حجاب مذہبی انتہا پسندی کی علامت ہے

SONY DSC

SONY DSC

نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کی جانب سے شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے جس کا ایک پہلو حجاب کا بڑھتا ہوا استعمال بھی ہے۔ دنیا بھر میں اسلامی شدت پسند تنظیموں کی جانب سے حجاب کو ایک مذہبی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

مسلمان تنظیمیں یورپین ممالک میں سیکولر ازم کی آڑ لیتے ہوئے مذہبی شدت پسندی میں اضافے کا موجب بن رہی ہیں۔اور انہی رویوں کی وجہ سے یورپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اور دائیں بازو کی شدت پسند تنظیمیں مقبول ہورہی ہیں۔

جرمنی میں اسلامی لباس کے نام سے کئی دوکانیں بن گئیں ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کا تعلق شدت پسندوں کے ساتھ ہے۔ کپڑے کے ایک ٹکڑے کے ذریعے حجاب کے نام پر ایک ایسی ثانوی ثقافت پیدا کی جا رہی ہے، جو مرد کی افضلیت اور شدت پسندی کے فروغ کا باعث ہے۔

فرینکفرٹ کے مرکز میں حجابی اسٹورز موجود ہیں، جہاں نقاب، برقعے اور مسلم خواتین کے لیے چہرہ ڈھانپنے سے متعلق دیگر اشیاء فروخت کی جاتی ہیں۔ اس دکان میں مسلم خواتین کو مختلف طرز کے ’اسلامی لباس‘ فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں اور یہ لباس اس کمپنی کی ویب سائٹ پر بھی ملتے ہیں۔

ان ملبوسات میں لمبے اور ڈھیلے ڈھالے کپڑے شامل ہیں، جن میں اوپر کو اٹھے ہوئے کالر ہیں، جب کہ یہ کتھئی، سبز اور دیگر رنگوں میں دستیاب ہیں۔ اس دکان میں برقعوں کے علاوہ چہرے کو چھپانے والے نقانوں میں اندر کی جانب موجود وہ پنز بھی ہیں، جو نقاب کو چہرے پر روکے رکھتی ہیں۔

ان دوکانوں کے مالکان سے ڈی ڈبلیو نے بات چیت کی کوشش کی، تاہم کسی بھی دکان کے مالک نے اس سلسلے میں انٹرویو کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

دنیا کو اس وقت سعودی عرب اور ایران کے انتہا پسند مذہبی رویوں کا سامنا ہے۔ دونوں ممالک دنیا بھر میں اپنی اپنی مذہبی تنظیموں کے ذریعے مذہبی شدت پسندی میں اضافے کا موجب بنے ہوئے ہیں۔

جرمنی میں بروکنگز انسٹیٹیوٹ کے مطابق، ’سلفیت‘ ( ا سلام کا شدت پسند مذہبی نظریہ جس کا پرچار سعودی عرب کرتا ہے) اس طرز کا خاکہ پیش کرتی ہے کہ جیسے وہی ایک درست اسلام ہو اور اس کے ذریعے جرمنی اور یورپ میں نئی مسلمان نسل کا ذہن پراگندہ کیا جا رہا ہے‘‘۔

جرمنی میں گزشتہ دس پندرہ برسوں میں اس طرز کی دکانوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ فرینکفرٹ یونیورسٹی کے اسلامی شدت پسندی سے متعلق شعبے سے وابستہ سوزانے شُرؤٹر کے مطابق، ’’ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اب اس طرز کے لباس پہننے والی خواتین کی تعداد میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ فرینکفرٹ میں یہ حجابی دکان ایک طرف تو سلفیوں کی ثقافت کی نمائندہ ہے جب کہ دوسری طرف یہ بتاتی ہے کہ سلفی ازم ایک سیاسی اور مذہبی تحریک نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی بھی ہے۔ ایسے افراد جو اس طرز کی اسلامی تشریحات پر عمل کرتے ہیں اپنی پوری زندگی انہیں تشریحات کے تحت گزارنے کی کوشش کرتے ہیں‘‘۔

یہ بات اہم ہے کہ جرمنی میں شدت پسندی کے لحاظ سے سلفی تحریک پیش پیش رہی ہے اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ مل کر لڑنے والے جرمن جنگجوؤں میں اسی تحریک سے وابستہ افراد زیادہ دیکھے گئے ہیں۔

DW/News Desk

3 Comments