انجم چوہدری کو مجرم قرار دے دیا گیا

140925145752_anjem_choudary_640x360_getty

انجم چوہدری ایک شدت پسند ِخیالات رکھنے والے ایک برطانوی شہری ہیں جو 1967 میں لندن میں پیدا ہوئے لیکن ان کے خاندان کا تعلق پاکستان سے بتایا جاتا ہے۔

ان کے والد کا لندن کے قریبی علاقے ویلنگ میں اپنا کاروبار تھا، یہیں کے مقامی سکولوں میں پڑھنے کے بعد انھوں نے برطانیہ کی ساؤتھیمپٹن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔

وہ نوے کی دہائی سے المہاجرون اور اسلام فار یو کے جیسے کالعدم شدت پسند تنظیموں سے منسلک چلے آ رہے ہیں اور جب برطانیہ میں7/7 کے دہشت گرد حملوں کے بعد المہاجرون کے رہنما عمر بکری محمد یہاں سے چلے گئے تو ان کا شمار یورپ بھر کے اہم ترین شدت پسند رہنماؤں میں ہونے لگا۔

وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور قانون کے شعبے سے تعلق کی وجہ سے انہیں پتا تھا کہ قانون کے حدیں کیا ہیں، کہاں تک جانا جائز ہے اور وہ کون سا مقام ہے جہاں سے آگے جانے سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ تو یوں سمجھ لیجیے کہ وہ اپنے علم اور مہارت کی وجہ سے قانون کے شکنجے سے بچے رہے باوجود اس کے کہ ان کا تعلق شدت پسند تنظیموں سے تھا۔

یہ اس لیے بھی ہے کیوں کہ برطانوی عدالتی نظام میں کسی ملزم کے خلاف ثبوت لانے جرم ثابت کرنے کی ذمہ داری یا قانونی زبان میں برڈن آف پروف استغاثہ پر ہوتی ہے۔

اسی کے نتیجے میں وہ 20 سال تک اشتعال انگیز تقریروں، برطانیہ سمیت دنیا بھر میں اسلامی شریعت کے نفاذ کے دعوؤں اور ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ پر اسلامی جھنڈا لہرانے کی دھمکیوں کے باوجود وہ قانون کی شکنجے سے محفوظ رہے کیونکہ وہ کچھ بھی کہنے یا کرنے میں بہت ہیں محتاط تھے۔

اس سلسلے میں اہم موڑ سن 2014 کو آیا جب عراق اور شام میں اسلامک سٹیٹ یا دولت اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا۔برطانیہ میں انجم چودھری نے نہ صرف ابوبکر بغدادی کی بیت کی بلکہ اپنے حامیوں سے بھی کہا کہ وہ اس کی حمایت اور دفاع کریں۔اس مرحلے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کہا کہ بہت ہو گیا، اب ان کو قانون کی گرفت میں لینا ہو گا اور انہیں اپنے ایک ساتھی میزان الرحٰمن سمیت گرفتار کر لیا گیا۔


انجم چودھری اور ان کے ساتھی پر دولت اسلامیہ کی حمایت اور امداد کرنے کا الزام تھا جو برطانیہ کے دہشت گردی کے قانون کے دفعہ بارہ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔استغاثہ کے مطابق انھوں نے اس جرم کا ارتکاب 29 جون سن 2014 اور چھ مارچ 2015 کے درمیانی عرصے میں کیا۔

عدالتی فیصلے کا اعلان تو 28 جولائی کو ہو گیا تھا لیکن یہ خبر منظر عام پر اب کیوں آ رہی ہے؟

یہ بالکل ٹھیک ہے کہ اس عدالتی فیصلے کا اعلان تین ہفتے پہلے ہو گیا تھا لیکن اس کو رپورٹ کرنے پر پابندی تھی کیونکہ لندن میں اولڈ بیلی کی عدالت میں اسی نوعیت کا ایک اور مقدمہ زیر سماعت تھا اور عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ جب تک اس کیس کی سماعت مکمل نہیں ہو جاتی اس وقت تک انجم چودھری اور میزان الرحٰمن کے خلاف ہونے والے فیصلے کو رپورٹ نے کیا جائے۔

بشکریہ:ساجد اقبال ۔بی بی سی

Comments are closed.