گیارہ ستمبر 2001 کے دن ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پینٹاگون پر ہائی جیک شدہ مسافر بردار جہازوں کے حملے ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان حملوں کےمنفی اثرات آج بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔
سیاسی مفکر فرانسس فوکویاما نے سرد جنگ کے خاتمے کو اختتامِ تاریخ سے تعبیر کیا تھا اور اُس کے بعد امریکا واحد سپر پاور کے طور پر عالمی سطح پر اجاگر ہوا تھا۔ سرد جنگ کے اختتام کے بعد ایسا محسوس کیا گیا کہ امریکا کی ساکھ اور حیثیت سن 1990 کی دہائی میں بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔
سنہ 1993 میں بل کلنٹن امریکی صدر بنے اور اُن کے دور میں واحد سپر پاور کا لیڈر کوئی نیا گلوبل سکیورٹی ڈھانچہ متعارف کرانے سے قاصر رہا۔ اُن کے دور میں غربت کے خلاف جدوجہد اور ماحولیاتی تحفظ پر ترجیحی بنیاد پر توجہ تو دی گئی مگر فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ بھی طے نہ پاسکا۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے ایام میں پرل ہاربر کے بعد پہلی مرتبہ امریکی سرزمین پر براہ راست حملے ستمبر گیارہ 2001 کے روز ہوئے اور امریکی سکیورٹی کے کرتا دھرتا اِن حملوں کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے۔
ان حملوں نے عالمی سطح پر انتشار پیدا کر دیا اور آج بھی لاکھوں افراد اُسی انتشار کا شکار ہیں۔ اسی تناظر میں امریکی خفیہ ادارے کے سابق ڈائریکٹر اور فوج کے اعلیٰ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ اگلی نسلوں تک منتقل ہو سکتی ہے۔
ان حملوں کے بعد سب سے بڑا اثر عالمی معیشت میں کساد بازاری کی صورت میں ظاہر ہوا۔ گلوبل معیشت کے اندر پکتی ہوئی کسادبازاری کا لاوا 2008 میں پھٹا۔ بعض یورپی ممالک اور جاپان ابھی بھی معاشی مشکل دور کے اثرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کے سب سے بڑے کردار اسامہ بن لادن کی دہشت گردانہ کوششوں نے مختلف ملکوں میں سکیورٹی اخراجات کو بڑھانے پر مجبور کر دیا۔ انجام کار مختلف ملکوں کی شدید مالی مشکلات کو کم کرنے کے لیے بڑے مالیاتی اداروں نے اپنے بند خزانوں کے منہ کھول دیے۔
عراق اور افغانستان کی جنگوں میں امریکی اور اُس کے اتحادیوں کی شمولیت نے اُن کے خزانوں پر غیرضروری بوجھ ڈال دیا۔ 2009 میں منصبِ صدارت سنبھالنے والے باراک اوباما نے عراق سے امریکی فوج کا مکمل انخلا اور افغانستان میں فوج کی بڑی تعداد میں کمی کی۔ ان ملکوں میں عسکری مہم جوئی کے نتیجے میں امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے ٹیکس ادا کرنے والوں کے اربوں ڈالر بے فائدہ جنگ کی بھٹی میں جھونک دیے۔ اِن فوجی آپریشنوں میں شمولیت سے امریکی خزانے پر اگلے کئی برسوں تک مالی بوجھ رہے گا۔
یہ بات طے ہے کہ نائن الیون کے دہشت گردانہ واقعات نے امریکی سماج، معیشت اور سیاست پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ عالمی سلامتی کی صورت کا حجم بڑھ گیا ہے اور نجی زندگی کا دائرہ سمٹ کر رہ گیا ہے۔ انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزیاں محسوس کی جا رہی ہیں۔
نائن الیون ایک واقعہ ضرور ہے لیکن اس نے طے کر دیا کہ نئی صدی ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ سے عبارت رہے گی۔
DW
♦