آصف جیلانی
اس حقیقت میں اب کوئی شک و شبہ نہیں کہ ۵ اگست ۶۵ کو شروع ہونے والا آپریشن جبرالٹر ، ۶۵ کی جنگ کا پیش خیمہ تھا، بلکہ جنگ کا سبب بنا تھا۔ آپریشن جبرالٹر بھی عجیب و غریب آپریشن تھا۔ فیصلہ صدر ایوب خان کا نہیں تھا بلکہ وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے معتمد عزیز احمد نے ، رن آف کچھ کے معرکہ میں پاکستان کی جیت کے بعد کشمیر کی آزادی کے لئے آپریشن جبرالٹر کا ایسا جال بچھایا کہ ایوب خان بے دست و پا رہ گئے ۔
ایوب خان اس آپریشن کے حق میں نہیں تھے اور اس زمانہ کے چیف آف اسٹاف جنرل موسیٰ بھی اس نوعیت کے آپریشن کے خلاف تھے ۔ ان دونوں کا یہ استدلال تھا کہ کشمیر میں چھاپہ مار جنگ صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے جب کشمیر کے عوام اس میں بھرپور حصہ لیں، جس کے لئے عوام کی حمایت حاصل کرنے اور زمین ہموار کرنے میں کافی وقت درکار ہے۔ اس آپریشن کے اصل روح رواں ، ذوالفقار علی بھٹو اور عزیز احمد نے ایک سال پہلے سے لبریشن سیل کے نام سے ایک خفیہ سیل قائم کر رکھا تھا، یہاں تک کہ اس زمانہ کے فضایہ کے سربراہ نور خان کو بھی اس کی اطلاع نہیں تھی ۔
پھر جن کشمیریوں کی آزادی کے لئے یہ آپریشن تیار کیا گیا تھا ان کی قیادت کو نہ وادی میں اور نہ آزاد کشمیر میں اعتماد میں لیا گیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ سادہ لباس میں ۲۵ ہزار فوجی وادی میں داخل ہوں گے اور شیخ عبداللہ کی گرفتاری کی گیارہویں سالگرہ کے دن ۸اگست کو سری نگر کے جلسہ عام میں جو محاذ رائے شماری نے بلایا تھا ، شامل ہو کر وہاں سے شورش کا آغاز کریں گے۔ محاذ رائے شماری کے رہنماؤں کو بھی اس منصوبہ کا علم نہیں تھا، اور جیسے ہی انہیں اس کی سن گن ہوئی تو محاذ کے رہنماؤں نے اچانک یہ جلسہ عام منسوخ کردیا اور وہ خود روپوش ہو گئے۔
آپریشن جبرالٹر کے کرتا دھرتا اس زعم میں تھے کہ یہ آپریشن اتنا خفیہ ہے کہ کسی کو اس کا علم نہیں کہ یہ نام نہاد کمانڈوز جو اصل میں ۱۸ اور ۲۰ سال کے نئے رنگروٹ فوجی تھے کہاں سے وادی میں داخل ہورہے ہیں لیکن اسلام آباد میں سی آئی اے کے جاسوسوں کو ان کی نقل و حرکت کے بارے میں ایک ایک لمحہ کی خبر تھی ، وہ یہ خبر دلی میں امریکا کے سفیر چسٹر بولز کو پہنچا رہے تھے اور چسٹر بولز ہر شام کو وزیر اعظم لال بہادر شاستری سے ملاقات میں پاکستانی کمانڈوز کی نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کردیتے تھے۔ نتیجہ یہ کہ ۹ روز کے اندر اندر بیشترپاکستانی کمانڈوز پکڑے گئے یا ہلاک کر دئے گئے۔ وادی میں کشمیری قیادت کو چونکہ اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا لہذا کئی مقامات پر کمانڈوز نے مساجد میں پناہ لی تو اماموں نے ان کی اطلاع حکام کو کردی اور یہ گرفتار کر لئے گئے ۔
آپریشن شروع ہونے سے پہلے جب ایوب خان نے یہ خطرہ ظاہر کیا تھا کہ کشمیر میں آپریشن کے جواب میں ہندوستان بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو اور عزیز احمد نے ایوب خان کو باور کرایا کہ امریکیوں نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہندوستان بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی نہیں کر ے گا ، لیکن جب پاکستانی کمانڈوز نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ، جہاں سے اکھنورصرف ۶ میل دور رہ گیا تھااور اگر اکھنور پر پاکستانی فوج کا قبضہ ہو جاتا تو پونچھ جانے والی شاہراہ کٹ جاتی اور جموں اور سری نگر کے درمیان راستہ بند ہو جاتا۔ ہندوستان نے اس کے جواب میں وہی اقدام کیا جس کا خطرہ ظاہر کیا جارہا تھا۔
