حالیہ ٹریفک تنازعہ:ملٹری اور سویلین تعلقات 

aimal-250x300

ایمل خٹک 

نوشہرہ میں دس ستمبر کے موٹروے پولیس اور فوجی کمانڈو کے تنازعہ سے اگر ایک طرف مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میں زبردست ہل چل پیدا ہوئی تو دوسری طرف دلچسپ بحث و مباحثے کو بھی جنم دیا ہے۔ اور بعض صورتوں میں اس بحث نے عام شہریوں اور فوجی افسران کے درمیان ایک دلچسپ مکالمے کی شکل اختیار کی ہے۔ اس واقعے کو ایک ہفتے سے زیادہ گزر گیا مگر ابھی تک سوشل میڈیا میں لے دے ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا سے شہریوں اور فوجیوں کے کچھ اقتباسات بکس میں دئیے جا رہے ہیں۔ 

فوجی افسران کی رائے اور خیالات  فوج سے برائے راست یا بالواسطہ تعلق رکھنے والے یا حمایتی سوشل میڈیا صفحات ، ویب گروپس اور حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسران کے ذاتی اکاؤنٹس میں ہو رہا ہے ۔ فوجی موقف جاننے کیلئے پاکستان ڈیفنس نامی ویب پیج بڑا اہم ہے۔ جبکہ عوامی خیالات مختلف شہریوں کے ذاتی اکاؤنٹس، ویب گروپس اور صفحات پر سامنے آرہے ہیں ۔

بیشک عوام کی اکثریت موٹروے پولیس کی موقف کی حمایتی نظر آتی ہے۔ جبکہ افسران کی غالب اکثریت فوجیوں کی موقف کی اور کچھ عوامی حلقے بھی ان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں ۔ جارحانہ رویوں کا اظہار دونوں طرف سے ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے عام شہریوں کو بھی اہم قومی معاملات پر رائے زنی کا موقع فراہم کیا ہے۔  اور وہ دھڑلے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ 

بحث کو دیکھتے ہوئے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ فوجی افسران اور عام لوگوں کی سوچ اور انداز فکر میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ فوج اپنی خدمات اور قربانیوں کے صلے میں اپنے آپ کو قانون اور ضابطے سے مبرا اور ایک قسم کا فری ہینڈ کا دفاع کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اور یہ سوچ موجود ہے کہ وہ کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتے۔ کسی خامی اور غلطی کی نشاندہی ملک دشمنی اور دشمن کے ہاتھوں کھیلنے کے مترادف ہے۔ فوجیوں پر تنقید دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل ہے۔

بحث سے سولملٹری تعلقات میں گہری بد اعتمادی کی موجودگی کا اظہار ہوتا ہے۔   

فوجی افسران کے موقف کی تائید کرنے والے بغیر کسی لگی پٹی مسلم لیگ نون کی حکومت کو اس واقعے کو اچھالنے کا ذمہ دار سمجھتی ہے ۔ بلکہ بار بار مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم کو مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔  ان کے خیال میں یہ پانامہ لیکس سے توجہ ہٹانے کیلئے اچھالا گیاہے۔ اس طرح دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ یہ سارا ڈرا مہ رمضان شوگر ملز اور نندی پور پاور پلانٹ کی دستاویزات سے توجہ ہٹانے کیلئے رچایا گیا ہے۔

 ایک مخصوص میڈیا گروپ اور اس سے منسلکہ ٹی وی چینل کے بارے میں ابھی تک فوجی حلقوں میں تحفظات اور شکوک وشبہات موجود ہیں اور اس کی حب الوطنی پر شک کیا جا رہا ہے۔ فوجی حلقوں کو گلہ ہے کہ ان کی ملک کیلئے بیش بہا قربانیوں اور خدمات کے پیش نظر ایسے معمولی واقعات سے درگزر کرنا چائیے تھا۔

