افغان طالبان نے بھارت کے طرف سے افغان حکومت کو ایک بلین ڈالرز کی امداد پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افغان عوام سےدشمنی ہے۔
اس امداد کا اعلان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی نئی دہلی میں ملاقات کے بعد کیا گیا۔ افغان صدر اشرف غنی نے بدھ 14 ستمبر کو اپنے دورہ بھارت کے موقع پر اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے ملاقات کی۔ غنی نے اس موقع پر پاکستان کا نام لیے بغیر اس کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق دونوں رہنماوں نے دفاعی اور سکیورٹی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا اور کسی ملک کا نام لیے بغیرسیاسی مقاصد کے لیے خطے میں دہشت گردی اور تشدد کو استعمال کرنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔
اس اتفاق پر کابل حکومت کے خلاف لڑنے والے افغان طالبان چراغ پا ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ’’امریکا کی غلام کابل حکومت کو کوئی بھی ملک اگر امداد دے گا تو یہ افغان عوام سے دشمنی کرنے کے مترادف ہوگا۔ افغان حکومت چاہے اسے معاشی امداد کا نام دے، وہ ان پیسوں سے ہتھیار خرید کر افغان بچوں، خواتین اور عوام کو نشانہ بنائے گی۔ ہم ایسی امداد کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔ اس سے افغانستان کے مسائل میں اضافہ ہوگا‘‘۔
مبصرین کے مطابق افغان طالبان کی تشویش یا برہمی دراصل پاکستان کی ایسٹیبشلمنٹ کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسلام آباد میں اس معاہدے کو ایک ایسی بھارتی کوشش سے تعبیر کیا جارہا ہے، جس کے ذریعے وہ افغانستان میں اپنی موجودگی کو مزید مضبوط کر کے پاکستان کو غیر مستحکم کرے گا۔
بھارت پچھلے کئی سالوں سے افغانستان کی مختلف شعبوں میں امداد کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کررہا ہے جو پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کے لیے ناقابل قبول ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ افغانستان کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی خواہش رکھتی ہے اور اس کی تمام خارجہ پالیسی اسی ایک نکتے پر گھومتی ہے۔
اس کے برعکس پاکستان کی سیاسی قیادت بھارت اور افغانستان سے دوطرفہ دوستی کے تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے ۔ سیاسی قیادت کی طرف سے ایسی کسی بھی کوشش کو سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ سبو تارژ کر دیتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان مسلسل بدامنی کا شکار چلا آرہا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ مسلسل مذہبی انتہا پسندوںکو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ وہ اچھےطالبان کی مالی امداد کر رہی ہے جو افغانستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔
سینیٹر افراسیاب خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارا یہ کہنا ہے کہ افغانستان اور بھارت دونوں خود مختار اور آزاد ملک ہیں اور وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ بھارتی امداد اس بات کا اشارہ ہے کہ نئی دہلی اور کابل میں تعلقات خوشگوار ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے تعلقات افغانستان کے ساتھ اچھے نہیں ہیں۔کاش ہمارے تعلقات بھی ان کے ساتھ اچھے ہوتے۔ میں اس معاہدے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار ہی کر سکتا ہوں‘‘۔
پاکستان کے افغانستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا، ’’جب اشرف غنی اقتدار میں آئے تو وہ پاکستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ اڑتالیس ایم او یوز پر بھی دستخط کیے۔ پاکستان نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے گا اور ہم وہ وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ زرداری صاحب بھی اور ہماری موجودہ سویلین حکومت بھی کابل کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتی ہے لیکن ہماری سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ رکاوٹیں پیدا کرتی ہے۔ وہ اب بھی اچھے اور برے طالبان اور اسٹریٹیجک ڈیپتھ کے تصور پر یقین رکھتی ہے۔2014 میں پاکستان کے حوالے سے افغان رائے عامہ بہت مثبت تھی لیکن اب وہ افغانستان میں خون ریزی کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھتے ہیں۔ اِن سارے مسائل کے باوجود دونوں ملکوں میں تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں اگر ہم اپنی پرانی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں‘‘۔
DW/News Desk
♦