ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ
بلوچ آزادی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے ای میل کے ذریعے نامعلوم مقام سے ٹائمز آف انڈیا کے آرتی ٹیکو سنگھ کواپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ’پاکستان مذہبی انتہاپسندی کا مسکن ہے، جب تک یہ قائم رہے گا امن قائم نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بلوچ کو بھارت اور دیگر آزادی پسند ممالک سے ہر قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔ براہمدغ کو سیاسی پناہ دینے سے بھارت خطے میں ایک مثال قائم کرے گا کہ کسی بھی شخص کو محض اپنے لوگوں کیلئے آواز اٹھانے پر قتل اور اغواء کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کشمیر کی جنگ میں جب بھارتی فوج نے پاکستان کو شکست دی تو محمد علی جناح نے اپنی فوج کو بلوچستان کی طرف بھیج دیا اور اسی ریاست پر حملہ کر دیا جس کی آزادی کیلئے انہوں نے ایک وکیل کے طور پر وکالت کی تھی۔ اس کے بعد سے ہمارے والدین اور انکے اجداد اور آج ہم اس غیر قانونی قبضے کو ختم کرنے کیلئے لڑ رہے ہیں۔
چین کو پاکستان یا پاکستانی پنجابیوں سے کوئی محبت نہیں ہے۔ انہیں صرف اس چیز سے غرض ہے کہ وہ سی پیک کی سڑک کو سٹرٹیجک اہمیت کی حامل آبنائے ہرمز کے دہن پر واقع بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے چین کے اندرونی علاقوں تک لے جائے، بلوچ آبادی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جسے بیجنگ جڑ سے اکھاڑدے گا اور اپنے ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ظاہری لبادے کی آڑ میں وہ مزید کھربوں ڈالر کمائے گا۔ ماؤ اور مارکس اپنی قبروں میں کراہ رہے ہونگے۔
چین کیلئے ہمارا ایک انتباہ ہے۔ آپ بلوچ سرزمین پر اسی طرح سے حملہ کر رہے ہیں جس طرح جاپانیوں نے چین پر حملہ کیا تھا اور نانکنگ کو تباہ کیا تھا۔ چین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بلوچ چینی سامراج کے آگے دستبردار نہیں ہوں گے خواہ یہ اقتصادی ترقی کے برقعے میں کیوں نہ ہو۔ ایک سوال کے جواب میں بلوچ رہنما نے کہا کہ بلوچستان کے عام لوگوں میں ہمیں مقبول حمایت حاصل ہے اور ہمیں قائم و دائم رہنے کیلئے صرف یہی حمایت حاصل ہے۔
بلوچ قوم اور عوام مالی اور اخلاقی طور پر ہماری حمایت کر رہے ہیں کیونکہ ہماری تحریک خالصتاً دیسی اور مقامی ہے۔ ہمیں اپنی طاقت محض بندوق کی نلی سے نہیں بلکہ اس سرزمین کی پوری بلوچ آبادی کی طرف سے ہم پر اعتماد کرنے سے ملی ہے۔ بلوچ آبادی کی ایک نمایاں اکثریت ہماری حمایت کررہی ہے اس ظلم و جبر کے باوجود جو ہر اس بلوچ مرد یا عورت پر ڈھایا جارہا ہے جو ’سرمچاروں‘ (آزادی کے سپاہیوں) کیلئے ہمدردی کا اظہار کرے۔
اس سوال کے جواب میں کہ آپ بلوچستان میں ایک آرام دہ زندگی گزار سکتے تھے تو آپ نے پاکستان کیخلاف مسلح جنگ کیوں شروع کردی تو ان کا کہنا تھا کہ شاید میں آرام دہ زندگی گزار کر سکتا ہوں، لیکن یہ ہماری مظلوم بلوچ عوام کی حالت تھی جس نے مجھے ادویات کی پریکٹس کو ترک کرنے اور ایک خود مختار بلوچ ریاست کی خاطر لڑنے کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے پر مجبور کیا۔ ہم بلوچوں کی اپنی ثقافت، زبان، خطہ اور عمومی نفسیات ہے اور ہماری تاریخ کئی ہزار سالوں پر محیط ہے۔
برطانیہ میں ’پاکستان‘ کا لفظ گھڑے جانے سے قبل ہم طویل عرصے سے یہیں موجود تھے اور اس کے کئی عرصے بعد بھی یہیں رہیں گے جب یہ برا خواب پاکستان اپنے واٹرلو سے جا ملے گا۔دسیوں ہزار بلوچوں نے اس سرزمین کیلئے اپنی زندگیوں کا نذرانہ پیش کیا ہے؛ میں تو محض بطور ایک ڈاکٹر کے اپنا سکون اور پریکٹس چھوڑ رہا ہوں۔ اسکا ان سے کوئی موازنہ نہیں ہے۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایک سفارتی محاذ کاکھولنے پر بلوچ رہنما کا کہنا تھا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی حکومت پاکستان کی بدمعاش ریاست کیخلاف جوابی کارروائی کرے گی جو کسی بھی طرح کی سفارتی زبان نہیں سمجھتا۔ ہم بلوچوں کو اُڑی واقعے پر تشویش ہے کہ اگر اسکا جواب اسی انداز میں نہیں دیا گیا تو یہ کشمیر میں خونریزی کو اشتعال دینے کیلئے پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کرے گا اور بیک وقت وہ بلوچستان میں اپنی نسل کشی کی پالیسی بھی جاری رکھے گا۔