اس تمام قضیہ میں افسران کا کوئی رول نہیں شاید تھوڑی سی تیز رفتاری ہوئی ہوگی مگر موٹروے پولیس نے غلط رویہ رکھا۔  موٹروے پولیس کی بدتمیزی اور فوج اور فوجیوں کے بارے میں ان کے کچھ نازیبا ریمارکس نے فوجی افسران کو طیش دلایا  اور یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا۔ 

دوسری طرف عام شہری فوجی افسران کے ناروا رویے خاص کر موٹروے پولیس کے افسران کو  گھسیٹتے اور مارتے ہوئے زبردستی اٹک قلعہ لیجانے والی کاروائی کو سخت نشانہ تنقید بناتے ہیں۔  مجموعی طور پر فوج کی حمایت کرتے ہوئے وہ اس مسئلے پر اس سے شاکی نظر آتے ہیں۔ اور قانون کی نظر میں سب شہریوں کی برابری اور قانون کی بالا دستی کی بات کرتے ہیں۔

ان کی رائے میں قانون سے مبرا کوئی نہیں چاہے وہ سول افسر ہو یا فوجی۔ بہت سے شہری اس رائے کہ فوجیوں پر تنقید یا ان کے عوامی طرز عمل کو زیر بحث نہیں لایا جاسکتا یا ایسا کرنا ملک دشمنی کے مترادف ہے کو رد کرتے ہیں ۔ ذمہ دار شہریوں کے مطابق کوئی مقدس گائے نہیں اور جو غلط کام کرتا ہے اس پر تنقید ہونی چاہئے اور قانونی کاروائی بھی۔

 تمام ریاستی ادارے اپنے اپنے انداز میں قومی خدمت کر رہے ہیں۔  ایک قومی ادارے کی دوسرے ادارے کا لحاظ اور احترام نہ کرنا اور ایک یونیفارم والے کی دوسرے یونیفارم والے کی سر عام توہین اور بے عزتی پر اکثر شہریوں نے غم وغصے کا اظہار کیا ہے۔ اور اسے ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ کسی لگی پٹی بغیر بہت سے شہریوں نے فوجیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان کے تربیتی نظام پر انگلی اٹھائی ہے۔

 شہریوں نے فوج میں رعب اور رینک کی نشے کی بات بھی کی ہے ۔ اور سویلین کو کسی خاطر میں نہ لانے اور ان کو حقارت سے دیکھنے کی بات بھی ہوئی ہے۔ شہریوں کی اکثریت اس واقعے کو غیر معمولی واقعہ سمجھتی ہے اور فوجی قیادت سے اس واقعے کا سخت نوٹس لینے اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔  

اس تنازعے نے کئی خامیوں اور مسائل کو اجاگر کیا۔ اصلاح احوال کیلئے درج ذیل مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں ۔

اس تنازعے کے پس منظر میں فورسز کے تربیتی نصاب کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ فوج اور خاص کر افسران میں قانون کے احترام اور بالادستی کا شعور مزید پختہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی اور سول معاملات میں تواتر سے مداخلت نے افسران میں اور کسی حد تک نچلی سطح پر بھی احساس برتری پیدا ہوئی ہے۔ اور اس احساس برتری نے ایک خطرناک قسم کی نفسیاتی کیفیت کو جنم دیا ہے۔

جو ادارے سے باہر ہر فرد اور ادارے کو کم تر اور حقیر سمجھتا ہے۔ اور قانون کو ہاتھ میں لینا یا دوسرے اداروں سے خصوصی سلوک یا پروٹوکول لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ فخر اور گھمنڈ اور احترام اور احساس برتری میں فرق واضح کرنے کی ضرورت ہے ۔  ملک میں آئین اور قانون نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور کسی بھی مہذب ریاست میں آئین اور قانون سے کوئی بھی سرکاری شخصیت اور ریاستی ادارے بالا نہیں ہوتے۔

وظائف اور کام کی نوعیت کے اعتبار سے شخصیات اور اداروں کی اہمیت اور احترام میں فرق ہو سکتا ہے مگر قانون سب کیلئے برابر۔ہاں جنگل کی اور بات ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلتا ہے۔

