خوراک کی قلت،امراض و بیماریوں،چوری و ڈاکے،بے گھری و گدا گری،جسم فروشی،ملاوٹ و بے ایمانی اور اہل قلم کے بکنے کی بنیادی وجوہات ہی سیاسی و حکومتی کرپشن ہے،اور جب تک بالائی ڈھانچے میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی نچلی سطح پر کرپشن ختم نہیں ہو سکتی۔


تحریک انصاف کے پاس احتجاجی سیاست کرنے اور اس کو منزل مراد پر پہنچانے کے لئے وسیع امکانات موجود ہیں،کیونکہ ملک کا تشکیلی سیاسی ڈھانچہ بدعنوانی کی ایک لمبی تاریخ رقم کر چکا ہے ا و ر مذ کورہ صورتحال آتش گیر مادہ کی شکل میں احتجاجی سیاست کو ایندھن فراہم کر رہی ہے اورہر عام و خاص مسائل کی بنیادی وجہ کرپشن سے با خوبی آگاہ ہو چکا ہے،مگر اس احتجاجی سیاست کے تسلسل کو قائم رکھنا اور عوام کی فکری تربیت کرنا بہت ضروری ہے۔

اس کے لئے صرف دھرنے میں شامل ہونا ہی کا فی نہیں بلکہ اصلاح پسندوں پر یہ دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مقامی اور علاقائی سطح پر کرپشن کے نا سور کے مضمرات کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں۔جلسے جلو سوں اور اجتماعات کے ذریعے فلاحی اور انقلابی تحریک کی بنیا د ڈالیں۔انقلاب مسلسل کی طرح تدریجاً اشرافیہ کے خلاف یہ تحریک ملک کے کونے کونے تک اپنی جڑیں مضبوط کر لے اور ایک سماجی قدر کی حیثیت اختیار کر لے،اور اس کی منصوبہ بندی طویل بنیادوں پر ہونی چائیے تاکہ تحریک کا تسلسل بھی نہ ٹوٹے اور عوام تھکا وٹ کا بھی شکار نہ ہوں۔

کیونکہ دنیا بھر میں جتنی بھی سیاسی و سماجی تبدیلی کے لئے تحریکات شروع ہوئیں ان کی کامیابی کی بنیادی وجہ منصوبہ بندی ،عوام کی شعوری تیاری،لیڈر کی قوت ارادی تھی۔ماؤزے تنگ کی انقلابی تحریک بیس سالوں پر محیط تھی۔فرانس کا انقلاب دس سال مسلسل قائم رہاسوشلزم کا انقلاب مسلسل ا،ور جدوجہد کئی عشروں پر مشتمل ہے۔مگر اصلاح پسندوں کی یہ تحریک صرف و صرف اصلاحات اور تبدیلی کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ تدریجاًاس کو چلایا جائے۔

کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کیلئے اگلے الیکشن تک اس کا دائرہ وسیع کیا جائے،کیفیتی تبدیلی کا پیدا ہونا ایک مشکل ترین عمل ہے،اس میں ہر مظہر کو ایک نئی شکل اختیار کرنی پڑتی ہے اور اس میں ہمیشہ لگتی ہے محنت زیادہ۔کیونکہ ہمیں جتنا عرصہ پاکستان کی تخلیق میں لگا ہے اس سے زیادہ عرصہ اس کی تعمیر اور تکمیل کے لئے درکار ہے۔اورمحسوس ہو رہا ہے کہ احتجاجی تحریکات کے ذریعے سے ہی پاکستان کی تکمیل ہو گی،اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ ہو گا۔

One Comment