فوجی ڈھانچے میں مکمل تبدیلی، خارجہ پالیسی کی تعمیر نو اور اپنی عہد حاضر کی تاریخ میں سیاسی اور عسکری سطح پر کانٹ چھانٹ اور صفائی کی سب سے بڑی کارروائی کے بعد ترکی گزشتہ ایک ماہ میں تبدیل ہو چکا ہے۔
آج سے قریب ایک ماہ قبل ترکی میں فوج کے ایک حصے نے حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی جسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ انقرہ اور استنبول میں جہاں کے باسیوں نے شورش کی رات جیٹ طیاروں سے بم گرتے اور شہر کی گلیوں میں ٹینکوں کو گشت کرتے دیکھا تھا، اب زندگی معمول پر آچکی ہے۔
تاہم سرکاری عمارتوں پر پڑے طویل و عریض سرخ رنگ کے ترکی کے جھنڈے، شہر میں جا بجا بغاوت کی تصاویر دکھاتے بل بورڈز اور میٹرو ٹرین کے اسٹیشنوں پر بغاوت میں کام آنے والے ’’ شہداء ‘‘ کی تصویریں یاد دلاتی ہیں کہ ترکی میں کچھ بھی ویسا نہیں رہا جیسا پندرہ جولائی کو بغاوت کے آغاز سے پہلے تھا۔
ترک حکومت کا موقف ہے کہ منصوبہ ساز وں نے امریکہ میں مقیم ترک مبلغ فتح اللہ گولن کے ایماء پر اس بغاوت کا منصوبہ ترتیب دیا جس کا مقصد صدر رجب طیب ایردوآن کو منصب اقتدار سے ہٹانا اور ایک فوجی حکومت کا قیام تھا۔ تاہم یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور باغیوں کو بڑے پیمانے پر گرفتار کر لیا گیا۔ اور اس طرح ترک صدر کو جدید جمہوریہ ترکی میں چند اہم تبدیلیاں لانے کا موقع مل گیا۔
ترک حکام کا کہنا ہے کہ یہ بغاوت مسلم مبلغ فتح اللہ گولن کے فوج میں موجود وفاداروں کے ذریعے عمل میں لائی گئی۔ بغاوت کی ناکامی کے بعد سے اب تک فوج کے نصف سے زائد جرنیل گرفتار یا ملازمتوں سے فارغ کیے گئے ہیں۔ ایردوآن نے جرنل سٹاف اور فوج کے مختلف شعبوں کو براہ راست اپنے ماتحت لانے کے لیے منصوبہ سازی کا آغاز کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ فوج جیسے اہم ادارے کو عمل اور نوعیت کے لحاظ سے سول اداروں جیسا بنانے کی اطلاعات بھی ہیں۔
اب تک جس ادارے کو حکومتی کانٹ چھانٹ کے عمل سے نہیں گزرنا پڑا وہ سرکاری خفیہ ایجنسی ایم آئی ٹی ہے۔ تاہم اس ادارے کو بھی اس حوالے سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ وہ فوجی بغاوت کے بارے میں صدر طیب ایردوآن کو آگاہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ترک حکومت کے مطابق سرکاری خفیہ ایجنسی کی بھی تنظیم نو کی جائے گی۔
اس بغاوت کے بعد ہزاروں فوجی افسروں کو یا تو گرفتار اور یا پھر ملازمتوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔ انقرہ میں پندرہ جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک مبینہ طور پرگولن کے حامی سمجھے جانے والے 76 ہزار سے زیادہ افراد کو سرکاری اور نجی ملازمتوں سے برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے۔ ان میں فوج، میڈیا، عدلیہ اور سول سروس کے لوگ شامل ہیں۔
ترک حکومت کے مطابق اب تک 81 ہزار سے زائد ملازمین کو معطل کیا جا چکا ہے، جس میں تین ہزار سے زائد فوجی بھی شامل ہیں۔ ملازمتوں سے برخواست یا معطل کیے گئے افراد میں شامل افراد کا تعلق عدلیہ، فوج، متعدد دیگر وزارتوں اور گولن کی تحریک سے وابستہ اسکولوں سے ہے۔ پولیس نے اسی سلسلے میں 35 سو سے زائد افرد کو حراست میں بھی لیا ہے، جن میں سے 17 ہزار سے زائد پر اس بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں مقدمات شروع کیے جا رہے ہیں۔
دوسری طرف صدر اردوان جو کچھ ماہ پہلے تک روس کے خلاف دھواں دھار بیان دے رہے تھے، اس سے معافی مانگ کر ان سے دوستی کر رہے ہیں اور اب ان کی توپوں کا رخ امریکہ کی طرف ہو گیا ہے۔
ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امریکا سے فتح اللہ گولن کی حوالگی کی باقاعدہ درخواست کر دی گئی ہے اور ترکی یلدرم کے مطابق ترکی میں امریکا مخالف جذبات کا معاملہ بھی گولن کے ترکی کے حوالے کرنے یا نہ کرنے سے جڑا ہےاس مطالبے سے کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یلدرم نے یہ بات ترک صحافیوں کے ایک گروپ سے بات چیت کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کی 24 تاریخ کو امریکی نائب صدر جوبائیڈن بھی ترکی پہنچ رہے ہیں، جب کہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری بھی اگلے ماہ ترکی کا دورہ کریں گے۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی حکومت کے بقول مغربی حکومتوں کی جانب سے ترکی میں گزشتہ ماہ ہونے والی ناکام فوجی بغاوت پر ’کم شدت کی مذمت‘ کی گئی۔ اس کے علاوہ اس بغاوت میں مبینہ طور پر ملوث افراد کے خلاف سخت ترک کریک ڈاؤن پر سخت مغربی تنقید پر بھی ایردوآن حکومت سخت برہم ہے۔
DW