میں اس زمانہ میں دلی میں جنگ گروپ کے اخبارات کے نامہ نگار کی حیثیت سے تعینات تھا۔ ۱۶ اگست کو ہندو قوم پرست جماعت جن سنگھ نے جس کے بطن سے موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لیا ہے، دلی میں عام ہڑتال کا اہتمام کیا تھا اور ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین نے جو ملک کے مختلف علاقوں سے آئے تھے پارلیمنٹ کی جانب مارچ کیا ، جہاں انہوں نے وزیر اعظم لال بہادر شاستری پر بودی پالیسی اختیار کرنے کا الزام لگایا اور مطالبہ کیا کہ کشمیر میں در اندازوں کے حملوں کے جواب میں پاکستان پر حملہ کیا جائے۔
بلا شبہ لال بہادر شاستری کو اس وقت چومکھی دباؤ کا سامنا تھا۔ سیاسی مخالفین کے دباؤ کے ساتھ ان پر فوج بھی شکنجہ کس رہی تھی۔ ۲۰ اگست کو مشہور بین الاقوامی انقلابی ایم این رائے کی تحریک کے ترجمان جریدہ ۔تھاٹ۔ کے نائب مدیر این مکرجی نے نہایت تشویش کے عالم میں مجھے بتایا کہ حالات خطر ناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں اور اس بات کا خطرہ ہے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کر لے۔ انہوں نے بتایا کہ صبح ہی کابینہ کے اجلاس میں بری فوج کے سربراہ جنرل چوہدری نے شرکت کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ رن آف کچھ کے معرکہ میں شکست کے بعد فوج کے حوصلے پست ہیں جس کے مداوے کے لئے پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی لازمی ہے ۔
مکر جی کے مطابق جنرل چوہدری نے صاف صاف الٹی میٹم دیا تھا کہ اگر پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی نہ کی گئی تو ملک کی سیاسی قیادت کے لئے اس کے نتائجخطرناک ہوں گے۔ اسی الٹی میٹم کے بعد ۲۵ اگست کو لال بہادر شاستری نے لوک سبھا میں اعلان کیا تھا کہ کشمیر میں پاکستان کے در اندازوں کو روکنے کے لئے ہندوستان کی فوج، جنگ بندی لائن کے پار کارروائی سے دریغ نہیں کرے گی۔ ۳ ستمبر کو جب لال بہادر شاستری نے نشری تقریر میں دلی میں بلیک آوٹ کا اعلان کیا تو کسی کو شبہ نہیں رہا تھا کہ دونوں ملکوں میں جنگ کا بگل بج گیا ہے۔
اور پھر جب ۵ ستمبر کو یہ خبر آئی کہ پاکستانی فوج نے جوڑیاں پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ اکھنور سے صرف ۶ میل دور رہ گئی ہے ،تو اسی رات کو دیر گئے ہندوستان کے فوج نے بین الاقوامی سرحد پار کر کے لاہور کی سمت پیش قدمی شروع کر دی۔ اس وقت پاکستان میں کہا گیا کہ ہندوستان نے اچانک پاکستان پر حملہ کیا ہے۔ اس زمانہ میں دلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر میاں ارشد حسین نے مجھے راز داری میں بتایا تھا کہ انہوں نے ۴ ستمبر کو ترکی کے سفارت خانہ کے توسط سے پاکستان کے دفتر خارجہ کو خبردار کیا تھا کہ ہندوستان ۶ ستمبر کو بین الاقوامی سرحد پار کر کے پاکستان پر حملہ کرے گا۔
چھ ستمبر کو شروع ہونے والی جنگ میں بلا شبہ پاکستانی فوج نے نہایت شجاعت سے وطن کی سر زمین کا دفاع کیا اور ۳ ہزار جوانوں اور افسروں نے جام شہادت نوش کیا ۔قوم پر لازم ہے کہ وطن پر جان نچھاور کرنے والے فوجیوں کو خراج عقیدت پیش کرے ۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ لازمی ہے کہ ناکام آپریشن جبرالٹر کو پرکھا جائے جس کے نتیجہ میں، کشمیر کی آزادی کی جدوجہد دس سال پیچھے چلی گئی اور ملک کو ۶۵ کی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ۶۵ کی ۱۷ روزہ جنگ کے نتیجہ میں ملک دو لخت ہوا۔ اس جنگ کے دوران ، تقریباً تمام تر فوج مغربی پاکستان کے دفاع پر مرکوز تھی اور ایک ہزار میل دورمشرقی پاکستان یکسر غیر محفوظ تھا۔ بلا شبہ اور بھی اسباب تھے ملک کے دو لخت ہونے کے ، لیکن ۶۵ کی جنگ کے دوران مشرقی پاکستان کے عوام کی نہتی تنہائی کے احساس نے علیحدگی کے سلگتے ہوئے جذبات کو ہوا دی۔
وہ لوگ جو تاریخ کے واقعات کو ایک دوسرے پر اثر انداز محرکات اور ایک دوسرے سے جڑی کڑیوں کی صورت میں دیکھتے ہیں ان کے نزدیک ۵۱ سال قبل آپریشن جبرالٹر اور اس کے نتیجہ میں جنگ در اصل ملک کو دولخت کرنے کا محرک اول ثابت ہوا۔
♦