ریاست کیاہوتی ہے؟ریاست کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور عوام ریاست کو کیوں کر مانتی ہے۔ ریاست اور معاشرے کے آغاز کے بارے میں تو مختلف مفروضات و نظریات موجود ہیں تاہم ان میں سب سے اہم اور مشہور نظر یہ جے جے روسو کا ’معاہدہ عمرانی ‘ ہے۔ جس کے تحت ارتقائی عمل کے دوران انسان جب غاروں سے نکل کر چھوٹی چھوٹی ٹولیوں اور بعد میں گاوں کی اجتماعی زندگی گزارنے لگے تھے۔ ان کے درمیان کوئی واضح قانون یا زندگی گزارنے کے اصول نہیں تھے ۔ اُن کو کنٹرول کرنے والہ کوئی نظام موجود نہیں تھا۔ انسانی زندگی کی کوئی قدر نہیں تھی، ہر سو جنگل کا قانون ہوا کرتا تھا۔ طاقتور کمزروں کو قتل کرتے تھے، اُن کے مال ، اسباب اور خواتین کو یرغمال بناتے تھے۔
قصہ کوتا ہ یہ کہ کسی کا مال اور زندگی محفوظ نہیں تھیں۔ ان حالات سے تنگ آکر آخر کار کچھ باشعور انسانوں نے آپس میں بیٹھ کر یہ فیصلہ کر لیا کہ کیوں نہ ہم ایک ایسا انصاف پرور اصولی نظام بنائیں جس میں سب کی جان، مال،عزت اور دیگر چیزیں محفوظ ہوں۔ اس کیلئے انھوں نے فیصلہ کرلیا کہ ہم اپنے اپنے اختیارات میں سے کچھ اختیارات ایک ایسے گروہ یا افراد کے حوالے کردیتے ہیں جو امین ہو، ہمیں امن، تحفظ دے سکیں اور جو جو لوگ بدامنی پھیلانے کی کوشش کرے، یا کسی کے جان، مال و عزت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے، اُن کو پکڑ کر سزائیں دے سکے۔
اس طرح انھوں نے باہمی مشورے اور عوامی طاقت سے ریاست اور حکومت کی داغ بیل ڈالی۔اس نظام کو چلانے کیلئے ریاست نے فوج، جاسوسی ادارے، مالیہ، سزا و جزا کے ادارے بنائے۔ جو عوام کے ٹیکسوں سے چلتے تھے اور یہ تمام ادارے عوام کو امن اور استبدادی قوتوں سے نجات دلاتے تھے۔ ان مقاصد کے حصول میں اگر کوئی ریاست ناکام ہوجاتی تھی، تو عوام اپنے لئے دوسرا نظام منتخب کرتی، انصاف پرستوں کا ٹولہ چونتی تھی۔ اس طرح سے دنیا میں نئی ریاستیں اور اُن کو چلانے کیلئے بہتر سے بہتر نظام وجود میں آنے لگے۔
اس تمہید کے باندھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ریاست کا کردار تو والدین جیسا ہوتا ہے لیکن کیا پاکستانی ریاست کا کردار ایک شفیق ماں، ایک مہربان باپ جیسا ہے؟ کیا ریاست پاکستان معاہدہ عمرانی پر پورا اترتی ہے؟ کیا یہاں کی اقوام کو تحفظ، امن، خوشحالی، ترقی، انصاف اور باقی تمام بنیادی، انسانی حقوق حاصل ہیں ؟ کیا یہ ریاست عوام کو جنگل سے بہتر نظام دے سکا ہے؟
پاکستان بننے کے بعد اور اب تک یہاں کی اقوام پنجاب یا لاہور کے ہاتھوں اپنے اپنے وسائل کے لوٹنے اور ملک میں اپنے جائز حقوق پر پنجاب کی جانب سے ڈاکہ ڈالنے کا رونا رو رہے ہیں۔ لیکن جب یہی عوام یا اُنکے سیاسی لیڈرز اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں، اپنے وسائل پر اختیار کی بات کرتے ہیں۔ اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کا رونا روتے ہیں۔ اور ریاستی مظالم کے خلاف اواز اٹھاتے ہیں تو جواب میں اُن کے ہاتھوں پر تخت لاہور کے تحت تیار ہونے والے ’ پاکستان سے غداری کا مہر‘، ر ا کے ایجنٹ کا مہر اور اسلام دشمنی کے مہر لگائے جاتے ہیں۔
