لیاقت علی ایڈووکیٹ
پاکستان کیوں اور کیسے بنا کی بحث قیام پاکستان یا تقسیم ہندوستان کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی اور گذشتہ69 سالوں سے بلا توقف جاری وساری ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مزید 69 سال اسی طرح جاری رہے گی ۔
کچھ لوگوں کا موقف ہے کہ پاکستان کا قیام کانگریس کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھا ( ہماری قومی جدو جہد از ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی اور عائشہ جلال ’واحد ترجمان‘) ۔ کانگریس اگر جناح کو سیاسی طور پر اکاموڈیت کردیتی تو وہ کبھی بھی علیحدہ ملک کا مطالبہ نہ کرتے ۔ ان کے نزدیک کانگریس قیادت نے ہر مر حلے پر جناح کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اکثر صورتوں میں انھیں سیاسی طور پر نیچا دکھانے اور تنہا کرنے کی بھی کوشش کی ۔
ان افراد کا موقف ہے کہ جناح نے کانگریس کے ہاتھوں شکست قبول کرنے کی بجائے کانگریس کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مطالبہ پاکستان ان کی کانگریس کے خلاف لڑائی کا ہتھیار تھا نہ کہ کوئی نظریاتی مقصد جس سے وہ انحراف نہیں کر سکتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کیبنٹ مشن پلان منظور کیاجو متحدہ ہندوستان کی ضمانت فراہم کرتا تھا یہ تو کانگریس تھی جس نے پہلے یہ پلان تسلیم کیا بعد ازاں اس سے مکر گئی۔ دراصل جناح علیحدگی نہیں چاہتے تھے یہ تو کانگریسی قیادت تھی جس نے اپنی پالیسیوں کی بدولت علیحدگی ان پر تھوپ دی تھی( جسونت سنگھ ) ۔
کچھ کا کہنا ہے کہ کانگریس کی ہٹ دھرمی تو محض بہانہ تھی دراصل جناح زبردست قسم کے انانیت پسند تھے اور مطالبہ پاکستان انھوں نے گاندھی اور نہرو کو جنھیں وہ سیاست میں اپنا جونئیر خیال کرتے تھے ، شکست دینے کے لئے کیا تھا ۔ جناح کے نزدیک سب سے زیادہ جس چیز کو اہمیت حاصل تھی وہ ان کی شخصیت تھی ۔عوام اورمسلمان یہ سب تو ان کے ہتھیار تھے جن سے وہ اپنے مخالفین کے خلاف صف آرا ہوتے تھے ۔ پاکستان کا قیام ان کی شخصیت کی تکمیل کا ذریعہ تھا نہ کہ کوئی نظریاتی مقصد۔
ایک نقطہ نظر جس کو گذشتہ سالوں میں بہت پذیرائی ملی ہے وہ تقسیم ہند کے پس پشت کار فرما انگلستان کے جیو پولیٹیکل مفادات کا ہے ۔ نریندر سنگھ سریلہ اپنی کتاب دی گریٹ گیم میں لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کا قیام انگلستان کے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کی تکمیل کے لئے ضروری تھا‘‘۔اس نقطہ نظر کے حامی لارڈ ویول جو ماؤنٹ بیٹن سے پہلے غیر منقسم ہندوستان کا وائسرائے تھا، کوپاکستان کا ’بانی ‘قرارد یتے ہیں۔
پروفیسر امین مغل نے لکھا ہے کہ’’ بٹوارے کی ناگزیریت کی ایک شکل بائیں بازو کی طرف سے بھی آئی ۔ سابق میجراسحاق محمد کا خیال تھا کہ وہ علاقہ جہاں موجودہ پاکستان قائم ہے صدیوں کے عمل سے ایک شناخت حاصل کر چکا تھا( پنجاب کا المیہ ) ۔ اسی کو بعد میں اعتزاز احسن نے اپنی کتاب’’ انڈس ساگا‘‘ میں دوہرایا۔
یہ ناگزیریت میجر صاحب کی دریافت نہیں تھی ۔ دراصل پاکستان کے قیام کے فورا بعد اس کے نظریاتی جواز کا سوال بھی اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ مختلف حلقوں کی طرف سے اس کے مختلف جواز فراہم کئے گئے ۔ جناح نے پاکستان کو درپیش نظریاتی الجھن کا حل اپنی 11 اگست کی تقریر میں تجویز کیا تھا لیکن ان سے یہ کسی نہیں پوچھا تھا کہ اگر ہندو نے ہندو نہیں رہنا اور مسلمان نے مسلمان نہیں رہنا تو پھر پاکستان کے قیام کا جواز کیا تھا ۔اگر ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں تو پھر مذہب کی بنیا د پر مسلمان ایک قوم کیسے ہوئے ۔ لیکن وہ تھے قائد اعظم ان سے کون پوچھتا ۔
ایک انگریز صحافی آئن سمتھ نے جواخبار سٹیٹس مین کے ایڈیٹر تھے،سب سے پہلے ایک کتاب’’نیو کنٹری اولڈ سولائزیشن‘‘ کے نام سے لکھی تھی جس میں اس نے یہ تھیسس پیش کیا تھا کہ پاکستان اگرچہ ایک نیا ملک ہے لیکن جن علاقوں پر یہ محیط ہے وہ صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کے وارث ہیں ۔
