دَف بجاتے رہو، گیت گاتے رہو

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامی۔ ٹورنٹو

شمالی امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کو تقریباً ہر روز ، شدید قدامت پرست مسلمانوں کے اٹھائے ہوئے نئے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو اپنی مرضی سے ترکِ وطن کر کے امریکہ، کینیڈا، اور مغرب میں آبسے ہیں۔

آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ ٹورونٹو کے ایک قرآن پڑھانے والے مسلمان نے جو ایک مسجد میں امامت بھی کرتے ہیں، یہ قضیہ کھڑا کر دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہاں کے اسکولوں میں نافذ موسیقی کی لازمی تدریس میں شرکت کی اجازت نہیں دے سکتے۔ یہ مسئلہ تقریباً تین سال سے چل رہا ہے۔ اس دوران انہوں نے اپنی حمایت میں ایک سو سے زیادہ دستخط بھی حاصل کر لیے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی انہوں نے مسلمانوں کی ایک جماعت ’نیشنل کونسل آف کینیڈین مسلمز‘ کی حمایت بھی حاصل کر لی ہے۔ اس جماعت کاکہنا ہے کہ اسکولوں کی انتظامیہ کو ایسا مطالبہ کرنے والے مسلمانوںسے مصالحت کرنا ہو گی۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ یہ جماعت ہر مسلم قدامت پرست مطالبے میں خود کو آزاد خیال ظاہر کرتی ہے ، گو یہ بارہا قدامت پرست نظریات کی حامی رہتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اسکولوں کے اداروں نے طرح طرح کے حل پیش کیے، دف اور نشید وغیرہ کے حوالے دیے لیکن اس مسلم امام نے کسی بھی نرمی سے انکار کر دیا۔ ان سے کہا گیا کہ بچوں کو ساز نہیں بجانے پڑیں گے، وہ صرف تالیاں ہی بجادیں، لیکن اس کا جواب یہ تھا کہ ہم یہ بھی نہیں کر سکتے۔ یہاں تک کہ انہوں نے کینیڈا کے قومی ترانے کی مشق میں بھی شرکت سے انکار کر دیا۔

ٹورونٹو کا وہ علاقہ جس سے موسیقی مخالف ان شدت پرست مسلمان کا تعلق ہے، گزشتہ دنوں میں ایسے کئی مطالبوں سے دو چار ہوتا رہا ہے۔ تقریباً ایک دو سال پہلے یہاں کا ایک اسکول مشہور ہوا تھا جہاں مسلمان طلبا نے اسکول کے کیفے ٹیریا میں جمعہ کی نماز کا انتظام شروع کیا تھا، اور اسکول نے مصالحتاً ان کو اس کی اجازت دی تھی۔

جس صورتِ حال نے اس معاملہ کو مشہور کیا وہ یہ تھا کہ اس نماز کے دوران وہ خاتون طلبا جو’ اپنے ماہانہ دورانیہ کی وجہہ سے نماز پڑھنے سے قاصر تھیں‘ ، اس جماعت کے حلقہ سے باہر بیٹھی دکھائی دیتی تھی۔ ان کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ اس دوران میں کہیں اور بیٹھ جائیں، لیکن اپنی مسلم شناخت ثابت کرنے کے اصرار پر انہوں نے نمازیوں کے ساتھ ان کے حلقہ سے باہر بیٹھنا پسند کیا۔

اسی علاقہ کے مسلمانوں نے صوبہ اونٹاریو کے ’جنسی تعلیمی نصاب‘ کے خلاف شدید ہنگامہ کھڑا کیا۔ کینیڈا کی قدامت پرست سیاسی جماعت ’کنزرویٹو پارٹی ‘ بھی ان کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی، اور حالیہ ضمنی انتخابات میں اس نے نہایت چالاکی سے اس مسئلہ کو پھر سے اٹھا کر اس علاقہ کے مسلمانوں کو ایک آزاد خیال امیدوار کو شکست دینے کے لیے استعمال کیا۔ مسلمانوں کی سخت ترین مخالفت کے باوجود صوبہ کی حکومت نے کسی بھی قسم کی مصالحت کرنے سے انکار کیا ہے۔ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں مسلمانوں نے اپنے بچوں کو ’جنسی تعلیم ‘ کی کلاسوں سے اٹھا لیا ہے۔

جنسی تدریس کے تنازعہ میں قدامت پرست مسلمانوں کو کئی بڑی اسلامی جماعتوں کی خفیہ اور اعلانیہ حمایت حاصل تھی۔ کچھ مسلمانوں نے یہ مہم بھی چلائی تھی کہ ہم مسجدوں اور مدرسوں میں متبادل جنسی تعلیمی نصاب کا انتظام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس کے لیے اپنی انجمنوں سے جو مساجد اور اسکول چلاتی ہیں ، تعاون مانگتے ہیں۔

انہوں نے مسلمانوں سے اس ضمن میں چندوں اور مالی امداد کا مطالبہ کیا۔ ان کا عندیہ تھا کہ ایسی متبادل تعلیم کے لیے مسلمانوں کو پنی جیب سے اخراجات اٹھانا ہوں گے۔ لیکن چونکہ معاملہ مالی تعاون کا تھا سو یہ خیال ٹایئں ٹایئں فِش ہو گیا۔ مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ وہ کینیڈا کی ہر مفت سہولت بھی حاصل کریں، اور کینیڈا کے سیکولر نظام سے مصالحت کرنے کے بجائے نظام کو اپنے حق میں مروڑتے رہیں۔

