صدیوں ہم کو یاد کرو گے

سید نصیر شاہ

karl_marx

حریت فکر انسان کا بنیادی حق ہے۔ یہ بات بڑے زور شور سے کہی جاتی ہے مگر اکثر اوقات کہنے اور سننے والے دونوں اس کے وسیع معانی اور ہمہ گیر مفا ہیم سے ناآشنا رہتے ہیں۔ آدمی جب شعور ودانش کی وادی میں قدم رکھتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو کئی زنجیروں اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہے کتنے رسم ورواج ہیں جن کی بے ہودگی اور بے معنویت صاف دکھائی دے رہی ہوتی ہے مگر معاشرہ کے خداوندوں کی ہیبت سے سہما ہوا انسان انہیں توڑ تو کجا چھوڑ بھی نہیں سکتا۔

سوچ کی راہ میں سب سے بڑی فصیل مذہب ہے جس کا حصار تنگ سے تنگ تر ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ اس کی قدغنیں زندگی کی ہر سائنس کو باندھ کے رکھ دیتی ہیں۔ سر سے پاؤں تک لباس کس طرح کا پہنو، کھانا کیا کھاؤ اور کیسے کھاؤ، پینے میں کیا پیو اور کس طرح پیو کس طرح سوؤ اور کس طرح جاگو، اپنے ساتھ بیوی بچوں کے ساتھ، بزرگوں کے ساتھ، خوردوں کے ساتھ گلی محلے کے افراد کے ساتھ کیسا سلوک کرو، سوچیں کیسی ہوں عقیدہ اور ایمان کیا ہو۔

اپنے ہم عقیدہ لوگوں اور اس عقیدہ سے اختلاف رکھنے والوں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرو بولوتو پہلے تو لو کہ جوکچھ بول رہے ہو کہیں خدایان مذہب اور خداوندانِ تہذیب کے احکام وفرامین کے خلاف تو نہیں ان ساری جکڑ بندیوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اول تو سوچ ہی نہیں سکتا اور اگرسوچ بیٹھتا ہے تو کہہ نہیں سکتا۔

کتنی سچی اور خوبصورت بات کہی تھی حکیم آزاد انصاری نے (افسوس ہے کہ لوگوں نے اس غریب کا یہ شعر غالب سے منسوب کردیا ؂
افسوس ہے کہ کتنے سخن ہائے گفتنی
خوف فسادِخلق سے ناگفتہ رہ گئے

مگر کتنی اطمینان بخش بات ہے کہ دنیا میں کچھ ایسے’’دیوانے‘‘ بھی گزرے ہیں جن پر فرزانگی کا جنون اتنا غالب ہوا کہ انہوں نے اپنی زندگی اور اپنے لواحقین کی عافیتوں کی پروانہ کرتے ہوئے اپنی سوچوں پر کسی طرح کی پابندی قبول نہ کی اور جو کہنا تھا کھل کر کہا بر ملا کہا اور اکیلا ہوتے ہوئے ساری دنیا سے دشمنی مول لے بیٹھے۔ سچ یہ ہے کہ اگر یہ ’’پاگل اور جنونی‘‘ فرزانے نہ ہوتے تو تاریخ کتنی قلاش ، کتنی غریب اور کتنی بدنصیب ہوتی، غالب نے ٹھیک کہا تھا ؂

گرعشق نہ بودے وغم عشق نہ بودے 
ایں ہاسخن نغزکہ گفتے کہ شنودے
(
اگر عشق نہ ہوتا اور غم عشق نہ ہوتا تو ایسی نادر باتیں کون کہتا اور کون سنتا )

آج کی محفل میں ہم ایسے ہی ایک “دیوانے دانا” کا ذکر چھیڑتے ہیں آپ یقیناًان سے واقف ہوں گے مگر اس تحریر سے ضرور شاید کچھ نئے گوشے آپ کے سامنے آ جائیں ۔

آپ نے مارکس اور اس کی کتاب’’داس کیپیٹل‘‘ کو ضرور پڑھا ہو گا ہمارے قومی شاعر اقبال نے بھی ان کو پڑھا تھا مگر چونکہ اقبال پکا ’’مردِ مومن‘‘ تھا اس لیے اُس نے’’ملحدانہ عقائد‘‘ کی بنیاد پر مارکس کو توٹھکر ادیا لیکن اس کی کتاب ’’سرمایہ‘‘ کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اُسے ایسا پیغمبر قرار دیا جس پر جبرائیل وحی لے کر نہیں اتر ا تھا ایک جگہ کہتا ہے ؂

صاحب’’سرمایہ‘‘ ازنسل خلیل ؑ 
یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل
(’’
سرمایہ‘‘ جیسی کتاب لکھنے والا ابراہیم خلیل اللہ کی نسل سے تھا یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا وہ ایک ایسا پیغمبر تھا جس پر جبرئیل نہیں نازل ہوا تھا)۔

دوسری جگہ کہتا ہے 
آں کلیم، بے تجلی، آن مسیح بے صلیب
نیست پیغمبرولیکن دربغل داردکتاب
(
وہ موسیٰ کلیم اللہ تھا مگر تجلیات طور سے محروم، وہ عیسیٰ تھا مگر مصلوب نہیں ہوا پیغمبر نہیں مگر اس کی بغل میں کتاب‘‘ ہے)