ہم بلوچ اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ پہلے اقدام کے طور بھارت کو پاکستان پر اپنے تئیں پابندیاں عائد کرنی چاہئیں۔ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا چاہئے اور پھر چین کو یہ بتائیں کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان خود مختار علاقے ہیں اور یہ کہ بیجنگ کو یہاں پر کسی بھی طرح کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو بند کرنا اور باز رہنا چاہئے۔
نئی دہلی کا اس بات کو تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جب تک یہاں پاکستان قائم رہے گا بھارت میں امن قائم نہیں ہوگا۔بھارت کی طر ف سے بلوچ عسکریت پسند گروہوں کو فنڈز، اسلحہ اور تربیت فراہم کرنے کے سوال پر ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ بات قطعاً سچ نہیں ہے۔ میری خواہش ہے کہ بھارت ہماری مدد کرتا، لیکن اس نے کبھی نہیں کی۔ نئی دہلی نے تو ابھی حال ہی میں ہماری میتوں اور تشدد کا نشانہ بنے لوگوں کی چیخیں سنی ہے۔اور یہ کہ نہ صرف بھارت بلکہ ہمیں امید ہے کہ پوری دنیا ہماری مدد کو آئے گی۔
چونکہ بلوچ جیسے مظلوم اقوام کی حمایت کرنا ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہم کسی بھی ذریعہ سے ملنے والی کسی بھی مدد کا خیر مقدم کریں گے۔ بلوچ عسکریت پسند گروہوں کو عام بلوچوں میں حاصل حمایت کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پنجابی فوجی اسٹیبلشمنٹ اور وہ جو ترقی کے نام پر ہماری ناک تلے ہمارے وسائل لوٹنے کے خواہاں ہیں ہم سب کو اپنے اس مقصد کیلئے متحد کرتا ہے جس میں ہم قبضے سے آزاد ایک ملک کے طور پر بلوچستان کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
چین کہ جس نے خود اپنی آزادی کی جدوجہد دیکھی ہے صرف بلوچستان کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کی خاطر آج ایک ملک پاکستان کی امداد کررہا ہے حتیٰ کہ وہ بلوچ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ ان سے گفتگو کی جائے۔چین کو پاکستان یا پاکستانی پنجابیوں سے کوئی محبت نہیں ہے۔ انہیں صرف اس چیز سے غرض ہے کہ وہ سی پیک کی سڑک کو اسٹرٹیجک اہمیت کی حامل آبنائے ہرمز کے دہن پر واقع بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے چین کے اندرونی علاقوں تک لے جائے۔
بلوچ آبادی کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جسے بیجنگ جڑ سے اکھاڑدے گا اور اپنے ’کمیونسٹ پارٹی‘ کے ظاہری لبادے کی آڑ میں وہ مزید کھربوں ڈالر کمائے گا۔ ماؤ اور مارکس اپنی قبروں میں کراہ رہے ہونگے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام سے قبل بلوچستان ایک آزاد ریاست تھی اور پاکستان نے اپنے قیام کے تقریباً ایک سال بعد بلوچ سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ جس بلوچستان کے بارے میں ہم آج بات کررہے ہیں وہ ریاست کلات اور مری اور بگٹی علاقے جنہیں ’برٹش/ برطانوی بلوچستان کہا جاتا تھا، برطانیہ کی طرف سے بھارت کے اعضاء کاٹ کر مصنوعی طور پر تراشے گئے ملک پاکستان کے بجائے ریاست قلات میں شامل ہونا چاہتی تھیں۔
جس بات کا بیشتر پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کو بھی ادراک نہیں وہ یہ ہے کہ جس شخص کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ برطانیہ سے اُن کی آزادی کے حصول میں ریاست قلات کی نمائندگی کرے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خود ایم اے جناح تھے جو کہ وکیل تھے جنہیں خان قلات کی طرف سے بھاڑے پر لیا گیا تھا۔ اپنی خدمات کے عوض مسٹر جناح نے ریاست قلات کے خزانے سے اپنے وزن کے برابر سونا لیا تھا۔
