اسلام مرزا
پاکستان میں پہلے عام انتخابات کا اعلان ہوچکا تھا۔ امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کے قریبی دوست اور یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خان ، شراب کے نشے میں دھت اپنے امیرالمومنین ( یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر میاں طفیل محمد نے کہا تھا کہ عالم اسلام کو حضر ت علی کے بعد یحییٰ خان کی صورت میں رہنما نصیب ہوا ہے) یحییٰ خان کو یقین دلارہے تھے کہ انتخابات میں مذہبی جماعتیں ہی حکومت بنائیں گی اور انہیں جنرل یحییٰ خان کے صدر رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
دوسری طرف اخبارات،جن میں خاص طور پر جنگ، پول در پول کے ذریعے پیش گوئی کررہے تھے کہ انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی تیسری اور چوتھی پوزیشن پر ہونگی۔
جب انتخابی جلسے شروع ہوئے تو ایک طرف تو چھ نکات اور روٹی، کپڑا اور مکان کے حق میں جلسوں کے لئے بڑے بڑے میدان بھی چھوٹے پڑنے لگے تو دوسری طرف مذہبی جماعتوں کے لئے پانچ ہزار کا مجمع لگانا بھی مشکل ثابت ہونے لگا۔ مذہبی جماعتوں کے لئے عوام کی توجہ کو روٹی سے ہٹا کر قرآن کی طرف مبذول کروانا ضروری ہوگیا۔
چنانچہ ایک “بہت بڑے جلسے” میں امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد(شاید) نے عوام کی اسلامی غیرت کو للکار دیا۔ دائیں ہاتھ میں قرآن ااور بائیں ہاتھ میں روٹی پکڑے سٹیج پر چڑھے اور حاضرین جلسہ سے سوال کیا کہ ” مسلمانو، تمہیں قرآن چاہئے یا روٹی؟“۔ جواب میں مسلمانوں نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا۔ “روٹی“۔
یہ بہت تشویش ناک صورت حال تھی۔ پاکستان بنانے کے مقاصد میں تو روٹی شامل ہی نہ تھی۔ چنانچہ عوام میں پھیلتی گمراہی کو ختم کرنے کے لئے جنرل شیر علی خان اور اس کے مذہبی حواریوں نے نا صرف دوقومی نظریہ تخلیق کیا بلکہ پہلی دفعہ فارسی زبان کے لفظ پاکستان کا عربی زبان میں ترجمہ بھی کیا ،یعنی ” لاالٰہ الاللہ“۔
دوسری طرف انڈونیشیا کی ایک خاتون زہرہ فونا نے دعویٰ کر دیا کہ اس کے پیٹ میں مہدی آخرالزمان پرورش پارہے ہیں جس کی مختلف لوگوں نے تصدیق بھی کی۔ عالم اسلام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ بس اب مسلمانوں کے برے حالات کا خاتمہ ہونے ہی والا ہے جس کے بعد پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو عروج حاصل ہوگا اور دشمنان اسلام کا خاتمہ۔
مختلف مسلمان ممالک میں مریم ثانی زہرہ فونا کو سرکاری دعوت پر بلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پاکستانی حکومت نے بھی عوام کو گمراہی سے بچانے اور اس کی توجہ روٹی سے ہٹاکر آخرت پر مرکوز کرنے کی خاطر زہرہ فونا کو پاکستان کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت دے ڈالی۔
زہرہ فونا کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی علماء سے اس بات کی تصدیق چاہی گئی کہ خاتون کے پیٹ میں بچہ ،واقعی امام مہدی ہی ہیں ۔ چنانچہ مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا اوکاڑوی نے باری باری خاتون کی بچہ دانی کے قریب کان لگا اذان سننے کے بعد پورے یقین کے ساتھ بیان جاری کیا کہ اذان کی آواز خاتون کے اندرونی حصوں سے ہی آرہی ہے اور بس اب امام مہدی کی آمد آمد ہے۔
اس کے بعد امام مہدی کی امامت میں نماز کا سلسلہ شروع ہوا۔ زہرہ فونا کعبے کی طرف لیٹ جاتی اور علماء و مشائخ کے علاوہ عام لوگ بھی امام مہدی کی اقتدا میں نماز ادا کرتے۔
لیکن چند ملحد قسم کے ڈاکٹروں کے لئے اس بات پر یقین کرنا مشکل تھا۔ چنانچہ انہوں نے صحیح صورت حال کو جاننے کی ٹھان لی۔ مگر زہرہ فونا ہر دفعہ انہیں چکر دے کر نکل جاتی۔ مسلسل کوشش کے بعد ایک دن ڈاؤ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر اسے قابو کرکے معائنہ کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے اور دوران تفتیش زہرہ فونا کی ٹانگوں کے درمیان پھنسا ہوا ننھا منا ٹیپ ریکارڈر برآمد کرلیا۔
اسی روز زہرہ فونا پاکستان سے براستہ انڈیا انڈونیشیا بھاگ گئی اور پاکستانیوں نے مزید ماموں بننے کا عظیم موقع ہاتھ سے کھو دیا۔
♦
8 Comments