انسانی حقوق کے سینئر کارکن معروف دانشور آئی اے رحمان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی بات چیت میں بلوچستان کے مسئلے کے بارے میں کہا کہ بلوچ عوام سے کبھی ان کی مرضی نہیں جانی گئی۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے ڈائریکٹر آئی اے رحمان نے کہا کہ یہ تک نہیں بتایا جا سکتا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کتنے برسوں سے خراب ہے، کیوں کہ پہلے دن ہی سے وہاں کے لوگوں کی رائے جانی ہی نہیں گئی۔
۔ ’’جہاں تک آپ کا سوال ہے کہ آیا بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورت حال مستقبل قریب میں بہتر ہو سکتی ہے، تو میرے خیال میں ایسا جلد ہوتا نظر نہیں آتا بلکہ صورت حال مزید خراب ہو سکتی ہے، کیوں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ بلوچستان کے بارے میں تبدیل ہوتی دکھائی نہیں دیتی‘‘۔
اس بارے میں کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت کے یوم آزادی کی تقریب کی موقع پر اپنی تقریر میں بلوچستان کا ذکر بھی کیا تھا، آئی اے رحمان کا کہنا تھا، ’’دیکھیے سارے مسائل کی وجہ تصادم ہے، جو بھارت اور پاکستان کے عوام کے حق میں نہیں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھارت اور پاکستان کو تمام معاملات کا حل گفت گو کے ذریعے نکالنا چاہیے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’لیکن جو نریندر مودی نے بلوچستان اور پاکستان کے بارے میں کہا، وہ اس لیے سمجھ میں آتا ہے کیوں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ان دنوں جو کشیدگی اور مظاہرے جاری ہیں، اور جس شدت سے اسے کچلنا پڑ رہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنی شدید ہے۔ وہ تو خیر مسئلہ اپنی جگہ پر رہے گا۔ مگر دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج یہ کسی کے حق میں اچھی نہیں ہے اور انتہائی نقصان دہ ہو سکتی ہے‘‘۔
آئی اے رحمان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ چوں کہ کسی بین الاقوامی فورم پر نہیں ہے، اس لیے پاکستان کی پوزیشن کمزور ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ انہوں نے کہا، ’’مضبوط بھی پڑ جائے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ کشمیر کا مسئلہ کتنے برسوں سے بین الاقوامی سطح پر ہے مگر اس کا کوئی نتیجہ کہاں نکل پایا ہے؟‘‘۔
تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان کا تشخص دنیا بھر میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی وجہ سے خاصا مجروح ہوا ہے اور اب انسانی حقوق کے حوالے سے پامالیوں کے الزامات کے بعد اس تشخص کو اور زیادہ نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہی ہیں اور ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انسانی حقوق کے معاملے مزید بگڑ جانے اور صورت حال مزید ابتر ہو جانے کے خدشات ہیں کیوں کہ ’ریاستی سطح پر اس بابت کوئی قدم اٹھتا دکھائی نہیں دیتا‘۔
DW
♦