گزشتہ چالیس سالوں سے پاکستان میں پشاور ہو یا کو ئٹہ یا پھر فاٹا پشتونوں ہی کا سب سے زیادہ خون بہایا جارہا ہے۔ اے پی ایس سکول ہو، باچاخان یونیورسٹی، کوئٹہ کے ہسپتال ہوں یا عدالتیں، فاٹا کے سکول ہو ں، بازار ہو ںیا ایف سی کے جوان سب سے زیادہ اس ملک میں دہشت گردی کے شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ریاست مزاحمت کی بجائے صرف مذمتی بیان اور دعاوں سے ان کو دلاسہ دے رہی ہے ۔
دوسری جانب ان علاقوں کی عوام کی مرضی کے خلاف دنیا جہاں کے دہشت گرد فاٹا، کوئٹہ اور پشتونخوا میں لاکر آباد کئے گئے۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ پشتون علاقوں کو میدان جنگ بنادیاگیا ہے۔ جس میں اس وقت لاکھوں پشتون لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کڑوڑوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں۔ اُن کی امن، تعلیم ، صحت، روزگاراور زراعت تباہ ہوچکی ہیں۔لیکن اُن کو تحفظ دینے والے ریاستی ادارے ہر سال بجٹ کا ایک بڑا حصہ وصول کرنے کے باوجود ان لوگوں کی جان و مال کو تحفظ دینے میں ہر لحاظ سے ناکام ہوچکے ہیں۔
ہر سال عوام کی محنت کی کمائی سے حاصل ایک خطیر رقم قومی بجٹ میں دفاع کیلئے مختص کیا جاتی ہے جوکہ 700سو ارب روپے سے زیادہ ہیں، یعنی، صحت، تعلیم کے شعبوں سے بھی بڑی رقم ملکی دفاع کیلئے رکھی جاتی ہے۔ اگر دفاعی اداروں کی ضروریات کیلئے عوام کی محنت سے اتنی بڑی رقم رکھی جاتی ہے اس کے باوجود فاٹا، صوبہ پشتونخوا، سندھ، اور بلوچستان ( بیلنس رکھنے کیلئے ایک آدھ دھماکہ لاہور میں بھی) میں آئے روز دھماکے ہوتے ہیں اور عوام کو امن و تحفظ حاصل نہیں ہے تو اس سے دو ہی نتیجے اخذ کئے جاسکتے ہیں ۔
نمبر 1۔ یا تو یہ ادارے انتہائی نااہل اور کرپٹ ہیں…لہذا ان کی ریسٹرکچرنگ کی ضرورت ہے۔
نمبر2 یا پھر ان کے چلانے والوں کی نیت پر شک کیا جاسکتا ہے۔ جو کہ اصولاً نہیں کیا جانا چاہیے۔
ہماری پولیس، لیوئز، رینجرز، فوج اور مختلف جاسوسی اداروں کے مقابلے میں ان دہشتگردوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔اکیسویں صدی کا ایک باشعور انسان کیسے مان سکتا ہے کہ کوئٹہ کے ہر کونے، ہر گلی، ہر بازار میں سیکورٹی فورسیز اور جاسوسی اداروں کے ہزاروں افراد کی تعیناتی کے باوجود کوئٹہ سول ہسپتال جیسے واقعات رونما ہوں اور ریاست کو پتہ ہی نا چلے؟ عوام کیسے مان لیں کہ فاٹا میں لاکھ سے زائد سیکورٹی فورسز اور جاسوسی اداروں کے افراد کی موجودگی میں چند شرپسند افراد آکر دھماکے کرتے ہیں۔ کراچی میں ٹارگیٹ کلنگ کر کے یہ ملک دشمن عناصر آسانی سے نکل جاتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ اتنی خطیر رقم کے باوجود کیوں سیکورٹی کیوں ناکام ہوتی ہے؟