ڈسپلن کا مسئلہ بھی شدت سے سامنے آیا۔ مجھے پتہ نہیں کہ فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے علاوہ کوئی فوجی سیاسی اور اس قسم کے معاملات پر رائے زنی کر سکتے ہیں کہ نہیں ۔ بعض فوجی افسران کھلم کھلا حکومت کو رگڑا دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ تنازعہ کے ایک فریق کا موقف سوشل میڈیا پر آرہا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ موٹروے پولیس کے موقف کی کسی حد تک تائید ہوتی ہے بلکہ واقعے کے پرامن تصفیے کے سلسلے میں جاری سرکاری یا غیر سرکاری پریس ریلیز کی نفی بھی ہوتی ہے۔

 اس سے ایک اور افسوسناک بات کا پتہ بھی چلتا ہے کہ تنازعہ کے بڑھنے میں دو جرنیلوں کے رشتہ داروں کا رعب اور جھوٹی انا کا بھی عمل دخل ہے ۔ کیونکہ دونوں طرف جرنیلوں کے قریبی رشتہ دار آمنے سامنے تھے۔ جو ایک دوسرے کو اپنے رشتہ دار جرنیلوں کے رتبے اور اثرورسوخ سے ڈرا دھمکا رہے تھے۔

بدقسمتی سے سب سے با ڈسپلن کہلائے جانے والے ادارے کے دو جو نئیر اور ایک سینئر افسر کی ذاتی رو یوںمیں ڈسپلن نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔ چھوٹے بڑے کی تمیز اور اپنے یونیفارم  کے علاوہ دوسرے یونیفارم کی عزت اور احترام بھی ہم سب پر فرض ہے۔   

 تیسرا خطرناک رحجان ادارہ جاتی یکجہتی یا کامریڈ شپ ہے ۔ کامریڈ شپ کی کوئی حد بھی ہوتی یا نہیں ۔ اس کیس میں یہ کامریڈ شپ انتہائی خطرناک شکل میں سامنے آئی ہے۔ یہ کامریڈ شپ ادارے کی ساکھ اور وقار کی قیمت پر نہیں ہونی چائیے ۔ اگر جونئیر نے کسی بھی وجہ سے جارحانہ پن کا مظاہرہ کیا تو سنئیر کا کام معاملے کو رفع دفع کرنا چائیے تھا نہ کہ مزید پیچیدہ ۔

عام زندگی میں اس قسم کا جارحانہ پن ، جسمانی تشدد اور عدم برداشت کی کمی معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہے ۔ دلیل کے بجائے تشدد کا استعمال تربیت میں کمی یا نقص کی غمازی کرتی ہے۔ کئی سینیئر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس واقعے نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ان تمام کوششوں کو پانی میں بہا دیا ہے جو انہوں نے ادارے کی نیک نامی اور اس کو عوام میں مقبول بنانے کیلئے کی۔  

قومی سطح پر اس واقعے سے سبق حاصل کرنے اور اصلاح احوال کی ضرورت ہے ۔ اگر اس موقع اور فرصت سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا اور سخت اقدامات نہیں کیےگئے تو مستقبل میں اس سے بھی زیادہ سخت چیلنجزز درپیش ہوسکتی ہے۔ کیونکہ فوج اور سویلین بد اعتمادی گہری سطح پر موجود ہے۔

  مسلم لیگ سوشل میڈیا یا ملک دشمنوں پر الزام لگانے سے یہ بات کئی زیادہ پیچیدہ اور توجہ طلب ہے۔ الزامات لگانے سے ہم اپنی اندرونی خامیوں اور غلطیوں کی پردہ پوشی تو کر لیں گے اورہم اپنی غلط فہمیوں کا تو شکار ہوجائیں گے لیکن اصلاح  احوال نہیں ہو سکے گی۔ 

Comments are closed.