عاصمہ جہانگیر نے سچ کہا ہے۔ایک دیانت دار با ضمیر شخص سے ایسے ہی سچائی کی توقع کی جا سکتی ہے۔کشمیر کے سوال پر انہوں نے طویل خاموشی توڑی تو اپنے منفرد انداز میں توڑی۔بھارت کی سیکورٹی فورسز جو کچھ کشمیر میں کر رہی ہیں اس کی انہوں نے کھل کر مذمت کی۔جو کچھ ان کے مشاہدے میں آیا وہ انہوں نے بلا کم و کاست بیان کر دیا۔کشمیر کے مستقبل کے سوال پر انہوں نے پاکستان اور بھارت دونوں کے روائیتی اور سرکاری موقف سے ہٹ کر بات کی۔
ان کے اس بیان پر پاکستان اور بھارت کے سرکاری حلقوں میں نا پسند کیا گیا وہاں کچھ لبرل اور روشن خیال لوگوں نے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا۔ان تحفظات کی وجہ مگر دوسری ہے۔ان حلقوں کا خیال ہے کہ اس وقت کشمیر میں پائی جانے والی بے چینی یا تحریک کی قیادت اسلامی بنیاد پرستوں کے ہاتھ میں ہے۔اور ایسے وقت میں اس تحریک کی حمایت کا مطلب کشمیر میں سیکولر اور روشن خیال قوتوں کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔کشمیر میں خود مختاری کی حامی قوتوں کے لیے یہ ایک حوصلہ افزا بیان ہوتا اگر کشمیر کی موجودہ تحریک میں ان کا لیڈنگ رول ہوتا۔مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے۔
موجودہ بے چینی میں متحرک کردار ادا کرنے والی قوتوں کا واضح جھکاؤ اسلامی بنیاد پرستی کی طرف ہے۔تحریک پر عقیدے اور مذہب کی گہری چھاپ ہے۔کشمیری نیشنل ازم کی جگہ مذہبی نیشنل ازم لے رہا ہے۔اور تحریک کی قیادت آہستہ آہستہ علی گیلانی کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔یہ صورت حال ان لوگوں کے لیے تشویش کا باعث ہے جو مذہب کو سیاست میں استعمال کرنے کے خطرات اور تباہ کاریوں سے واقف ہیں۔خصوصاً جب سیکولر اور جمہوری قوتوں سے لڑائی کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں افغانستان کا دردناک تجربہ ہمارے سامنے ہے۔یہاں شروع شروع میں روس نواز سیکولر حکومتوں کے خلاف مذہبی جنون پیدا کرنے والوں کو حریت پسند قرار دیا جاتا رہا۔لیکن ان لوگوں نے رفتہ رفتہ پورے سماج کو طالبانائیز کر دیا ۔ اور مذہب کے نام پر آگ و خون کی ہولی کھیلتے ہوئے ملک سے تمام تہذیبی حاصلات مٹا کر اس کو کھنڈرات میں بدل کر رکھ دیا۔حالانکہ گزشتہ تیس پینتس سالوں سے افٖغانستان کے اندر لڑی جانے والی لڑائی زیادہ تر غیر ملکی فوجوں کے خلاف تھی۔
ان فوجوں کو عام طور قابض قوتیں سمجھا جاتا رہا۔چونکہ قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت یا آزادی کی لڑائی مقامی لوگوں کا جائز حق تسلیم کیا جاتا ہے اس لیے بہت سے ترقی پسند اور لبرل لوگ بھی طالبان کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے رہے۔قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت یا آزادی کی لڑائی بلاشبہ ایک عظیم آدرش ہے مگر غور کرنے کی بات تو یہ تھی کہ کیا طالبان کو ان عظیم ادرشوں کا کوئی شعور کوئی احساس تھا؟
اس شعور کا اندازہ لگانے کے لیے مُلا عمر کی قیادت میں طالبان حکومت کے مختصر دور کا جائزہ لینا ضروری ہے۔اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ان لوگوں نے افغانستان پر جبر کا یک ایسا وحشیانہ نظام مسلط کیا جس کی مثال قرون وسطی کے تاریک دور میں بھی نہیں ملتی۔افغان سماج کبھی اس ظلم ، جبر اور غلامی کا شکار نہیں رہا جو اس نے طالبان دور میں دیکھا۔انسانی حقوق کی اس سے زیادہ سنگیں خلاف ورزیاں کبھی نہیں ہوئیں۔شہری آزادیوں پر اس سے زیادہ پابندیاں کبھی نہیں لگیں۔عورتوں کے حقوق پر اس سے بڑا ڈاکہ کبھی نہیں پڑا۔
اس دور میں بننے والے قوانین اور حکومتی پالیسیاں دیکھ کر اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ مزاحمت اور آزادی جیسی عظیم ادرشوں سے ان لوگوں کا دور پرے کا بھی تعلق نہیں تھا۔ یہ جو کچھ کر رہے تھے اس کے پس منظر میں کہیں مذہبی جنون تھا، کہیں انتقام کا جذبہ تھا۔کہیں لوٹ مار اور لالچ تھی۔ کہیں طاقت اور اقتدار کی خواہش تھی۔چنانچہ جوں ہی یہ لوگ اقتدار پر قابض ہوئے انہوں نے ایک فاشسٹ قوت کی شکل اختیار کر لی۔
اس لیے کسی تحریک کو مزاحمت یا آزادی کی عظیم تحریک قرار دینے سے پہلے اس تحریک میں شریک کارکنوں اور رہنماوں کے نظریات، خیالات، خواہشات اور مجموعی طرز زندگی کا گہرا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ورنہ مزاحمت اور آزادی کے نام پر عوام پر ایک جابرانہ اور غلامی سے بھی بد ترین نطام مسلط ہو سکتا ہے، جیسا کہ ملاں عمر کے دور میں افغانستان میں ہوا تھا یا اس سے پہلے انقلاب کے نام پر ایران میں ہوا تھا۔
اس طرح کشمیر میں جس کو ہم آزادی کی تحریک کہتے ہیں یہ ہر دور میں مختلف رہی ہے۔ ڈوگرہ دور میں کشمیر میں آزادی کی تحریک مختلف تھی۔شیخ محمد عبداللہ کی قیادت میں جو آزادی کی تحریک تھی اس کا رنگ بالکل مختلف تھا۔جس تحریک کی قیادت مقبول بٹ کر رہے تھے وہ وہ ایک بالکل مختلف اور منفرد تحریک تھی۔ اور جس تحریک کی قیادت علی گیلانی کر رہے ہیں یہ بنیادی طور پر ایک مختلف تحریک ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہر تحریک کو آزادی کی تحریک نہیں کہا جا سکتا۔اور نہ ہی لفظ آزادی کا استعمال کسی تحریک کو آزادی کی تحریک بنا سکتا ہے۔کسی تحریک کو آزادی کی تحریک صرف اس وقت سمجھا جا سکتا ہے جب وہ سماج کو اس کے پاس پہلے سے موجود انسانی حقوق سے زیادہ انسانی حقوق کی ضمانت دے۔پہلے سے زیادہ شہری آزادیاں دے سکے۔پہلے سے زیادہ سوچنے اور اظہار رائے کی آزادیوں کی ضمانت دے۔پہلے سے زیادہ بہتر سماجی اور معاشی انصاف کی ضمانت دے۔
یہ ساری ضمانتیں صرف ایک ترقی پسند، روشن خیال سماج کے حامی ہی دے سکتے ہیں۔اور آزادی کی حقیقی لڑائی بھی صرف یہی لوگ لڑ سکتے ہیں۔
♦