دوسری جانب یہ مٹھی بھر دہشت گرد ناصرف ان اداروں سے کافی تیز، جدید اسلحہ سے لیس، چاک و چوبند ہوتے جارہے ہیں اور ریاست پاکستان کے اندر بیٹھ کر پاکستانیوں کے خلاف کاروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ طالبان ہوں، یا طالبان شوری، لشکر صحابہ ہو یا جماعت الدعوۃ، حقانی نیٹ ورک ہو یا پھرمُلا فضل اللہ و بیت اللہ محسود، لال مسجد ہو یا حافظ سعید جیسے مُلا، داعش ہو یا خود کُش حملوں کی فیکٹریاں۔ مجاہدین و طالبان کے بنانے والے جنرل جاوید ناصر سے لیکرکرنل امام ونصیراللہ بابر جیسے وطن دشمن عناصر یہ سب پاکستان ہی کے اندر سے پاکستانیوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ بلکہ اسامہ بن لادن، مُلا عمر اور مُلا اخترمنصور جیسے عالمی دہشت گرد بھی پاکستان کے اندر ہی پائے گئے ۔ اور ان میں سے کسی ایک کو بھی نا تو ملکی ادارے پکڑ سکے اور نا ان کے خلاف کوئی موثر کار وائی کی گئی بلکہ ان میں سے کچھ تو امریکی ڈرون حملوں میں مارے گئے، کچھ بظاہر فرار اور باقی آج بھی پاکستان میں موجود ہیں۔
ایک ریاست کا اصل چہرہ اُسکی خارجہ پالیسی ہوتی ہے ۔ اور یہ چہرہ اصولاً پارلیمنٹ ہی سجاتا ہے۔ لیکن کیا پاکستان میں خارجہ و داخلہ پالیسیاں پارلیمنٹ بناتی ہے؟ کیا ان خارجہ و داخلہ پالیسیوں کے بنانے میں کسی سندھی، کسی بلوچ، کسی سرائیکی اور کسی پشتون رہنماوں کو نمائندگی دی جاتی ہے؟ ہر گز نہیں۔اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر یہ اقوام ان پالیسیوں کو کیوں تسلیم کریں۔ جب پارلیمنٹ خارجہ و داخلہ پالیسیوں کو بنا تی ہی نہیں ہے تو ان پالیسیوں کے برے نتائج کا ذمہ دار عوامی نمائندوں کو ہرگز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
آج اگر پاکستان ایک پراکسی سٹیٹ بن چکا ہے تو اس کا ذمہ دار تووہی لوگ ہیں جو افغان مجاہدین، طالبان اور فرقہ واریت کے خالق ہیں۔ جن پر ایٹم بم فروخت کرنے کا الزام ہے۔اس لئے ایک دیہاڑی والا پنجابی، ایک کاشتکار سرائیکی، ایک مظلوم بلوچ، ایک محنت کش سندھی اور ریڑھی بان پشتون تو کسی لحاظ سے بھی ان داخلہ و خارجہ پالیسیوں کیلئے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکا سکتا ہے۔
گزشتہ 70 سالوں سے ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسیاں پارلیمنٹ کی بجائے پنجاب کے حقیقی لیڈرز ( سیکیورٹی کے ادارے ) بنارہے ہیں جس کا نتیجہ عام عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ جب تک خارجہ و داخلہ پالیسیاں پارلیمنٹ میں نہیں بنیں گی۔ یہ ملک اسی طرح جلتا رہے گا۔ 70 سالوں تک اپ نے یہ پالیسیاں بنائیں اور اس کے منفی اثرات دیکھ لئے۔ اب خدارا! بس کردو۔ اور عوامی نمائندوں کو یہ پالیسیاں بنانے دو، پھر دیکھنا کہ اس ملک سے دہشت گردی کیسے ختم نہیں ہوتی، ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کیسے بہتر نہیں ہوتے، کشمیر کا مسئلہ کیسے حل نہیں ہوتا ہے۔پاکستان کے اندر اقوام کے درمیاں پائی جانے والی نفرتیں اور محرومیاں کیسے ختم نہیں ہوتی ہیں۔
اکیسویں صدی میں استعماریت سے گھر نہیں چلتا ملک کیا خاک چلا پاؤ گے۔ اگر یہی استبدادی سوچ رہی تو بنگلادیش توبرسوں آ پ انہی پالیسیوں کا نظر ہو ا تھا، باقی پاکستان بھی پنجاب کی چند گلیوں تک رہ جائے گا۔ پھر کہتے رہنا بیرونی ہاتھ ملوث تھے۔
♠
One Comment