ظفر آغا
غضب ہے خدا کا، ہر معاملہ میں ہندوستانی مسلمان پسماندگی کی سیڑھی پر سب سے بلندی پر ہیں۔
ابھی پچھلے ہفتہ 2011 کے تعلیمی اعتبار سے مختلف ہندوستانی مذہبی گروہوں کے جو اعداد و شمار آئے ہیں ان کے اعتبار سے مسلمان خواندگی کی بنیاد پر تمام قوموں کے مقابلہ سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ مسلمانوں میں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے، اس قوم میں ناخواندگی کی شرح 42.7 فیصد ہے یعنی 100مسلمانوں میں سے تقریباً 50 مسلم افراد بالکل جاہل ہیں اور ایک لفظ بھی لکھ یا پڑھ نہیں سکتے۔
یہی حال مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کا ہے، ان اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں میں گریجویٹ کی شرح محض 2.75 فیصد ہے۔ یعنی 100 مسلمانوں میں 3 سے بھی کم افراد گریجویٹ ڈگری رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میں ہندوؤں میں ناخواندگی کی شرح 36.4 فیصد ہے، سکھوں میں 32.8 فیصد، بدھوں میں 28.2 اور عیسائیوں میں25.6 فیصد ہے جبکہ پورے ملک میں یہ شرح 36.9 فیصد ہے۔ مگر مسلمان جہالت کی سیڑھی پر سب سے بلندی پر ہیں۔
اب ذرا یہ بتایئے کہ یہ رونا کیوں ہے کہ ہمیں نوکری نہیں ملتی، اس بات کا گلہ شکوہ کیوں کہ مسلمان معاشی اعتبار سے سب سے پچھڑے ہوئے ہیں، ارے بھائی سیدھی سی بات ہے کہ جو قوم سب سے جاہل ہوگی اس قوم کے افراد سب سے زیادہ بیروزگار ہوں گے اور جس قوم میں سب سے زیادہ ناخواندہ ہوں گے وہی قوم سب سے زیادہ پسماندہ بھی ہوگی۔
بی جے پی یا آر ایس ایس آپ کے بچوں کو اسکول جانے سے روکتے تو نہیں ہیں۔ کسی بھی حکومت نے کبھی مسلمانوں کو اسکول جانے پر پابندی تو نہیں لگائی ہے۔ مسلمانوں کی ناخواندگی کی ذمہ داری کسی دوسرے کے سر تو ڈالی نہیں جاسکتی یہ تو بطور قوم مسلمانوں کا اپنا فریضہ تھا کہ آپ تعلیم حاصل کرتے، لیکن مسلمانوںکی غفلت کا یہ حال ہے کہ اس وقت مسلمان ہندوستان کی سب سے زیادہ جاہل قوم ہے۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ حالت اس قوم کی ہے جسے پروردگار نے سب سے پہلے جو پیغام بھیجا وہ اقراء تھا۔ یعنی مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم صادر ہوا کہ علم حاصل کرو۔ حد یہ ہے کہ نماز اور روزہ جیسے فرائض کا حکم اقراء کے حکم کے بعد آیا۔ ایسی قوم کا یہ حال ہے کہ وہ سب سے زیادہ ناخواندگی کا شکار ہے۔ یہ کیا ہوگیا ہے مسلمانوں کو! آخر اس بے حسی کا کوئی نہ کوئی تو ذمہ دار ہوگا؟
ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں اس ناخواندگی کا پایا جانا ایک سماجی لعنت ہے اور سماج میں جو اچھائی یا برائی ہوتی ہے اس کے ذمہ دار سماجی قائد ہوتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے قائد کون ہیں۔؟ ہم دنیا بھر کے مسلمانوں کے بارے میں تو جانتے نہیں ہیں کہ ان کا قائد کون ہے، لیکن 1857 کے بعد سے اب تک ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت علمائے دین کے پاس رہی ہے۔
اس دوران دو تین دہائیوں کے لئے غیر منقسم ہندوستان میں مسلمانوں کی قیادت مسلم لیگ کے ہاتھوں میں چلی گئی تھی لیکن 1949 میں بٹوارے اور آزادی کے بعد سے کم و بیش ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت علمائے کرام کے ہاتھوں میں ہی رہی ہے۔ وہ خواہ سیاسی مسائل ہوں یا سماجی و دینی مسائل، ہندوستانی مسلمانوں کے ہر اہم معاملہ میں ہمیشہ مسلمانوں نے علماء پر ہی بھروسہ کیا۔
