لندن : بلوچ رہنما میر جاوید مینگل نے کہا ہے کہ سانحہ کوئٹہ میں پاکستانی فوج کے اسٹرٹیجک اثاثے ملوث ہیں۔ کوئٹہ دھماکے میں صرف وکلاء کو نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ بلوچ و پشتونوں کی مستقبل، وجود اور علمی و قومی اثاثوں کو نشانہ بنایا گیا۔
جب کوئی قابض کسی ملک پر قبضہ کرتا ہے تو وہ اُس قوم کے تعلیم یافتہ طبقے اور معاشرے کے کارآمد افراد کو نشانہ بناتا ہے اور آج ریاست پاکستان بلوچ سرزمین پر اپنا غیر قانونی اور جبری قبضہ کو برقرار رکھنے کے لئے بلوچ قوم کے دانشوروں، پروفیسرز اور ادیبوں کو چن چن کر نشانہ بنارہی ہے۔
ایک طرف فوجی طاقت استعمال کرکے بلوچ آبادیوں کو مٹایا جارہا ہے۔ بلکہ پاکسانی فوج بنگلہ دیشں کی طرز پر بلوچستان میں نسل کشی کررہی ہے جس طرح بنگالیوں کے تعلیم یافتہ اور باشعور طبقے کو نشانہ بنایا گیا بالکل اُسی انداز سے بلوچ قوم کے باشعور، باعلم اور دانشور طبقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
سانحہ کوئٹہ سے یوں لگتا ہے کہ اب تعلیم یافتہ لوگوں کو انفرادی ٹارگٹ کرنے کے بجائے اُن کی اجتماعی نسل کشی کا آغاز کیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب مذہبی دہشت گردوں اور وحشی درندوں کو استعمال کرکے بلوچ و پشتونوں کی نسل کشی کی جارہی ہیں۔ پاکستانی فوج پنجاب کو محفوظ اور خوشحال بنانے کے لئے بلوچ، پشتون اور سندھیوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں۔
جب بھی امریکہ پاکستان کے فنڈز کو روک لیتا ہے تو نشانہ بلوچ و پشتونوں کے بچے بنتے ہیں۔ پاکستان امریکہ سمیت دیگر عالمی قوتوں سے مذہبی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی خاتمے کے نام پر پیسے لیکر اُن پیسوں کو انتہاء پسندی کے خاتمے کے بجائے اُن ہی کے فروغ پر خرچ کرتے ہیں۔ آج یہ مذہبی انتہاء پسند پوری دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے خطرہ بن چکے ہیں بلکہ اس بار پاکستان نے سانحہ کوئٹہ کے ذریعے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
ایک طرف فنڈز کے حصول کے لئے امریکہ کو بلیک میل کرنے اور دوسری جانب لاپتہ بلوچوں کی بازیابی، مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں کی دریافت کے خلاف قانونی جنگ لڑنے اور مختلف فورمز پر بات کرنے والوں کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اب اس سانحہ کو جواز بناکر بلوچ قوم کی نسل کشی میں مزید تیزی لائی جائیگی۔
میر جاوید مینگل نے مزید کہا کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد بلوچ و پشتون جب اپنے نوجوانوں کی لاشیں اُٹھا رہے تھے اور غم سے نڈھال تھے لیکن پاکستانی فوج کے جنرل اُنکی لاشوں پر کھڑے ہوکر سی پیک کے لئے غمزدہ تھے کیونکہ اُنکے نزدیک بلوچ و پشتونوں کے خون کی کوئی اہمیت نہیں پاکستانی فوج، میڈیا اور حکمرانوں کے لئے انسانی جانوں سے زیادہ اہم سی پیک اور پنجاب کی خوشحالی ہے۔ آرمی جنرل کے بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ واقعہ پری پلان تھا۔
سی پیک کو محفوظ بنانے کے لئے بلوچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، گھروں کو جلایا جارہا ہے، نوجوانوں کو اُٹھا کر غائب کیا جاتا ہے بلکہ بلوچ آبادیوں پر بمباری روز کا معمول بن چکی ہے ریاست بلوچ قوم کے تمام مکتبہ فکر کو نشانہ بنارہی ہے اور ریاست کے نزدیک ہر بلوچ مزاحمت کار دہشت گرد ہے۔
بلوچ دانشوروں، ادیبوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے گزشتہ دنوں بلوچ ادیب و دانشور عبدالواحد بلوچ کو اغوا کرکے لاپتہ کردیا گیا اُنکا قصور صرف یہ تھا کہ وہ تعلیم، قلم اور کتاب دوست شخص تھا۔ریاست پاکستان کو یہ بھی قبول نہیں کہ کوئی بلوچ علم حاصل کرے، کتابوں سے دوستی رکھے یا قلم کو اپنا طاقت بناکر بلوچ قوم کے غلامی اور محرومیوں پر لکھیں۔
واحد بلوچ کو لاپتہ کرنا کوئی انوکھا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بلوچستان اور کراچی میں بلوچ صحافیوں، دانشوروں، ادیبوں، پروفیسرز اور قلمکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ لیکن اس طرح کے بھونڈی و بزدلانہ کاروائیوں سے بلوچ قوم کو مرعوب نہیں کیا جاسکتا۔
میر جاوید مینگل نے پشتونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ لوگ چاہے جتنا بھی پاکستان کے ساتھ وفاداری نبھائیں لیکن آپ لوگوں کے حصے میں صرف لاشیں ہی ہونگے اور پنجابی اسٹبلشمنٹ اپنی مفادات کی تحفظ کے لئے پشتونوں کو قربانی کا بکرا بناتی رہے گی۔
فوجی آپریشن اور خود کش حملوں کے ذریعے آپ لوگوں کو آپ کی وفاداری کا انعام ملتا رہے گا اب باشعور پشتونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کو بچانے کے لئے اپنے بچوں کو پاکستان کی چنگل سے آزاد کرائیں اور بلوچستان میں صدیوں سے مقیم پشتون، ریاست کو بچانے اور مضبوط کرنے کے بجائے بلوچ تحریک آزادی کی سیاسی و اخلاقی حمایت کریں۔
♣
2 Comments