کینیڈا کے شہری روز ہی یہاں اسلامی قدامت پسندی کا بڑھتا ہوا غلبہ دیکھ رہے ہیں۔ کئی شہروں میں یا منتخبہ علاقوں میں ا س کا مظاہر ہ سڑکوں پر عام ہے۔ حجاب اور نقاب کے ساتھ ساتھ مردوں کی مشرع شلواریں اور پاجامے بھی اب بڑی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ کینیڈا کے میثاق ِ آزادی کی شقوں کے تحت مسلمان اپنی آزادیوں پر تو زور دیتے ہیں لیکن دوسروں کی آزادیوں کے بارے میں کشادہ دلی نہیں دکھاتے۔ ان کا یہ رویہ ہم جنس پرستوں سے تعصب میں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔

کینیڈا کے قدامت پرست مسلمانوںکو اپنی قدامت کو کینیڈا کے شہریوں پر مسلط کرنے کے لیے بے پناہ سہولتیں حاصل ہیں۔ ان کی بڑی انجمنیں اور بڑے ادارے ہیں جنہیں نہ صرف کینیڈا کے مسلمان بے تحاشا چندے اور رقوم فراہم کرتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں غیر ممالک سے بھی امداد ملتی ہے۔

ان ممالک میں سعودی عرب ایک اہم ملک ہے۔ جس حقیقت کو اکثر نظر اندار کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے علاوہ بھی دیگر ممالک جن میں قطر اور متحدہ عرب امارات وغیر ہ شامل ہیں، ان جماعتوں کی یا اپنے ہم خیال گروہوں کی پسِ پردہ مدد میں شریک رہتے ہیں۔ بیرونِ ممالک اسلامی قدامت پرستی کے فروغ میں غیر ملکی شخصی مالی امداد بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

یہ مالی امداد اور سہولتیں بالخصوص کینیڈا میں مسلم انجمنوں کو بہترین قانونی اور سیاسی حمایت حاصل کرنے میں مدد گار ہوتی ہیں۔ یہاں مسلمانوں کے حقوق کے معاملہ پر مقدمہ بازی کے لیے یہ انجمنیں بہترین قانونی دماغ حاصل کرسکتی ہیں، اور اپنے مقدمات بڑی عدالتوں تک لے جا سکتی ہیں۔ موسیقی کے معاملہ میں بھی یہاں اسکولوں کو جتا دیا گیا ہے کہ مسلمان اس قضیہ پر قانونی کروائی کے لیے تیا ر ہیں۔

قدامت پرست مسلمانوں کے بر خلاف، آزاد خیال مسلم ان معاملوں پر عام طور پر آواز نہیں اٹھاتے۔ ان میں آپس کے نظریاتی اختلاف کی وجہ سے پھوٹ پڑی رہتی ہے۔ بارہا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ آزاد خیال مسلم دانشور سیاسی مصلحتوں اور مصالحتوں کی بنیاد پر کئی بار قدامت پرستوں سے شکست کھا جاتے ہیں۔ اور اپنی مصلحتوں سے قدامت پرستی کو پروان چڑھنے میں مدد کرتے ہیں۔

اس کی اہم مثال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب کینیڈا میں نقاب پر پابندی لگانے کا معاملہ اٹھا تو یہ دانشور انسانی حقوق اور آزادیوں کی مصلحتوں میں عورتوں کے حقِ نقاب پوشی کی حمایت میں لگ گئے۔ جہاں تک کینیڈا کے شہریوں اور حکومتی اداروں کا تعلق ہے وہ مسلسل قدامت پرست مسلمانوں کے ساتھ مصالحت اور ان کو مکمل آزادی فراہم کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں، اور وہ ’ہَل مِن مزید‘ کا ورد کرتے رہتے ہیں۔

کینیڈا میں اسلامی قدامت پرستی کے مقابلہ میں صرف چند آوازیں ہیں ، جوہر دشنام طرازی اور طعن و تشنہ کا مقابلہ کرکے عوام کو بڑھتی ہوئی اسلامی قدامت پرستی کے مضر اثرات سے آگاہ کرتی رہتی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں کئی بار ایسی کوششیں کرنے والوں کو تشدد اور کینیڈا ہی میں موت کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔

وہ آزاد خیال دانشور جو قدامت پرستوں سے مصالحت کے جواز پیدا کرتے ہیں، ایسی دھمکیاں بھی نہیں جھیل سکتے، اور چند روز کی پسپائی کے ساتھ پھر کاغذی لن ترانی میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

ہمیں اور ہمارے ساتھیوں کو اس پر فخر ہے کہ ہم نے یہاں کے صوبہ میں خاندانی تنازعات کے مقدموں میں شرعی اور مذہبی قوانین کے استعمال کے خلاف آواز اٹھائی تھی ، جس کے نتیجہ میں اس صوبہ میں کسی بھی مذہب کو قانونی معاملات میں استعمال سے روک دیا گیا تھا۔ موسیقی کے معاملہ میں بھی ہم آواز اٹھاتے رہیں گے، دف بجاتے رہیں گے، گیت گاتے رہیں گے۔

2 Comments