پرویز مجید۔سری نگر
پچھلے کچھ سالوں سے ارون دتی رائے مسئلہ کشمیر پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی ہیں۔ وہ بھارتی کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے بھارتی مظالم کے خلاف آواز اٹھاتی چلی آرہی ہیں۔
چونکہ ان کا نقطہ نظر پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کےحق میں جاتاہےجس کی وجہ سے پاکستانی میڈیا میں اس کوبھرپور کوریج دی جاتی ہے ۔کشمیر کی حالیہ صورت حال پر بھی ارون دتی رائے نے مودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کشمیر میں قتل و غارت اور خراب صورتحال کا ذمہ دار مودی حکومت کو ٹھہرایا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ بھی کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنارہی ہے ۔ لہذا تیل کی دھار دیکھتے ہوئے اور شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب کے رکن صوبائی اسمبلی نے ارون دتی رائے کو پاکستان مدعو کرنے کی تجویز دی ہے۔
پاکستان کے مقامی میڈیا کے مطابق رکن صوبائی اسمبلی شیخ علاؤالدین نے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران ارون دتی رائے کو پاکستان مدعو کرنے کی تجویز پیش کی ہے اور محنت اور وسائل کے صوبائی وزیر راجا اشفاق سرور نے اس تجویز کی حمایت کرتے ہوئے اس کے سفارتی پہلوؤں پر بھی بات کی۔
ارون دتی رائے نے2010 میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ کبھی نہیں رہا۔ ان کے اس بیان نے بھارت میں اختلافی بحث کو جنم دیا تھا۔ انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ بھارت برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے ہی ’نوآباد طاقت ‘ بن گیا ہے۔
رائے نے رواں برس کشمیر کے حوالے سے برطانوی اخبار ’ دی گارڈین‘ میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ،’’ اگر ہم واقعی اس بحران کو حل کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم واقعی خونریزی روکنا چاہتے ہیں، تو پہلا قدم یہ ہے کہ ایمانداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مکالمہ کریں۔ خیالات کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، مگر موضوع بحث آزادی ہونا چاہیے، کہ آخر کشمیریوں کے لیے آزادی کیا معنی رکھتی ہے؟‘‘۔
ارون دتی رائے کا المیہ یہ ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کی تصویر کا ایک رخ دیکھ رہی ہیں۔ کانگریس حکومت ہو یا بی جے پی کی حکومت ، نے پوری کوشش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل تلاش کیا جائے مگر پاکستان اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں ہےاور وہ مسلسل اپنی جہادی تنظیموں کے ذریعے کشمیر میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کی سویلین حکومتیں پوری کوشش کرتی ہیں کہ وہ ہندوستان سے دوستانہ اور تجارتی تعلقات قائم کریں اور وہ اقتدار میں آنے کے بعد ہندوستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہیں اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کرنی کی بات کرتی ہیں اور بھارتی حکومت اس کا مثبت جواب بھی دیتی ہے لیکن پاکستان کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ اس تمام عمل کو سبو تارژ کردیتی ہے۔
ارون دتی رائے کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اس مسئلے پر مکالمہ ہونا چاہیے اور اس پر بات ہونی چاہیے کہ کشمیریوں کے لیے آزادی کیا معنی رکھتی ہے؟ مگر رائے کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ کشمیر میں امن کو سبوتارژ کون کررہا ہے۔بھارتی سیکیورٹی فورسز یا سرحد پار سے آنے والے دہشت گرد۔
رائے کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کیا پاکستان کی فوجی ایسٹیلشمنٹ مسلسل جماعت الدعوۃ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کی مدد نہیں کر رہی ہے جو کشمیر میں دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں جس کا نشانہ معصوم شہری بن رہے ہیں۔
نیٹ نیوز
♦
One Comment