یہ کتاب چھپنے کی دیر تھی کہ وہ تمام دانشور جو پاکستان کی نظریاتی اساس، مذہب، کو تسلیم کرنے سے ہچکچاہٹ محسو س کرتے تھے یہ ثابت کرنے پر تل گئے کہ پاکستان بالخصوص مغربی پاکستان تو ان علاقوں پر قائم ہوا ہے جو صدیوں سے ہند سے علیحدہ رہے ہیں اور یہ علاقے بدھ مذہب جو برہمن ازم کا دشمن تھا کا مرکز بھی رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک ان علاقوں میں اسلام کے پھیلاؤ کے پس پشت بھی یہاں بد ھ مذہب کے اثرا ت کی موجودگی تھی ۔ بدھ مت بت پرستی سے انکار کرتا ہے اور اسلام بھی بت پرستی کا مخالف ہے اسی لئے ان علاقوں میں اسلام قبول عامہ کا درجہ اختیار کر گیا ۔
لوگوں کے مذہب تبدیل کرنے کی کتنی سادہ توجیح ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شمالی ہند میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص ہندوؤں کی تجارتی ذاتوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا اور جہاں انھوں نے ترک مذہب کیا وہاں یہ فعل انفرادی نہیں بحیثیت ذات اور کمیونٹی تھا ۔ پنجاب میں بہت کم بنئے اور کھتری مسلمان ہوئے۔
مذکورہ نقطہ نظر کے حامل دانشوروں کے نزدیک پاکستان اور بھارت (جوبقول ان کے برہمن ازم کا علم بردار ہے) کے مابین پائے جانے اختلافات اور تضادات قدرتی اور حقیقی ہیں اور ان کی صدیوں پرانی تاریخ ہے۔ شاید امین مغل کو یاد ہو کہ ستر کی دہائی میں جب پاکستان اور بھارت کے مابین بہتر تعلقات کی بات کی جاتی تھی تو ڈاکٹر عزیز الحق حلقہ ارباب ذوق میں یہی تھیسس دیا کرتے تھے ۔ یہ صرف عزیز الحق تک ہی محدود نہیں تھا وہ تمام لیفٹسٹ جو ان دنوں ’ فکر ماوزئے تنگ ‘ سے متاثر تھے یہی تھیسس دے کر بھارت دشمنی کو نظریاتی جواز فراہم کیا کرتے تھے ۔
میجر اسحاق ، زاہد چوہدری ، صفدر میراور احمد بشیر ایسے دانشور بر صغیر کے مسلم عوام اور ہندو وں کے مابین ’تضادات ‘ کوناقابل حل خیال کرتے ہیں اور ان دوریاستوں کی باہمی کش مکش کاتاریخی اور نظریاتی جواز فراہم کرتے ہیں ۔ یہ حضرات گاندھی اور نہرو کی مذمت کرتے اورانھیں ہندو بورژوازی کا نمائندہ بتاتے ہیں۔ جب کہ جناح ان کے نزدیک مسلم عوام کی خواہشوں اور امنگوں کا ترجمان قرار پاتا ہے۔
اعتزاز احسن دانشورو ں کے اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ مذہب کے نام پر پاکستان کے قیام کو تومسترد کرتے ہیں لیکن ہند سندھ کی فکری اور جغرا فیائی دوئی کے نظریہ کی آڑ میں دو قومی نظریئے کو سیکولر جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اعتزازاحسن نے بھی اپنے سیاسی کیر ئیر کا آغاز معروف ’’پروفیسر گروپ ‘‘سے وابستگی سے کیا تھا جو ان دنوں فکر ماوزے تنگ کے چشمہ فیض سے اپنی نظریاتی پیاس بجھایا کرتا تھا۔
عبدا للہ ملک مرحوم نے مشرقی پاکستان کی مغربی بنگال سے علیحدہ شناخت ثابت کرنے کے لئے ’ بنگالی مسلمانوں کی صد سالہ جدو جہد آزادی ‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں فرائضی تحریک کو مشرقی بنگال کے مسلمانوں کی علیحدہ وطن کی تحریک کا پیش رو قرار دیا تھا ۔ ان کی یہ کتاب مجلس ترقی ادب نے سرکاری فنڈز سے شائع کی تھی۔
رشید اخترندوی نے ’’مغربی پاکستان کی تاریخ ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی جس میں مغربی پاکستان میں شامل علاقوں کو آریاؤں کے عہد سے ہند سے علیحدہ خطہ ثابت کیا گیا تھا ۔ ان کی کتاب ون یونٹ کو نظریاتی جواز فراہم کرنے کی سعی تھی۔یہ کتاب بھی ایک سرکاری ادارے نے شائع کی تھی ۔
ابن حنیف ایک ایسے پاکستانی مصنٖف ہیں جنھوں نے آثار قدیمہ ، متھالوجی اور انتھر وپولوجی کے حوالے سے جو لٹریچر لکھا ہے اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ۔ انھوں نے بھی اپنی کتاب’ سات دریاؤں کی سرزمین ‘ میں سندھ کو ہند سے علیحدہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔
ڈاکٹر مبشر حسن نے بھی اپنی کتاب’ شاہراہ انقلاب‘ میں ’’نئے پاکستان‘‘( جب یہ کتاب لکھی اور چھپی اس وقت مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھا ) اور بھارت کو قدرتی حریف ثابت کیا ہے اور قیام پاکستان کو ’تاریخی ناگزیریت ‘ بتا یا ہے ۔
گذشتہ چھ دہائیوں میں بہت سے دانشور وں اور مورخین نے اپنے اپنے طور پر پاکستان کو نظریاتی جواز فراہم کرنے کی کوششیں کی ہیں ۔ لیکن مسئلہ علم الکلام کا ہے ۔ یعنی پہلے اپنا تھیسس متعین کر لیا اور پھر اس کے حق میں دلائل اور جواز ترتیب دے لیے ۔
ہندوستان کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین اگر کوئی تضاد تھا تو اس کا حل علیحدگی میں نہیں تھا اور یہ بات گذشتہ69 سالوں میں ثابت ہوچکی ہے ۔
♠
6 Comments