رزاق کھٹی
اگست کا مہینہ پاکستان کیلئے پہلے صرف یوم آزادی کے حوالے سے اہم ہوا کرتا تھا، لیکن جب بونے سانولوں نے اپنے ہاتھ سے چھینے ہوئے نوالے کا حصہ مانگا تو وہ غدار ٹھہرے، پھر جشن آزادی منانے والے آدھے رہ گئے، سچی بات تو یہ ہے کہ آدھے بھی کہاں، ایک اقلیت رہ گئی، اکثریت تو الگ ہوگئی۔
اُدھر تم ادھر ہم، باقی اِدھر ہم ہی ہم تھے۔ جو باقی بچا اس کو ایک شخص نے سمیٹنے کی کوشش کی، اسے بہت جلدی تھی، اس لیے اس نے وہ کام بھی کیے جو کسی ڈکٹیٹر کو بھی زیب نہیں دیتے ۔۔۔ انسان کی ناجائز موت اس کے اگلے پچھلے گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ مرنے والا ایک ایسی زندگی انجوائے کرتا ہے، جس میں عقیدت اور احترام شامل ہوتا ہے! بھٹو کے ساتھ ایسا ہی ہوا، اس کے مخالف بھی اسے بھٹو صاحب کہتے ہیں!۔
وقت اتنا تیز کہ ایک رات وزیراعظم ہاؤس میں فوجی دیواریں پھلانگتے ہوئے آجاتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے کہ جو آرمی چیف اسے سیلوٹ کے ساتھ ساتھ جھک کر پاؤں کو ہاتھ لگانے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا وہ نہ صرف اس کی حکومت کا دھڑن تختہ کرتا ہے لیکن آنے والے دنوں میں وہ اسے تختہ دار تک پہنچاکر دم لیتا ہے، ایک قبر تھی اور دو آدمی تھے۔ اس لیے ان میں سے کسی ایک کو تو مرنا ہی تھا۔
ضیاء زندہ رہا، اور دس سال تک اس ملک کے اعصاب پر سوار رہا۔ دس سال بعد جب بہاولپور کے قریب شام ساڑھے چار بجے زمین و آسمان کے درمیان ایک کان پھاڑ دھماکا ہوتا ہے، اس دھماکے کی آواز کا پیچھا کرتے لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک آگ کا گولا ہے کہ زمین کی طرف آرہا ہے، جتنے منہ تھے اتنی ہی باتیں ۔۔
ان دنوں نہ نجی ٹی وی چینلز تھے اور نہ ہی موبائل فون، نہیں تو کوئی دل جلا وہاں بھی پہنچ جاتا اور ایک جبڑے کی تصویر واٹس ایپ پر گردش کرتی! وہ چند گھنٹے گذرے ۔ رات کو سینیٹ چیئرمین اور پاکستان میں بیورو کریسی کے امام غلام اسحاق خان نے قوم سے خطاب کیا اور کہا ’’ طیارہ پٹ گیا‘‘ زندگی میں پہلی اور آخری بار غلام اسحاق خان تب ہی اچھا لگا تھا ورنہ تو بعد میں آنے والے دنوں میں اس نے جتنے بھی خطاب کیے ان میں اس نے اسمبلیاں ہی توڑنے کا اعلان کیا۔۔
زندگی کی ذلیل گھڑیوں میں ضیاء کی موت کی خبر تو کروڑوں جمہوریت پسندوں کیلئے ایسی خبر تھی جیسے کسی کنگلے کی کروڑوں کی لاٹری نکل آئے۔۔ اس دن دوسری بار پاکستان میں اگست کی اہمیت میں اضافہ ہوا تھا۔ اس بار سترہ اگست کو پاکستان کسی عذاب سے نجات پارہاتھا۔۔
لیکن سچ کچھ اور بھی تھا، وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ضیاالحق آج بھی زندہ ہے۔
وہ ہمیں صرف پھٹنے والے کسی خود کش کی صورت میں نہیں ملتا ، وہ ہمیں اس گولی میں بھی ملتا ہے جو ایک شیعہ کے سینے کو چیرتے ہوئے نکل جاتی ہے، وہ ہمیں کلاشنکوف کی صورت اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے، وہ بڑے گٹر نالوں کی اوٹ میں ہیروئن پینے والے مجبوروں کی صورت کسی بھوت کی طرح ملتا ہے۔ وہ جو اس لت میں خوشبو اور بد بو کا احساس تک گنوا بیٹھے ۔
یہی بے حسی ہمیں اس ملک کے گلی کوچے اور شاہراؤں پر بھی نظر آتی ہے، امام بارگاہیں ہوں یا مسجدیں، ریلوے اسٹیشن ہو یا آرمی پبلک اسکول گوجرہ کی مسیحی بستی ہو یا لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہ وہ ہر جگہ اپنی آب و تاب کے ساتھ ہمیں ملتا ہے، وہ ہمیں ہمارے نصابوں میں، ہمارے اکابرین کی تقاریر اوراپنے آپ کو اہل دانش کہلانے والوں کی تحریروں میں ملتا ہے۔
وہ ہمیں ہر اس جملے میں ملتا ہے جو عقیدے سے نفرت کے اظہار کیلئے ادا ہوتا ہے۔ وہ ہمیں اس کھوکھے اور ہر چائے کے چھوٹے بڑے ہوٹل پر ملتا ہے جس کی دیواروں پر ’’ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے‘‘ لکھا ہوتا ہے۔۔ اس نے سیاست کو گالی بنانے کی کوشش کی ، اس نے اسلام کے نام پر اسلام کو تاراج کردیا۔۔ آج یہ ملک جو کچھ بھی بھگت رہا ہے وہ اسی آمر کا دیا ہوا ہے جسے لوگ ضیاالحق کے نام سے جانتے ہیں۔ نئی نسل کانے دجال کے فکر سے سرشار ضرور لیکن اس کو اس نام سے نہیں جانتی!!،
پھر ایک سال پہلے اگست کے مہینے میں ان پاکستانیوں کیلئے تیسرا اضافہ ہوا، جو قائد اعظم کی گیارہ اگست والی تقریر کی تقلید کا جام بھرتے ہیں۔۔ ایک سال بعد وہ اب فکر حمید گل کی صورت میں نمودار ہوئے ہیں۔۔ ان کی برسی پندرہ اگست کو منائی گئی۔۔ یہ برسی نظریہ پاکستان کونسل کے نام سے ایک آرگنائیزیشن نے منائی، جن کے قبضے والے دفتر کو خالی کرانے کیلئے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے زمین آسمان ایک کردیئے تھے لیکن ان کا حکم جوتی کی نوک پر تھا۔
جو حمید گل اور اس کے فکر کے وارث ہوں ان کیلئے ایک ایف ٹین کا پلاٹ کیا چیز ہے پورا ملک ہی ان کا ہے۔۔
اس بار جب حمید گل کی پہلی برسی ہوئی تو کافی اہل سیاست و دانش بھی وہاں موجود تھے۔۔ کالعدم تنظیموں کے رہنما اپنے مرشد کو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے ۔۔ یہ وہی حمید گل ہیں طالبان جن کے بچے تھے، وہ مُلا عمر ، بیت اللہ محسود ، حکیم اللہ محسود اور اکوڑہ خٹک والوں کے روحانی والد تھے۔۔ جنہیں دلی کے لال قلعے پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا اتنا شوق تھا کہ وہ میرے ہی وطن کو جہنم بنا بیٹھے۔۔
ان کے نظریات نے ضیاالحق کی جلائی گئی آگ پر تیل ڈالا اور میرا وطن ہے جل رہا ہے۔۔ لیکن فکر حمید گل اس ملک میں نافذ کرنے کیلئے لوگ سر دھڑ کی بازی لگانے کے وعدے کرتے ہیں۔۔ اس تقریب میں بھارتی پرچم بچھایا گیا، جس پر تمام مہمانان گرامی چل کر اپنی نشستوں پر پہنچے اور پھر خطابات کا ایک سلسلہ تھا، لوگ بے نقاب ہورہے تھے، اس ملک میں ٹی وی چینل پر بیٹھ کر گذشتہ کئی سالوں سے جمہوریت اور اس کے حکمرانوں کی ہفتے میں پانچ بار ماں بہن ایک کرنے والا ڈاکٹرقیامت( شاہد مسعود) کہہ رہا تھا کہ وہ زندگی میں دو بار ہی رویا، ایک اپنے والد کی وفات پر اور دوسری بار حمید گل کے پیالا پینے پر( سندھ میں لوگ یہ جملہ اپنے مرشد کیلئے کہتے ہیں)۔
’’ مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ جاؤ حمید گل کو یہ پیغام دو کہ میں آپ کے فکر کی فالور ہوں‘‘، ’’میں نے حمید گل کو یہ پیغام دیا تھا‘‘ ڈاکٹر شاہد مسعود اپنی تقریر میں دعویٰ کرتے رہے، دونوں ہی نہیں رہے تصدیق کون کرے؟ وہ جو سراپا تکبر جرنیل تھا وہ اس ملک میں ایک فکر بن گیا ہے، جس نے اس ملک کی بنیادوں میں کوئلے جلائے۔ جس کی حدت میں ایک ایک پاکستان جلتا ہے، لیکن وہ ہے کہ فکر کی صورت اختیار کرتا ہے۔
مجھے بتائیں کہ جس ملک میں ضیاالحق اور حمید گل کے فکر کو ہمارےریاستی اداروں کی خاموش حمایت حاصل ہو جس کے حکمران ضیاالحق کی روحانی اولاد ہوں اس ملک میں محمد علی جناح کا کیا کام جس کو ہم قائد اعظم کہتے ہیں۔
♠
5 Comments