سعودی عرب کو دہشت گردی کی کھلی چھٹی

yr

یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی عسکری کارروائی کو تقریبا پانچ سو دن ہو چکے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار ہاشم المعیسی کے بقول عالمی بردارینے سعودی عرب کو یمن میں قتل عام اور تباہ و بربادی کی کھلی چھوٹ‘ دے رکھی ہے۔

سعودی عسکری اتحاد یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف عسکری کارروائی کا سلسلہ بدستور جاری رکھے ہوئے۔ تاہم ابھی تک ایران نواز باغیوں کو دارالحکومت صنعاء اور دیگر اہم مقامات پر پسپا کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوتی جا رہی ہیں۔

عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اگر اس عرب ملک میں قیام امن ممکن نہ ہوا تو وہاں انسانی المیے کی صورتحال شدید تر ہو جائے گی۔ یمن میں سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے ایک اسکول پر اس حالیہ حملے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جس میں مبینہ طور پر دس بچے ہلاک جبکہ دیگر دو درجن زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کی اقوام متحدہ نے بھی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔

تاہم یمن میں انسانی حقوق کی سرکردہ کارکن ہشام العمیسی کے بقول یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ عالمی ادارے کے سربراہ بان کی مون نے یمن میں سعودی عسکری اتحاد کی طرف سے کی گئی کسی فضائی حملے کی مذمت کی ہو۔

ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں ہشام نے کہا کہ اقوام متحدہ گزشتہ سولہ مہینوں سے ایسے حملوں کی صرف مذمت ہی کرتا رہا ہے جبکہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برداری ان حملوں کی آزادانہ تحقیقات بھی نہیں کرا سکی ہے۔

ہشام نے یمن کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معلوم ہوتا ہے عالمی برداری نے سعودی عرب کو یمن میں سب کچھ کرنے کا ’اجازت نامہ‘ دے رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یمن میں تقریباً دو ہزار بچوں کی ہلاکت میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے باوجود سعودی عرب کے خلاف کوئی عالمی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔

ہشام کے مطابق سعودی عرب کے مقابلے میں یمن ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے اور عالمی برداری کو اس ریاست میں کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ وہ نہ تو یہاں تجارت کر سکتی ہے اور نہ اسے کوئی اور مالی فائدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن سعودی عرب عالمی برداری کا ایک اہم اتحادی ملک ہے اور اس لیے اسے ’کھلی چھوٹ‘ ملی ہوئی ہے۔ انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا، ’’یمن میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے‘‘۔

صنعاء میں سکونت پذیر سیاسی مبصر ہشام نے ایسے الزامات کو بھی رد کر دیا کہ حوثی باغیوں کے ساتھ ایرانی فورسز بھی لڑ رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سولہ ماہ سے انہوں نے یمن میں کوئی ایرانی فوجی نہیں دیکھا، ’’یہاں تو کوئی ایرانی شہری تک نہیں ہے‘‘۔

سعودی عرب پھر بھی بضد ہے کہ ایرانی فورسز حوثی باغیوں کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں۔ ہشام نے دعویٰ کیا کہ حوثی باغیوں نے اگرچہ ایران سے مدد طلب کی تھی لیکن تہران نے انکار کر دیا تھا۔

ہشام کے مطابق سعودی نواز یمنی فورسز کا مطالبہ ہے کہ مذاکراتی عمل سے پہلے حوثی صنعاء سمیت دیگر علاقوں سے نکل جائیں اور اپنے ہتھیار پھینک دیں۔ ہشام نے کہا کہ حوثی باغی ایسا نہیں کریں گے کیونکہ انہوں نے گزشتہ سولہ مہینوں سے اس مطالبے پر کان نہیں دھرے ہیں۔

ہشام کے بقول یمن میں قیام امن کے لیے عالمی برداری کو زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہوئے سعودی عرب اور اس کی اتحادی فورسز کی شرائط کو نرم کرانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا سلسلہ باہمی احترام اور اعتماد سازی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

DW

Comments are closed.