مثلاً 1977ء میں ایمرجنسی اُٹھنے کے بعد جب کانگریس پارٹی پر سے مسلمانوں کا بھروسہ اُٹھ گیا اور یہ سوال پیدا ہوا کہ 1977 کے پارلیمانی چناؤ میں مسلمان کیا کریں تو مسلمانوں کو اس سیاسی دوراہے پر راستہ دکھانے کے لئے دہلی کی جامع مسجد کے امام مرحوم عبداللہ بخاری کھڑے ہوئے اور ان کی آواز پر مسلمانوں نے لبیک کہہ کر اندرا گاندھی کے خلاف ووٹ دیا۔
پھر اس کے بعد کئی انتخابات میں مسلمان جامع مسجد دہلی کے امام کی مرضی پر سیاسی فیصلے کرتے رہے اور آج بھی سیاسی معاملات میں مسلمانوں کا کوئی جدید سیاسی پلیٹ فارم نہیں ہے، ہاں کچھ جذباتی پلیٹ فارم ضرور ہیں۔ الغرض، آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی قیادت عموماً علمائے دین کے ہاتھوں میں رہی ہے۔
سنہ1980 کی دہائی میں شاہ بانو کیس کے معاملہ میں تین طلاق کا معاملہ کھڑا ہوا تو اس کی قیادت مسلم پرسنل لا بورڈ نے سنبھالی جس پر علماء کرام کا گہرا اثر ہی نہیں بلکہ ان کی ایماء پر ہی یہاں تمام معاملات طئے ہوتے ہیں۔ تین طلاق کا معاملہ آج بھی سپریم کورٹ میں زیر دوراں ہے اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی جانب سے جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس پر سارے ہندوستان میں مسلمانوں کی ہنسی اڑائی جارہی اور یہ کہا جارہا ہے کہ آج بھی مسلمان قرون وسطیٰ کے دور میں جی رہا ہے اور اپنی خواتین کو وہ حقوق بھی دینے کو تیار نہیں ہے جو قرآن نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں عطاء فرمائے تھے۔
ظاہر ہے کہ دینی معاملات میں مسلمانوں کی قیادت علماء کرام ہی کریں گے لیکن ان معاملات میں بھی یہ قیادت قرون وسطیٰ کی قدروں کا زیادہ لحاظ رکھتی ہے نتیجتاً مسلمانوں پر سارے ہندوستان کے مسلمانوں کی یہ حالت ہے۔
آزاد ہندوستان کے مسلمانوں کا تیسرا اہم مسئلہ1980 کی دہائی میں بابری مسجد اور رام مندر معاملہ پر کھڑا ہوا تھا۔ اس معاملہ میں امام بخاری صاحب کی زیر نگرانی پہلے بابری مسجد ایکشن کمیٹی بنی تھی جس میں غیر عالم افراد بھی شامل تھے پھر جناب شہاب الدین نے اپنی ایک کمیٹی اور بنائی تھی۔ مگر اس معاملے میں بھی علماء کرام سے مشورہ کیا گیا جنہوں نے یہ رائے دی کہ شرعی اعتبار سے ایک مسجد ہمیشہ مسجد ہی رہے گی اس لئے اس معاملہ میں کسی بحث کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
چنانچہ بابری مسجد بچانے کے لئے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی جانب سے سارے ہندوستان میں بڑی بڑی ریالیاں منعقد کی گئیں جن میں نعرہ تکبیر کی صداؤں کے درمیان مسلمانوں نے بابری مسجد کے تحفظ کی قسمیں کھائیں۔ آخر کار 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کردی گئی تو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کسی بھی رکن کا بال بھی بیکا نہیں ہوا لیکن ہزاروں بے گناہ مسلمان فسادات کی نذر ہوگئے۔
یعنی 1947 سے اب تک وہ سیاسی معاملات ہوں یا سماجی معاملات، ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت بنیادی طور پر علماء کے ہاتھوں میں ہی رہی ہے اور بیچ بیچ میں کچھ سیاسی و سماجی جذباتی پلیٹ فارم بھی اُبھرے لیکن ان کا لب و لہجہ بھی علماء کے خیالات کی ہی عکاسی کرتا رہا۔ یعنی مسلمان اس ملک میں علماء کے رحم و کرم پر جی رہے ہیں اور ان اب ان کا یہ حال ہے کہ وہ تازہ ترین مردم شماری کے اعداد و شمار کے اعتبار سے ہندوستان کی سب سے ناخواندہ قوم ہیں۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا