منیر سامی۔ ٹورنٹو
پھر نقارہ بجتا ہے، دَم دَم، دم دم، دم دم ، دَم دَم۔۔۔ پاکستان میں کوک اسٹوڈیو تک سے قومی نغموں کی جھنکار سے قوم م کو مسحور کیا جا رہا ہے۔ ہمار ے دانشمند دانشور بھی محبِ وطنی کی بارات میں شامل ہورہے ہیں، اور اک بار پھر جلوس ِ رسوائی کا انتظام ہو رہا ہے، اور بھولے ، ننگے ، بھوکے عوام ابھی سے دریچوں میں شمع دانوں کی طرف کھڑے ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
چاہے دانشو ر ہو چاہے معصوم عوام، سب بھول گئے ہیں کہ اب تک ہم نے ہر جنگ ہاری ہے۔ پھر بھی ہم بار بار جوا کھیلتے ہیں او ر ہر بار ہارنے کے بعد ، شاید اس بار جیت جایئں کی توقع میں پھر پانسہ پھینکنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم نے کشمیر میں دخل اندازی کی، ہم نے مشرقی پاکستان گنوایا، ہم نے امریکہ کے پٹھو بن کر افغانستان میں جہا د کا ڈھونگ رچایا ، پھر جہادی خود کش بمباروں کی سد ا بہار فصل بوئی جسے اب ہم جانے کب تک کاٹتے رہیں گے۔
ہم سادہ لوح عوام سے تو سوال نہیں کر سکتے ، لیکن اپنے احباب ِ دانش سے تو پوچھ سکتے ہیں کہ صاحبو، کیا آپ بھی ساحرؔ لدھیانوی کو بھول گئے جنہوں نے جنگ پرست ساحروں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ:
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوئے خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھالی ہوئی ایٹمی بلاوں سے
زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہایئاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھایئاں بھی جل جائیں
تصورات کی پرچھایئاں بھی جل جائیں
ہم پاکستانیوں کو ہر سانس کے ساتھ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم ایک مفلوک الحال قوم ہیں، ہمارے عوام کے پاس نہ پینے کو پانی ہے، نہ زندہ رہنے کے لیے صحت کی سہولتیں۔ ہمیں بار بار جذباتی نغموں اور جھوٹ کی طومار کے ساتھ جنگ میں جھونکاگیا ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ میں ہار ہو یا جیت ہو، صرف جنگ کی تیاری اور دورانِ جنگ اربوں کھربوں کی رقم پُھنک جاتی ہے۔ ہم اپنی ہر جنگ پہلے تو ادھار پر لڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اور جب ادھار پر مانگی رقم جوئے میں ہار جاتے ہیں تو حب الوطنی کے واسطے د ے کر اللہ رسول کے نام پر اپنی ماوں، بہنوں ، بیٹیوں کے ماتھے کے جھومر، ہاتھوں کے جھومر ، او ر کانوں کی بالیا ں تک جنگ کے دہکتی کٹھالی میں پگھلنے کے لیئے ڈال دیتے ہیں۔
بلا شبہ کسی بھی جارح کے خلاف قوم کا دفاع قوم کے عوام کا فرض ہوتاہے ، لیکن خود سے جارحیت شروع کر کے اپنی قوم اور قوم کے فرزندوں کوعَلَم دے کر قتل گاہوں میں بھیجنا ، اجتماعی خود کشی اور گناہِ کبیرہ نہیں تو کیا ہے۔ ہم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو کفن پہنا کر ان کے ماتھوں پر کلمہ کی پٹیاں باندھ باندھ کر ان کے شہید ہونے کی دعایئں کرنے کے عادی ہو گئے ہیں ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ خود کشی کرنے اور خود کشی کی ترغیب دینے پر کسی کو شہات نصیب نہیں ہوتی۔ بلکہ جہنم ایسا کرنے والوں کا مقدر ہوتا ہے۔
کیا ہم نے تاریخ سے یہ سبق نہیں سیکھا ہے کہ جاپان ، اٹلی، او ر جرمنی نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد بد ترین شکست کھانے کے بعد جارحیت اور ناجائز قوم پرستی سے توبہ کی تھی۔ اور اپنے ملکوں کی تعمیر نو میں لگ گئے تھے۔ آج یہی تین اقوام دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑی ہیں۔
کیا ہم پاکستانی یہ نہیں کر سکتے کہ ہمیں بھارت دشمنی کے جو بھاشن دیئے جاتے ہیں، ہم انہیں نظر انداز کرکے، اپنی کمزور، مظلوم ، اور مفلوک الحال کی تعلیم اور ترقی کے لیئے من حیث القوم مستعد ہو جائیں۔ ہمارے پاس اپنے آخری تحفظ کے لیے ایٹم بم تو ہے۔ تو کیا ہم اس ایٹم بم کے سائے تلے یہ نغمہ نہیں گا سکتے، کہ ’’ایٹم بم کے سائے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں‘، اور یہ نغمہ گاتے ہوئے ہم ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر قوم کی ترقی کا عہد کریں، اور خود کشی اور اجتماعی بربادی کا ہر خیال ذہن سے نکال دیں۔
♦