مارکس نے اپنی یہ کتاب3اپریل1867ء میں مکمل کی تھی اور اُس نے برسوں کی جانکاہ تھکن کے بعد اینگلز کو کتاب مکمل ہونے کی اطلاع دی۔ اینگلز اس کا واحد دوست تھا جب1844 میں مارکس کو جرمنی سے نکلنا پڑا تو اسے اینگلز جیسا دوست مل گیا جس نے زندگی بھر اس کی دمسازی کی اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کی مالی مدد کرتا رہا۔ یہ دوستی اور رفاقت چالیس سال پر محیط ہے۔

کہتے ہیں مارکس کو اس کی دن رات کی مشقت ، اپنی اعلیٰ دانشوری کی ناقدری اور نظریات کی پاداش میں ٹوٹنے والی معاشی بدحالی نے اُسے بڑا جھگڑالو بنادیا تھا صرف اینگلزہی تھا جس سے اس کا کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا کتاب کی تکمیل کی اطلاع ملنے پر14اپریل کو اینگلز نے مارکس کو یہ خط لکھا:۔

۔’’تمہاری تمام پریشانیوں کا واحد سبب وہ’’منحوس اور ملعون‘‘ کتاب ہے جس پر تمہاری زندگی کے بہت سے خوبصورت سال مشقت کا پسینہ بن کر ٹپک گئے مجھے یقین تھا کہ جب تک یہ کتاب تمہارا گریبان نہیں چھوڑتی تمہاری جگر گداز مصیبتیں ختم نہیں ہوں گی۔ اس نے تمہیں مالی، جسمانی اور ذہنی مصائب کا شکار بنادیا ہے شکر ہے کہ کتاب مکمل ہو گئی ہے اب تم نئے سرے سے جوان ہو جاؤ گے‘‘۔
(Marx, Angles: Letters. p.85)

یہ کتاب جن حالات میں مارکس نے مکمل کی ان کا ہلکا سا پرتومشہور محقق ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کی اس تحریر میں ملتا ہے وہ لکھتے ہیں:۔

۔’’ شام کو میں روزمرہ کے لکھنے پڑھنے کا دھنداختم کر کے برٹش میوزیم سے نکلا ۔ ایک انگریز دوست بھی ساتھ تھا ہم نے لوہے کے پھاٹک سے باہر قدم رکھا تو میرے دوست نے سامنے پب کی طرف اشارہ کر کے کہا یہ ایک تاریخی عمارت ہے پوچھا وہ تاریخی اہمیت کیا ہے تو بولے جس طرح ہم اور آپ آج کل دن بھرکا کام ختم کر کے بستے ہاتھوں میں اٹھاکے نکلتے ہیں کارل مارکس بھی جس زمانہ میں ’’داس کیپیٹل‘‘لکھ رہا تھا سارا دن برٹش میوزیم میں کام کرتا تھا اور شام کو تھکا ہارا اسی پھاٹک سے نکلتا تھا۔ ایک شام وہ لڑکھڑاکر سڑک پر گر گیا راہ گیروں نے لپک کراٹھا یا تو کارل مارکس نے نحیف آواز میں کہا مجھے تین دن کا فاقہ ہے میں چل نہیں سکتا راہ گیر اُسے اٹھا کر اسی پب میں لے آئے۔ مالک نے فوراً مکھن لگا کر ڈبل روٹی کے توس بنائے اور مارکس کو کھلائے بعد میں بےئر کا ایک بڑا ساگلاس بھی پلا یا تو اس کی جان میں جان آئی۔ یہ دلچسپ روئدادسن کرہم پب کے اندر گئے تو موجودہ مالک نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو میرے دادا کی بالکل نوعمری کا زمانہ تھا اور یہ روایت ہمارے خاندان کے ہرشخص کو معلوم ہے‘‘۔
(
چند تاثرات ص564)

۔’’داس کیپیٹل‘ کے تقریباً تمام بڑی زبانوں میں تراجم شائع ہو چکے ہیں اس کا سب سے پہلا ترجمہ روسی زبان میں ہوا اور اس کے نتائج بھی سب کے سامنے آگئے۔ مارکس کا ایک غیراشتراکی دوست روج تھا اس نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا یہ ایک عہد آفریں کتاب ہے۔۔۔ یہ کتاب اکثر لوگوں اور اخبار نویسوں کی ذہنی سطح سے بہت بلند ہے پھر بھی مجھے یقین ہے کہ یہ اپنا راستہ خود بنالے گی اور زبردست اثرات مرتب کرے گی‘‘۔
(Marx and his book p.43)

اس وقت اس کتاب پر تبصرہ مقصود نہیں صرف فرزانوں کے دیوانہ پن کے سلسلہ میں اس کا ذکر چھڑ گیا اور چونکہ میں یہ تحریر اپریل میں لکھ رہا ہوں اور کتاب بھی اپریل میں مکمل ہوئی تھی اس مناسبت سے بھی مارکس اور ’’سرمایہ‘‘ کی یاد آگئی۔ سرمایہ’’ آج بھی ایک زندہ اور عہد آفریں کتاب ہے اور شاید کبھی نہ مرسکے۔

One Comment