لہٰذا 4 اگست 1947ء کو بلوچستان ایک آزاد ملک بن گیا اور اس کا اعلان 11 اگست 1947 کو پاکستان کے قیام سے چند روز قبل کیا گیا تھا۔جہاں تک پاکستان میں جمہوری عمل کا تعلق ہے تو اس کا کوئی وجود نہیں ہے، کم از کم بلوچستان میں۔ بلوچستان کے عوام نے زیادہ سے زیادہ 3 فیصد کے ٹرن آؤٹ کیساتھ 2013ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ آج ان کے چند حلیف جو بلوچستان کی حکومت میں ’منتخب‘ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، 1,000 سے بھی کم ووٹ انکے حق میں کاسٹ ہونے کے ساتھ منتخب ہوئے تھے۔ کس منطق کی بنیاد پر کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حکومت بلوچ عوام کی نمائندگی کرتی ہے؟
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ الیکشن پاکستان کیخلاف ایک ریفرنڈم تھا۔مزید برآں، جب کبھی بھی بلوچستان کے عوام نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے تو انہوں نے بلوچ قوم پرست حکومتیں منتخب کیں جنہیں بعد میں پاکستان آرمی اور ان کے سویلین خادمین کی طرف سے برخاست کیا گیا۔
سن 1970ء کے انتخابات میں بلوچوں نے مرحوم خیر بخش مری، سردار عطاء اللہ مینگل اور میر غوث بخش بزنجو جیسے بلوچ رہنماؤں کو ووٹ دیکر اقتدار میں لائے۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں پاکستان فوج کی طرف سے کی گئی نسل کشی، جس میں ایک ملین بنگلہ دیشیوں کی ہلاکت ہوئی، کے بعد ہمارے بزرگوں نے سوچا کہ شاید پاکستان آرمی نے سبق سیکھا ہوگا اور وہ جمہوریت کا احترام کرے گی۔تاہم، جب بلوچ قوم پرست حکومت نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کی شکست کے بعد اپنے عہدے کا حلف لیا تو واپس لوٹے جنگی قیدیوں نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر بلوچستان میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ہم آخری آدمی تک لڑیں گے۔
بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نذر ن کا کہنا تھا کہ سرد جنگ کے دوران بین الاقوامی طاقتوں کے اپنے مفادات تھے؛ مغرب اور امریکہ نے اسلام پسندوں اور جہادیوں کی پرورش کی اور پبلک پالیسی کے طور پر جہاد کی ستائش کی تاکہ وہ مسلم رنگروٹوں کو استعمال کریں اور ان کی ایماء پر افغانستان میں سرخ فوج سے لڑیں۔
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکیوں نے جہادیوں کو ان کے اپنے حال پر اور پاکستان آرمی اور فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا جنہوں نے طالبان کی تخلیق کی، اور پھر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری سمیت دسیوں ہزار عرب جہادی جنگجوؤں کی پرورش کی۔اس وقت مذہبی انتہاپسندوں کا گھونسلا مستقل طور پر پاکستان میں ہے، جہاں اسلام آباد مذہبی جنونیوں کو بھارت کیخلاف اپنے اثاثوں کے طور پر استعمال کرتا ہے، اور امریکہ اور مغرب سے بلیک میلنگ کے ذریعے مادی اور مالی مدد حاصل کرتا ہے۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا سپورٹر ہے۔ہماری تحریک ایک آزاد بلوچستان کے لئے ہے جہاں ہمارے پاس ایک جمہوری ملک ہوگا، ایک سیکولر معاشرہ جہاں تمام مذاہب کے لوگ ایک ہی ملک کے شہریوں کے طور پر رہیں گے، یہ پاکستان جیسا ملک نہیں ہوگا جہاں اس کے قائد کی نفرت پر مبنی، نسل پرست ہندو مخالف دو قومی نظریے کو داعش جیسے بدنفس فاشسٹ جہادی ثقافت کے ساتھ ملا دیا گیا ہو۔
جلد ہی دنیا پر یہ واضح ہوجائے گا کہ ایک آزاد اور خود مختار بلوچستان اسلامی انتہاپسندی کی کسی بھی جھلک سے آزاد، درحقیقت القاعدہ، داعش اور طالبان کی مخالف جو اسلام آباد اور اسکے عالمگیر جہادی انٹرپرائز کی طرف سے دنیا بھر میں پھیلائے گئے اس پاگل پن کے خلاف ایک مانع قوت ثابت ہوگی جو جنوبی فلپائن سے لیکر شمالی امریکہ تک سرگرم ہے جیساکہ ہم نے گزشتہ ہفتے نیویارک میں دیکھا۔
♣
One Comment